ایرانی صدر کی شہادت، ذمہ دار کون؟
اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر جناب ا?یت اللہ ڈاکٹر سید ابراہیم رئیسی، وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان، امام جمعہ تبریز حج? الاسلام والمسلمین سید محمد علی ا?ل ہاشم، گورنر مشرقی ا?ذربائیجان مالک رحمتی سمیت، انتہائی قیمتی جانیں 9 افراد 19۔مئی کو ہیلی کاپٹر حادثے میں قربان ہو گئیں۔ ابھی تک دنیا کے لیے یہ حادثہ ایک معمہ بنا ہوا ہے کہ اس کے پیچھے کسی بڑی قوت کی سازش ہے،ہیلی کاپٹر میں تکنیکی نقص یا وجہ موسم کی خرابی تھی۔ میں قطعا ًان مفروضوں پر یقین نہیں رکھتا بلکہ اس میں بین الاقوامی سازش کی تہہ تک پہنچنے کے لیے چند ماہ پہلے عالمی سطح پر پیدا ہونے والے حالات کو سامنے رکھ لیں تو یقینا حقیقت سامنے ا?جائے گی۔
پانچ مقامات پر نماز جنازہ کے بعد ایرانی صدر کو ا?ٹھویں تاجدار امامت حضرت امام رضا علیہ السلام کے روضہ اقدس کے صحن میں سپر د خا ک کردیا گیا ہے۔ تبریز اور قم کے بعد تہران میں نماز جنازہ رہبر انقلاب ا?یت اللہ سید علی خامنہ ای نے پڑھائی۔ پھر شہید صدرکا جسد خاکی ان کے حلقہ انتخاب جنوبی خراسان کے شہر بیر جند میں لے جایا گیا، یہاں بھی نماز جناہ ہوئی اورپھر مشہد مقدس میں تدفین کی گئی۔ دکھ کی اس گھڑی میں دنیا بھر سے60 سے زائد ممالک کے وفود تہران پہنچے اور ایرانی قیادت سے اظہار تعزیت کیا۔ ان میں خاص طور پر وزیر اعظم شہبا ز شریف، عراقی وزیر اعظم محمد شیعہ السوڈانی، قطری امیر تمیم بن حمد الثانی، تیونس کے صدر قیس سعید،سعودی اور مصری وزرائے خارجہ،افغان طالبان، اسلامی مزاحمتی تحریک حزب اللہ لبنان، انصار اللہ یمن،اسلامی جہاد عراق اور حماس کے رہنما اسمٰعیل ہنیہ کی شرکت نمایاں تھی۔ اقوام متحدہ،روس اور چین نے بھی ایران کے ساتھ تعزیت اورہمدردی کا اظہار کیا ہے۔ روسی صدر پیوٹن کی ابراہیم رئیسی کی ا?خری رسومات میں شرکت بہت اہمیت کی حامل ہے۔ ان کی رہبر معظم ا?یت اللہ خامنہ ای سے بھی ملاقات ہوئی ہے۔ ا?ئندہ کے لائحہ عمل کے حوالے سے یقینا دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مزید مضبوط ہوں گے۔
ایرا نی صدر کی ہیلی کاپٹر حادثے میں شہادت غیر معمولی واقعہ ہے۔ ایرانی قیادت کی یہ کوئی پہلی شہادت نہیں اور شایدا?خری بھی نہ ہو۔ ایران جس پالیسی پر گامزن اور عالمی استعمار کو للکار رہا ہے۔ ایسے راستوں کے راہی یقینا شہادت کی توقع رکھ کر چلتے ہیں۔ماضی میں جائیں تو نظر ا?تا ہے کہ عوامی قوت سے امریکی ا?لہ کار رضا شاہ پہلوی کی بادشاہت کا خاتمہ بوریا نشین روحانی رہنما ا?یت اللہ روح اللہ خمینی رحم? اللہ علیہ کی قیادت میں تشکیل پایا تو ایرانی عوام نے اس عظیم کامیابی پر اپنے جذبات کا اظہار ریفرنڈم کے ذریعے کرکے اسلامی حکومت کے ڈھانچے ’نظام ولایت فقیہہ‘ کے تحت ایران میں عملی طورپر علماء_ کی حکومت قائم کی۔ لیکن استعماری قوتوں کو اسلامی حکومت برداشت نہ ہوئی اور ایران کے خلاف بین الاقوامی سازشوں کا ہر طرف سے ا?غاز ہوااور ہر حربہ استعمال کیا گیا۔ امریکہ ہر سال اسلامی حکومت کو گرانے کے لئے بجٹ مختص کرتا ہے۔انقلاب کے بعد پہلی سازش عراق کاایران پر حملہ تھا۔ ا?ٹھ سال تک یہ جنگ مسلط رہی۔ جنگ کے ابتدائی دنوں میں ایران میں بم دھماکے کئے گئے۔جس میں وزیراعظم محمد علی رجائی اورصدر جواد باہنر اور کابینہ کے ارکان کو شہید کیا گیا۔غم کی اس گھڑی میں عوام بانی انقلاب اسلامی امام خمینی کی رہائش گاہ پرپہنچے، گریہ و زاری کرتے ہوئے کہہ رہے تھے ”ا?غا باہنر نیستند، رجائی نیستند“رہبر انقلاب عوام کے سامنے ا?ئے اور لوگوں کو خاموش ہونے کا اشارہ کیا اور ایک جملہ کہا:”گر رجائی وباہنر نیستند، خدا ہستند“۔نئے انتخابات کا اعلان ہوا۔عراق کے ساتھ جنگ میں قوم نے لاکھوں قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والی ایرانی قوم نے جنگ کے دوران انتخابات میں حصہ لیا، حکومت تشکیل پائی۔ ایران کی موجودہ اعلیٰ قیادت ا?یت اللہ سید علی خامنہ ای نے صدر مملکت کی حیثیت سے امور سنبھالے۔
صدیوں پر محیط بادشاہت کے خاتمے کے بعد انقلابی قیادت نے لوگوں کے مسائل، ملک میں امن و امان،مہنگائی پر قابو پانے کے لیے مختلف اقدامات کئے۔ امریکہ اوریورپی یونین نے ایران پر اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں۔ جس سے یقینا ایرانی مشکلات میں اضافہ ہوا لیکن ہر گذرنے والا دن عوام کو مضبوط کر تا گیا، اسی دوران مختلف طریقوں سے ایران کی اہم سیاسی حکومتی اور نیوکلیئر ٹیکنالوجی سے وابستہ شخصیات کو قتل کیا جاتا رہا۔ کوئی سات ماہ پہلے حماس اور اسرائیل کی جنگ طوفان الاقصیٰ 7۔ اکتوبر 2023ء_ کوشروع ہوئی۔جس میں ایران کی عسکری اتحادی قوتیں فلسطین اور حماس کی حمایت میں جنگ کا حصہ بنیں۔ حزب اللہ لبنان،شام، عراق میں حشدالشعبی نے عملی طور پر اسرائیل پر حملے کئے،یمن کے حوثی مجاہدین کی’انصار اللہ‘ نے حماس کی حمایت میں اسرائیل سے تجارت کرنے والے امریکی برطانوی فرانسیسی اوردیگر ممالک کے جہازوں کو بحر احمر میں قبضے میں لیا یا ڈبو دیا۔ اسرائیل نے سامراجی قوتوں کی سرپرستی میں فلسطین کے نہتے عوام کوشہید کیا اور ہسپتال سکول تباہ کر دیے لیکن حماس کے مجاہدین بڑی جرائت کے ساتھ اب تک مقابلہ کر رہے ہیں۔
اسرائیل امریکہ برطانیہ اور دیگر اتحادی ممالک چاہتے تھے کہ حماس کا خاتمہ کر دیا جائے لیکن شہید صدرڈاکٹر ابراہیم رئیسی نے اپنے دور اقتدار میں رہبر معظم ا?یت اللہ خامنہ ای کی رہنمائی میں ایسے اقدامات کئے جس سے روس اور ایران کے تعلقات مضبوط سے مضبوط تر ہوتے گئے، چین بھی ان کا اتحادی بن گیا،اور انہوں نے کھل کر سامراجی قوتوں کی مخالفت اور فلسطینیوں کی حمایت میں کھل کر کردار ادا کرنے کا اعلان کیا۔ ان سارے واقعات کو سامنے رکھتے ہوئے ایرانی قیادت، صدر رئیسی کی سیاسی قیادت، اور ان کے ساتھیوں کا دفاعی کردار نمایاں ہوا۔ میں نہیں سمجھتا کہ ایرانی صدر کی شہادت کا سانحہ حادثہ موسم کی خرابی کی وجہ سے پیش ا?یا ہے۔ بات بالکل واضح ہے کہ انقلاب کے پہلے دن سے لے کر ایران کی مضبوط ترین شخصیات کو خواہ وہ سیاسی نظریاتی ہوں،ایٹمی سائنسدان،ٹیکنالوجی کے ماہرین اور القدس بریگیڈکے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی، ہر کسی کو نشانہ بنایا گیا۔کیونکہ یہ شخصیات سامراجی قوتوں کو ناکو ں چنے چبوا رہی تھیں۔ ان کو راستے سے ہٹانے کے لیے مختلف حربے استعمال کیے گئے۔
گذشتہ ماہ 22 اپریل کو ایران کے صدرڈاکٹر ابراہیم رئیسی پاکستان کے دوریپرتشریف لائے۔انہوں نے پاکستان کی توانائی کی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے، گیس پائپ لائن منصوبے کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کی۔ باہمی تجارت 10 بلین ڈالرز تک لے جانے کا ہدف مقرر کیا۔ جس پر امریکہ نے ناراضگی کا اظہار کیا اور اقتصادی پابندیوں کومزید سخت کرنے کا عندیہ دیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہاں کسی بڑی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں کہ ابراہیم رئیسی کو راستے سے ہٹانے کے لیے امریکہ اسرائیل اوران کے اتحادیوں نے جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے ایرا نی صدر کے ہیلی کاپٹر کو مار گرایا ہو۔اب اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس ظالما نہ عمل سے ان کا راستہ صاف ہو گیا ہے، تو وہ بہت بڑی غلطی پر ہیں۔