جمہور کی جمہوریت کا کانپتا ڈھانچہ

جمہوریت کی پشت پہ جب بھی وار ہوا ہے اس کے پیچھے کسی نہ کسی قسم کے حاکمین کا ہی ہاتھ رہا ہے۔ جمہور سے کب کسی نے پوچھا ہے 150 نام جمہور کا اور اس کے ثمرات سے مستفید کوئی اور ہی ہوتا آیا ہے۔ یہی ہمارا ماضی ہے اور یہی ہم دیکھتے آئے ہیں ۔ آج پھر خطرہ سر پہ منڈلا رہا ہے کہ جمہور کی جمہوریت پہ داؤ کھیلا جائے اور وہ سب کچھ بچا لیا جائے جو لوٹ کھسوٹ کا حاصل ہے اور ان اکاؤنٹس میں ہے جن کے مالکان یا تو جہانِ فانی سے کوچ کر چکے ہیں یا نان چنے کا ٹھیلا اور رکشا چلا کے خود گذارا کر رہے ہیں۔
کہتے ہیں کہ کوئی کھاتا ہے تو لگاتا بھی تو ہے لیکن میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ کون لگاتا ہے اور کون کھاتا ہے 150 کیا عوام کا دیا پیسہ ایک ملکی امانت نہیں ہے کہ جس کو کھاؤ اور دوسروں کو کھلاؤ اور کہیں بھی جواب دہ نہ ٹھہرائے جاؤ۔ کیا عوام کی خدمت اور کرپشن ساتھ ساتھ چلے گی۔ کیا کوئی کھائے گا تو ہی لگائے گا۔ ضمنی انتخابات کے نتائج سے تو بظاہر یہی لگتا ہے کہ لوگوں کو دکھائے گئے باغات میں کرپشن چھپا دی گئی ہے اور ان باغات کو کچھ ایسے پیش کیا گیا ہے کہ کمایا بھی گیا ہے اور اس سے اپنی خدمت کو بھی دوام بخشا گیا ہے۔ دو پارٹی نظام میں کس کو فکر تھی کہ کبھی پوچھ پرتیت بھی ہوگی۔ اب جو کمائی گئی دولت خطرے میں ہے تو جمہور کی جمہوریت کو بھی پھرسے خطرہ درپیش ہے 150
حکومت کے خلاف عدمِ اعتماد کی تحریک چلانے کا عندیہ دے دیا گیا ہے 150 حزبِ اختلاف میں مشاورت جاری ہے اور ایک اتحاد تشکیل پا رہا ہے۔ جس کا مقصد حکومت گرانا دکھائی دیتا ہے 150 جمعہ جمعہ آٹھ دن کی یہ حکومت جس نے نہ کوئی معاہدہ کیا نہ کوئی پراجیکٹ لگایا نہ کوئی کرپشن کی لیکن بنیادیں ہیں کہ لرزاں ہیں ۔جب کرپشن اور عوام کی خدمت ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں تو کیسے ممکن ہے کہ کرپشن بھی نہ کی جائے اور عوام کے مسائل بھی سر نہ اٹھائیں کہ جن کو ایک نعرہ بنالیا جائے گا اور پھر اس کے کاندھے پہ رکھی بندوق چلا نہ دی جائے۔ اسی لئے تو حکومت اگر قرضہ لیتی ہے تو تب بھی ہاتھ دھو کر حزبِ اختلاف پیچھے ہے اور اگر اپنے دوست ممالک سے مانگتی ہے تو بھیک کی کشکول کے تازیانے ہیں 150 اگر اپنی عوام سے تقاضا کرے تو غوغا ہوتا ہے کہ ترسی عوام پہ بوجھ ڈالا جا رہا ہے اس میں قارئین ہی فیصلہ کر سکتے ہیں کہ جائیں تو پھر جائیں کہاں کے مصداق نو آموز، نا تجربہ کار حکومت بھی اپنے پاؤں پہ کلہاڑیاں چلا رہی ہے اور وہ وہ بیان داغ رہی ہے کہ مخالفین کا کام آسان بنا رہی ہے۔
ملک کی بیوروکریسی ہے تو وہ بھی ایک چیلنج بن چکی ہے اور شدید عدمِ تحفظ ، ڈر اور ایک خوف میں مبتلا ہے۔ ان کے درمیان ایک ایسی فضا چھا گئی ہے کہ خود کو ہرایک دوسریکے نشانے پہ محسوس کرتا ہے اور کچھ نہ کرنے پہ مصر ہے 150 ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھی یہ بیوروکریسی سمجھ رہی ہے کہ یہ ایک برا وقت ہے اسے کسی طرح گذار لیا جائے کہ اگر بچ گئے تو پھر دیکھا جائے گا۔ کرپشن کے خلاف وزیرِ اعظم کی تحریک اس لئے بھی کامیاب نہیں ہو رہی کہ ان کی جماعت میں بھی نیب زدہ نمائندگان کی بھرمار ہے۔ کرپشن کے خلاف مہم میں کامیابی حزبِ اقتدار کو بھی اپنی موت دکھائی دیتی ہے تو پھر کون ہے جو اس کے حق میں ہے کہ احتساب کا عمل چلے؟؟؟؟
سعودی عرب سے واپسی پر جب کہ کچھ نہ کچھ داد رسی ہوئی ہے اربوں ڈالر کا پیکج ڈوبتے کو سہارا دے گیا ہے تو یوں لگتا ہے کہ یہ عمل اب اور شد و مدسے آگے بڑھے گا اور اس کی راہ میں حکومتی اور حزب اختلاف کے بڑے بڑے نام نیب کے چکر کاٹتے نظر آئیں گے۔ان حالات میں ہر ذی شعور کی یہ تمنا ہے کہ سیاسی میدانوں میں بچھائی جانے والی یہ بساط خوش اسلوبی سے ہی انجام کو پہنچے کیونکہ ملکی اور بین لاقوامی حالات اس بات کی بالکل اجازت نہیں دیتے کہ کسی قسم کی ہنگامہ آرائی ہو۔ ملکی سیاست میں ایسے چہرے آگے آگے نظر آ رہے ہیں کہ جن کی ریاست کے ساتھ وابستگی مشکوک رہی ہے اور ان حالات میں ان کا کردار کیا ہوتا ہے اس پہ نظر رکھنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ ہم دودھ کے جلے ہیں اور ہمیں چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پینی چاہیئے۔ ا س لئے میرے خیال میں تو غیر جانبدارانہ اور منصفانہ احتساب ہی وقت کی ضرورت ہے تاکہ اس کرپشن کا قلع قمع ہو جس نے اس ملک کو دیمک کی طرح یوں چاٹا ہے کہ عالمی برادری میں ہم ایک بھکاری کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ملک کی تمام سیاسی پارٹیاں نیب کے ریڈار پہ ہیں تو وزیر اعظم صاحب سے التماس ہے کہ احتساب بیورو اتنا مضبوط بنایا جائے کہ پہلے عوامی نمائندے اس سے گزارے جائیں اور اس کے بعد جب ملکی سیاست اس کرپشن سے پاک ہو تو پھر ہر کسی کو عدل کی نوک پہ رکھ لیا جائے 150 ملکی اداروں کی صفائی اشد ضروری ہے تاکہ ملک میں ایک عوام ایسی بسے جو محمود و ایاز کی صورت ہو 150 ایسا نہ ہو کہ ہمارے سیاست دان تو رگڑے کھائیں اور باقی مقتدر ادارے اس سے مبراء ٹھہریں۔ اس احتساب کے عمل پہ انگلی نہیں اٹھنی چاہیئے کہ یہ ایک مخصوص خاندان یا طبقے کے خلاف تھا 150 ملکی سیاست میں ایسا سوئمبر نہ رچایا جائے کہ جس سے لرزتا ہوا ڈھانچہ گر جائے اور ہر کوئی الامان الامان کہتا سرخرو ہو جائے اور جمہور اپنے پسنے کے وہی مناظردیکھے جو کہ وہ برسوں سے دیکھتا آیا ہے۔
کون نہیں جانتا کہ پاکستان میں اکثریت و اقلیت کو یکساں حقوق دینے کے دعوے کے ساتھ بابائے قوم نے اس پاک سر زمین کو فلاحی معاشرے کے نام سے ابھارا تھا۔ نیا پاکستان اور قائد کا پاکستان کہنے والے امید ہے کہ اسے جمہور کا پاکستان بنانے کے لئے ہی کمر بستہ رہیں گے۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں،ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔