انتخابی نشانات
خواتین وحضرات انتخابات نزدیک سے نزدیک تر آرہے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی کوشش ہوگی کہ اب وہ اپنے نشانات کو زیادہ سے زیادہ مشہور کریں، کیونکہ ووٹ کی پرچی پر یہی نشان موجود ہوگا اور اسی پر مہر لگا کر وہ اپنے نمائندوں کا انتخاب کر سکیں گے ۔ انتخابی نشانات الیکشن کمیشن نے جاری کئے ہیں ۔
ہمیں حیرت ہے کہ کسی سیاسی جماعت نے کسی دوسرے امیدوار یا پارٹی کے انتخابی نشان پر اعتراض نہیں کیا اور نہ ہی اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے ۔ لیکن ہمیں کچھ اعتراضات ہیں اور ہمارے کچھ تحفظات ہیں جس کا اظہار ہم اپنا حق اور قومی فریضہ تصور کرتے ہیں ۔ ہماری دانست میں انتخابی نشانات کی بانٹ کچھ اس طرح ہونی چاہئیے۔
مثلا پاکستان مسلم لیگ (ن) (واضح ہو کہ فیروز خان نون کی نون نہیں ) جن حالات کا شکار ہے اور ہر روز ایک بری خبر سنتی ہے تو اب تک اس کو الاٹ کئے جانے والا ''شیر ''کا نشان مقبولیت کھو چکا ہے اور اس سے کہیں زیادہ مسلم لیگ میں توجہ اور شرکت کی وجہ اور نشان ''چکن بریانی کا ڈبہ''ہے ۔
محترم نواز شریف نے ایک جلسہ میں اس انتخابی نشان کا ذکر بھی کیا اور لوگوں سے کہا کہ وہ چکن بریانی کھا کر جائیں گویا چکن بریانی پر نشان لگائیں اسی طرح پاکستان تحریک انصاف آجکل عمران خان کی شادیوں کے حوالے سے گردش میں آئی ہوئی ہے ، اخبار ، ریڈیو ، ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا پر خان صاحب کی ازواج کے حوالے سے خبریں دھڑہ دھڑ آرہی ہیں ۔ لہٰذا ان حالات میں مناسب یہی تھا کہ الیکشن کمیشن عمران خا ن کو ''بلے''کی بجائے ''سہرے''کا انتخابی نشان مختص کرتا ۔
تیسری بڑی پارٹی پاکستان پیپلز پارٹی ہے ۔
اس کو تیر کا نشان دیا گیا ہے ۔جبکہ اس پارٹی نے بہت سے لوگوں کے جو ان کے اپنے تھے ، ان کے دل پر تیر چلائے ہیں ، جن میں محترمہ ناہید خان اور ان کے شوہر ، ڈاکٹر فہمیدہ اور ان کے شوہر ، بابر اعوان ، ممتاز بھٹو اور کئی ایسے جنہیں ''کھڈے لائن''لگا دیا گیا ہے اور اس پارٹی کو تیر کی بجائے دل پر تیر کا نشان دیا جانا چاہئے تھا۔
ایم کیو ایم اب بھی کراچی اور حیدر آباد کے حوالے سے ایک بڑی سیاسی جماعت ہے ، تاہم اس کے بہت سے حصے ہو چکے ہیں ۔ پہلے یہ جماعت صرف ایک نشان پتنگ پر انتخاب لڑتی تھی اب آپس کی لڑائیوں میں پتنگ کٹ چکی ہے، لہٰذا کمیشن کو چاہئے تھا کہ انہیں کٹی پتنگ کا نشان دیتی۔
یوں بھی کٹی پتنگ فلم کے حوالے سے یہ نشان خاصا مقبول ہو جاتا ۔ جناب اسفند یار ولی ملکی ترقی کے ہر ہر منصوبے پر اپنی پالیسی اور لفظی جنگ کے ہینڈ گرنیڈ چلاتے ہیں ۔ لہٰذا ان کا انتخابی نشان ہینڈ گرنیڈ بہت موزوں تھا ۔ اسی طرح ان کے پیٹی بند بھائی اچکزئی صاحب کو کلاشنکوف کا انتخابی نشان دیا جانا چا ہئے تھا ۔
جماعت اسلامی ایک طویل مدت سے ''ترازو''کا نشان استعمال کرتی ہے ۔مگر موجودہ امیر سراج الحق کی ''کہہ مکرنیوں ''کے پس منظر میں ترازو کے غیر ہموار اور غیر مساوی ہونے کا نشان دیا جانا چاہئے تھا۔مسلم لیگ ق کو اگر دھوپ کے کالے چشمے کا نشان دیا جاتا لوگ دور سے ہی پہچان جاتے کہ یہ شجاعت صاحب اور پرویز الہی کی پارٹی ہے۔
شیخ رشید سیاست کے سلطان راہی ہیں ۔ ان کے دھواں دار بیان اور تڑیاں سیاست میں خاصی گہما گہمی پیدا کئے رکھتی ہیں ۔
ان کا انتخابی نشان بھلا گنڈاسا سے بہتر اور کیا ہو سکتا ہے۔اس طرح اپنے سنجیدہ اور سینئر سیاستدان چوہدری نثار خان کبھی کوئی واضح پیغام یا اشارہ نہیں دیتے ۔ بڑے دھڑلے سے پریس کانفرنس بلاتے ہیں اور ان کی باتوں سے ساری کانفرنس ٹھس ہو جاتی ہے ۔
کبھی مسلم لیگ کبھی آزاد کبھی پابند کبھی عمران کی طرف ہاتھ بڑھایا اور پھر کھینچ لیا ۔ بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اتنا سینئر سیاستدان ایسی طفلانہ حرکتیں کرے ۔ مسلم لیگ ن اور نوازشریف پر برستے بھی ہیں ، مریم نواز سے ناراض بھی ہیں، تاہم ایک دم اس طرف جھکاؤ بھی ہو جاتا ہے جہاں سے انھیں کوئی دلکش پیشکش کی جاتی ہے اس طرف جھک جاتے ہیں
میں خیال و خواب کی محفلیں نہ بقدر شوق سجا سکا
تیری اک نظر کے ساتھ ہی میرے سب ارادے بدل گئے
ہمیں یہ احساس ہوتا ہے کے یہ ان کہ مصنوعی بال یعنی وگ کی کارستانی ہے جو ان کی شخصیت کا ایک لازمی جز بن چکا ہے ایسے میں نثا ر صاحب کا انتخابی نشان وگ بہت خوب رہے گا جس سے ان کے دوست دشمن سبھی اچھی طرح واقف ہیں ۔
خواتین و حضرات جس طرح بلاول بھٹو اپنی والدہ بے نظیر بھٹو اور نانا ذوالفقار علی بھٹو کو خوب خوب استعمال کرتے ہیں، اس طرح اعجاز الحق اپنے والد محترم ضیاالحق کا استعمال نہیں کر سکتے۔ لہٰذا ایک پارٹی ایک رکن کے طور پر الیکشن لڑتے ہیں اور تمام وقت گمنامی میں گزارتے ہیں ۔
جیت بھی جاتے ہیں لیکن سیاست کے تماشے کو ایک خاموش تماشائی کے طور پر دیکھتے رہتے ہیں ۔ اب تک کوئی نہیں جان سکا کہ وہ کس طرف ہیں یا ان کی پالیسی کیا ہے ۔ایک وقت تھا جب وہ نواز شریف کے پنج پیاروں میں شامل تھے باقی چار ارکان میں چوہدری شجاعت، شیخ رشید، چوہدری نذیر اور چوہدری نثار شامل تھے ۔اب سب تتر بتر ہو چکے ہیں ۔ صرف چوہدری نثار ان کے ساتھ ہیں بھی اور نہیں بھی ۔
صاف چھپتے بھی نہیں اور سامنے آتے بھی نہیں
اعجاز الحق کا انتخابی نشان'' ''c-130طیارہ رہے گا ۔وہ اپنے والد کے کارنامے کیش نہیں کرا سکتے، تاہم c-130کے حادثے پر ہمدردیاں حاصل کر سکتے ہیں ، جس طرح مریم اپنی والدہ اور نواز شریف اپنی اہلیہ کی بیماری بتا بتا کر ہمدردیاں حاصل کرتے ہیں۔