دنیا میں تہلکہ مچانے والا مقبول ترین ناول ،جو زندگی بدل سکتا ہے۔۔۔قسط نمبر39
حضرت نوح عرش الٰہی کے داہنے جانب ہاتھ باندھے کھڑے تھے۔ ہم تمام لوگ حضرت ابوبکر کی زیر قیادت ان کے پیچھے جاکر کھڑے ہوگئے۔ سامنے کی سمت انسانوں کا تاحد نظر پھیلا ہوا ایک سمندر تھا۔ ان میں سے ہر شخص بدحال اور پریشان نظر آتا تھا۔ یہ لوگ سر جھکائے کھڑے تھے۔ ان کے چہرے خوف کے مارے سیاہ پڑرہے تھے۔ فضا میں سرگوشیوں کی خفیف سی آواز کے سوا کوئی اور آواز نہ تھی۔ یہی حضرت نوح کی وہ امت تھی جو دراصل ان کی اولاد میں پیدا ہونے والے لوگ تھے۔
کچھ دیر میں ایک صدا بلند ہوئی:
”نوح کے گواہ بارگاہ الٰہی میں پیش ہوں۔“
میرا خیال تھا کہ اب ابوبکر آگے بڑھ کر کچھ کہیں گے۔ مگر اس وقت میں نے دیکھا کہ پیچھے سے نبی کریم تشریف لائے اور عرش الٰہی کے سامنے کھڑے ہوگئے۔
فرمایا گیا:
”کہو اے محمد! کیا کہنا چاہتے ہو؟“
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بارگاہ احدیت میں عرض کیا:
تہلکہ مچانے والا مقبول ترین ناول ، جوزندگی بدل سکتاہے ۔۔۔قسط نمبر38 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
”پروردگار تو نے مجھے نبوت دی اور اپنا کلام مجھ پر نازل کیا۔ اس کلام میں تو نے مجھے بتایا کہ نوح بھی وہی دین توحید لے کر آئے تھے جو تو مجھے عطا کررہا ہے۔ اسی دین حق کی شہادت میں نے اپنی امت پر دی اور اب یہ لوگ تیرے سامنے پیش ہیں تاکہ یہ گواہی دیں کہ اسی دین حق کو انھوں نے اولاد نوح تک بے کم و کاست پہنچادیا تھا۔“
ارشاد ہوا:
”تم نے سچ کہا۔ اپنے امتیوں کو پیش کرو۔“
اس پر سیدنا ابوبکر نے آگے قدم بڑھانے شروع کیے اور حضرت نوح کے برابر میں جاکر کھڑے ہوگئے۔ ہم سب بھی ان کی پیروی میں ان کے پیچھے جاکر ٹھہرگئے۔
آواز آئی:
”تم کون ہو؟“
حضرت ابوبکر نے اپنا تعارف کرایا اور پھر ہم میں سے ہر شخص کا نام اور زمانہ بیان کرکے اس کا تعارف کرایا۔ آپ نے عرض کیا کہ ہم امت محمدیہ ہیں۔ ہم پر آپ کے آخری نبی محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے حق کی شہادت دی اور یہ بتایا کہ نوح بھی اسی دین کو لے کر آئے تھے۔ نوح اور محمد کا یہی دین ہم نے دنیا کی تمام اقوام کو پہنچایا۔ ان لوگوں کو بھی ہم نے حق پہنچادیا تھا جو آپ کے سامنے امت نوح کی حیثیت میں موجود ہیں۔
اس گواہی کے بعد امت نوح کے لیے جائے فرار کے راستے بند ہوگئے۔ یہ بات واضح ہوگئی کہ نوح کا دین وہی تھا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلمکا تھا اور امت محمدیہ نے اس دین کو دنیا تک پہنچادیا تھا۔ اب امت نوح کا حساب اسی گواہی کی روشنی میں ہونا تھا۔ ہمارا کام ختم ہوچکا تھا۔ اس لیے ہم لوگ واپسی کے لیے روانہ ہوگئے۔
…………………………
ہمارا قافلہ واپسی کے سفر میں رواں دواں تھا۔ اس دفعہ سالار قافلہ نبی آخر الزماں خود تھے۔ ہمارا قافلہ فرشتوں کی معیت میں میدان حشر سے گزرتا ہوا حوض کوثر کی سمت جارہا تھا۔ میں اپنی رسوائی کے اندیشے سے ذرا پیچھے ہی چل رہا تھا۔ یکایک کسی نے میرے کندے پر ہاتھ رکھ کر کہا:
”بھائی تم کہاں بھاگنے کی کوشش کررہے تھے۔“
میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو صالح زیر لب مسکرارہا تھا۔ میں شرمندہ ہوکر خاموش رہا۔ وہ ہنستے ہوئے بولا:
”خدا کا شکر کرو کہ تمھارے امیر قافلہ ابوبکر تھے۔ ان کی جگہ عمر ہوتے تو تمھیں کم از کم دو چار درے تو ضرور مارتے۔“
اس کی بات سن کر میں بھی ہنسنے لگا۔ کچھ توقف کے بعد میں نے کہا:
”اصل بات ابوبکر یا عمر کی نہیں۔ عمر بھی وہی کرتے جو ابوبکر نے کیا۔ کیونکہ انھیں بھیجنے والی ایک ہی ہستی تھی۔ اس رب کریم کی جو ساری زندگی میری پردہ پوشی کرتا رہا ہے۔“
پھر ایک اندیشہ میرے ذہن میں پیدا ہوا، میں نے صالح سے پوچھا:
”تمھیں میرے بارے میں کیسے پتا چلا۔ کیا سب لوگوں کو یہ بات معلوم ہوگئی؟“
”نہیں نہیں …… ابوبکر بڑے حلیم الطبع شخص ہیں۔ انھوں نے کسی کو نہیں بتایا۔ رہا میں تو اللہ تعالیٰ نے میرے ہی ذریعے سے ابوبکر کو تمھارے بارے میں پیغام بھجوایا تھا۔ اس لیے مجھے معلوم ہوگیا۔ ویسے تم نے سچ کہا۔ جانتے ہو اللہ تعالیٰ نے کیا کہہ کر مجھے ابوبکر کے پاس بھیجا تھا؟“
میرے جواب کا انتظار کیے بغیر وہ بولا:
”میرے بندے کو سنبھالو۔ وہ انکساری میں اپنی ذمے داری فراموش کرنے جارہا ہے۔“
شرمندگی اور احسان مندی کے ملے جلے جذبات کے ساتھ میں نے اپنا سر جھکادیا۔ کچھ دیر بعد میں نے صالح سے دریافت کیا:
”یہاں حشر کے معاملات کس طرح چل رہے ہیں؟“
”مختلف انبیا کی اپنی امتوں کے بارے میں شہادت دینے کا عمل جاری ہے۔ ہر نبی اور رسول اپنی امت کے بارے میں یہ شہادت دے رہا ہے کہ اس نے اپنی امت تک رب کا پیغام پہنچادیا تھا۔ جس کے بعد ہر وہ شخص جس کا عمل اس تعلیم کے مطابق ہوتا ہے، اس کی خطائیں درگزر کرکے اس کی کامیابی کا اعلان کردیا جاتا ہے۔“، صالح نے جواب دیا۔
مجھے یاد آگیا۔ صالح نے بتایا تھا کہ حساب کتاب کے اس دور کے بعد عمومی حساب کتاب شروع ہوگا۔ مجھے آس بندھ گئی کہ شاید اس مرحلے پر میرے بیٹے جمشید کی نجات کا کوئی فیصلہ ہوجائے، مگر ظاہر ہے میرے ہاتھ میں کچھ نہیں تھا۔ میں نے صالح سے پوچھا:
”یہاں کیا حالات ہیں؟“
”حالات کا نہ پوچھو۔ کسی کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ اس پر مزید یہ کہ کسی کو نہیں معلوم کہ اس کے ساتھ کیا ہوگا۔“
ہم دونوں یہ گفتگو کرتے ہوئے قافلے کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے کہ اچانک ایک زوردار شور بلند ہوا۔ اس شور کا سبب یہ تھا کہ مسلمانوں کا ایک جم غفیر نبی کریم کے نام کی دہائی دیتا ان کی طرف بڑھنا چاہ رہا تھا۔ یہ لوگ چیخ رہے تھے، رو رہے تھے اور فریاد کررہے تھے کہ یا رسول اللہ ہماری مدد کیجیے۔ ہم آپ کے امتی ہیں۔ جبکہ فرشتے انھیں کوڑے مار مار کر دور کررہے تھے۔ یہ لوگ حشر کی سختیوں سے اتنے تنگ آچکے تھے کہ مار کھاکر بھی رسول اللہ کی سمت بڑھنے کی کوشش کیے جارہے تھے۔ انھیں رسول اللہ کی صورت میں بمشکل امید کی ایک کرن نظر آئی تھی۔(جاری ہے)
(ابویحییٰ کی تصنیف ”جب زندگی شروع ہوگی“ دور جدید میں اردو زبان کی سب زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بن چکی ہے۔ کئی ملکی اور غیر ملکی زبانوں میں اس کتاب کے تراجم ہوچکے ہیں۔ابو یحییٰ نے علوم اسلامیہ اور کمپیوٹر سائنس میں فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن کے ساتھ آنرز اور ماسٹرز کی ڈگریاں حاصل کی ہیں جبکہ ان کا ایم فل سوشل سائنسز میں ہے۔ ابویحییٰ نے درجن سے اوپر مختصر تصانیف اور اصلاحی کتابچے بھی لکھے اور سفر نامے بھی جو اپنی افادیت کے باعث مقبولیت حاصل کرچکے ہیں۔ پچھلے پندرہ برسوں سے وہ قرآن مجید پر ایک تحقیقی کام کررہے ہیں جس کا مقصد قرآن مجید کے آفاقی پیغام، استدلال، مطالبات کو منظم و مرتب انداز میں پیش کرنا ہے۔ ان سے براہ راست رابطے کے لیے ان کے ای میل abuyahya267@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔)