پانی کی قلت
ملکی آبی ذخائر میں صورتحال تشویشناک ہے، تربیلا اور منگلا ڈیم ڈیڈ لیول پر آ گئے ہیں جبکہ دریائے سندھ میں پانی کی سطح 50 فیصد سے کم ہو چکی ہے۔ چند روز قبل منظرِ عام پر آنے والی میڈیا رپورٹس کے مطابق پانی کی سطح میں اس حد تک کمی سے فصلوں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ تربیلا اور منگلا ڈیموں کا موجودہ لیول گِر کر لگ بھگ ڈیڈ لیول یعنی چودہ سو فٹ پر آ گیا ہے جبکہ پانی کی آمد میں بھی کمی آئی ہے جس کی وجہ سے بجلی کے پیداواری یونٹس بھی بند ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ انڈس ریور سسٹم اتھارٹی نے تربیلا ڈیم کے لیول کے حوالے سے صوبوں کو بھی آگاہ کردیا ہے کہ ربیع سیزن کے باقی عرصے کیلئے پانی کی 30 سے 35 فیصد قلت کا خدشہ ہے۔پاکستان میں پانی کی صورتحال حوصلہ افزا نہیں ہے، ابھی دو روز قبل 22 مارچ کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں پانی کا عالمی دن منایا گیا۔اس موقع پر بہت سی تقریبات کا انعقاد کیا گیا، تقریریں ہوئیں، باتیں ہوئیں، پانی کے حوالے سے مسائل کا احاطہ بھی کیا گیا۔اس دن کی اہمیت کے حوالے سے صدر مملکت اور وزیر اعظم نے اپنے پیغام جاری کئے۔ صدر مملکت آصف علی زرداری نے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ پاکستان میں پانی کی قلت ایک سنگین مسئلہ ہے اور اس کے حل کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا تھا کہ پاکستانیوں کو چاہئے کہ وہ بجلی، ایندھن اور پانی کو محفوظ بنائیں اور سرسبز و خوشحال پاکستان کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کریں۔ وزیرِاعظم شہباز شریف نے اپنے پیغام میں بتایا کہ حکومت ایسی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے جو تمام شعبوں میں پائیداری کو فروغ دینے کیلئے پالیسی اقدامات کے ساتھ ساتھ موسمیاتی عمل کو مربوط کرتی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ صرف حکومتی پالیسیاں ہی کافی نہیں ہیں بلکہ ہر شہری کو اپنی ذمہ داری ادا کرنا ہوگی۔وفاقی وزیرِ موسمیاتی تبدیلی مصدق ملک نے عالمی یومِ آب کے موقع پر باور کرایا کہ گلیشیئرز کا تحفظ انسانیت کی بقاء کے لیے ایک اہم مسئلہ بن گیا ہے کیونکہ اِن کے پگھلنے کے نتیجے میں پانی کی فراہمی میں کمی آ رہی ہے جو کہ نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے لیے ایک سنگین چیلنج ہے، اِن کی حفاظت کے بغیر عالمی پانی کے بحران کو کم کرنا ممکن نہیں ہے۔ وزیرِ اعلیٰ پنجاب مریم نواز کا کہنا تھا کہ پانی زندگی کی علامت اور آئندہ نسلوں کے محفوظ مستقبل کی ضمانت ہے، بڑھتی آبادی، موسمیاتی تبدیلیوں اور بے احتیاطی کے باعث آبی ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں،پانی کے مناسب استعمال اور تحفظ کے لیے عملی اقدامات ناگزیر ہیں، آئندہ نسل کی بقاء کے لیے پانی ذمے داری سے استعمال کریں۔پیپلز پارٹی کی نائب صدر سینیٹر شیری رحمان نے اپنے پیغام میں کہا کہ عالمی سطح پر پاکستان اْن 10 ممالک میں شامل ہے جن کو پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے، اقوامِ متحدہ کے مطابق رواں سال پاکستان خشک سالی کا شکار ہو جائے گا، ملک میں 40 فیصد کم بارشوں اور برف باری کے نتیجے میں خشک سالی کی صورتِ حال پیدا ہو چکی ہے، ٹیوب ویلوں کے استعمال اور ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے زیرِ زمین پانی کے ذخائر کی سطح ہر سال ایک میٹر نیچے جا رہی ہے، مستقبل میں بڑھتی ہوئی آبادی اور درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے پانی کی طلب میں بڑے اضافے کا امکان ہے جبکہ ہمارا فی کس پانی کا استعمال دیگر ممالک کے مقابلے میں پہلے ہی کہیں زیادہ ہے، اگر بر وقت اقدامات نہ کیے گئے تو ہم آنے والے دنوں میں خشک سالی و غذائی قلت کا شکار ہو جائیں گے۔پانی کی قلت ایک عالمی مسئلہ ہے لیکن پاکستان میں صورتحال خاصی گھمبیر ہے، پائیدار ترقی کے اہداف میں سے ایک ہدف 2030ء تک سب کے لیے پانی اور صاف ستھرے ماحول کی فراہمی یقینی بنانا بھی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق دنیا میں روزانہ آٹھ ارب افراد کو پانی اور خوراک کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ 2050ء تک انسانی آبادی بڑھ کرنو ارب ہو جانے کی توقع ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ پاکستان نہ صرف دنیا کے اُن 17 ممالک میں شامل ہے جہاں پانی کی قلت ہے بلکہ اِس فہرست میں اِس کا نمبر تیسرا ہے۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ پاکستان جب وجود میں آیا تھا تو اُس وقت ہر شہری کے لیے پانچ ہزار 600 کیوبک میٹر پانی موجود تھا لیکن اب یہ کم ہو کر صرف ایک ہزار کیوبک میٹر فی شہری رہ گیا ہے یعنی ہر شہری کو اْس وقت کے مقابلے میں آج 20 فیصد سے بھی کم پانی دستیاب ہے جبکہ 2025ء تک یہ صرف 800 کیوبک میٹر رہ جائے گا۔ پاکستان کی قریباً 80 فیصد آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے جس کی بڑی وجہ آبادی میں بے پناہ اضافہ اور ناقص منصوبہ بندی ہے۔پوری دنیا میں پانی ذخیرہ کرنے کی اوسط شرح 40 فیصد ہے جبکہ پاکستان دریائی پانی کا صرف 10فیصد حصہ ہی ذخیرہ کر پاتا ہے۔ اِسے یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ اقوام متحدہ کے پانی سے متعلق ادارے”واش“ کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق پاکستان 100 میں سے صرف 10 گلاس پانی محفوظ کرتا ہے جبکہ دیگر ممالک 40 گلاس پانی بچاتے ہیں۔ اِسی طرح پاکستان اِس وقت صرف 35 سے 40 دِنوں کی ضرورت کا پانی محفوظ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جبکہ بیشتر ممالک تقریباً 400 دن کی ضرورت تک کا پانی محفوظ کرسکتے ہیں۔ دنیا کے تین بڑے پہاڑی سلسلے ہمالیہ، ہندوکش اور قراقرم پاکستان کے شمال میں واقع ہیں۔ قطب شمالی اور قطب جنوبی کے بعد دنیا میں برف کے سب سے بڑے ذخائر انہی تین پہاڑی سلسلوں میں موجود ہیں لیکن یہ گلیشیرز تیزی سے پگھلتے جا رہے ہیں۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے چیئرمین نے گزشتہ سال ایک کانفرنس میں بتایا تھا کہ نومبر 2023ء سے اپریل 2024ء کے دوران ملک کے برفانی رقبے میں 23.3 فیصد کمی واقع ہوئی، سالانہ گلیشیئر پگھلنے کی شرح تین فیصد رہی اور گزشتہ پانچ سالوں میں پاکستان کے گلیشیئرز کا 16 فیصد حصہ ضائع ہوا۔ گلیشئیرز سے نکلنے والے پانی کو محفوظ کر کے استعمال میں لایا جا سکتا ہے لیکن پاکستان میں پانی کو ذخیرہ کرنے کی مطلوبہ صلاحیت موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے ہر سال اربوں ڈالر مالیت کا پانی سمندر میں گر کر ضائع ہو جاتاہے۔ ارسا کے مطابق پاکستان میں سالانہ ایک کروڑ 80 لاکھ ایکڑ فٹ پانی ضائع کر دیا جاتا ہے، واپڈا کے زیر انتظام پانی ذخیرہ کرنے کے چار بڑے منصوبے التواء کا شکار ہیں۔ منصوبوں میں دیامیر، بھاشا اور مہمند ڈیم جیسے منصوبے شامل ہیں جو نہ صرف پانی کو ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں بلکہ بجلی پیدا کرنے اور آبپاشی کے لیے بھی استعمال ہو سکتے ہیں۔ ارباب اختیار کے پیغامات سے ایک بات تو واضح ہے کہ وہ پانی کے مسائل سے بخوبی واقف ہیں اور اس کی قلت کے بارے میں بھی جانتے ہیں،اہم بات یہ ہے کہ وہ اس سے نبردآزما ہونے کے لئے جامع اقدامات بھی کریں۔حکومت کو پانی کو ذخیرہ کرنے کے منصوبوں پر جنگی بنیادوں پر کام کرنا چاہئے،پانی کی کمی کو دور کرنے کے لئے آج جو منصوبہ بندی کی جائے گی اس کا فائدہ آنے والی نسلوں کو ہو گا۔ اس کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم کی یہ بات بھی درست ہے کہ شہریوں کو بھی اس پر غور کرنا چاہئے، لوگ گھروں میں پانی کا بے جا استعمال کرتے ہیں، پائپ اور نلکے کھلے چھوڑ دئیے جاتے ہیں۔پانی ایک بنیادی ضرورت ہے جس کے بغیر زندگی کا کوئی تصور نہیں ہے اور اس کی حفاظت سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے جس کو نبھانا لازم ہے۔