زبر دستی و زیادتی کے واقعات کیوں ہورہے ہیں؟
کیا یہ انسانی معاشرہ ہے؟ بہت سوچا لیکن انسانی معاشرے کی خصوصیات دیکھی جائیں تو جواب نفی میں ملتا ہے۔انسانی معاشرے میں طاقت، جبر،غاصبیت،جارحیت اور آمریت کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی انہی کے بطن سے ظلم و زیادتی اور زبردستی جنم لیتی ہیں۔ایسے زمینی ٹکڑے کو جنگل کا نام دیا جاتا ہے جہاں طاقتور کمزور پر زبردستی و زیادتی اپنا حق سمجھتا ہے۔ انسانی بستی اعتدال اور عدل پر قائم ہوتی ہے۔ ایک دوسرے کی عزت اپنی عزت کی طرح محترم جانی جاتی ہے۔
خطبہ حجتہ الودااع میں انسانی معاشرے کا سب سے بڑا چارٹرپیش کرتے ہوئے کائنات کی سب سے محترم اور انصاف پسند ہستی حضرت محمدﷺ نے فرمایا”لوگوتمہارے خون،تمہارے مال اور تمہاری عزتیں ایک دوسرے پر ایسی حرام ہیں جیسا کہ تم آج کے دن کی اس شہرکی اور اس مہینے کی حرمت کرتے ہو، اگر کسی کے پاس امانت ہو تو وہ اسے اس کے مالک کو ادا کرے اور اگر سود ہو تو معاف کردے ہاں تمہارا سرمایا مل جائے گا، نہ تم ظلم کرو نہ تم پر ظلم کیا جائے گا“
ایسا عظیم چارٹر اگر اس پر عمل کیا جائے تو فرشتے بھی انسانی بستی پر رشک کریں۔دنیا میں جہاں بھی اس چارٹرپر عمل ہوا وہاں انسانوں کی زندگی مثالی ہے جہاں اس کے برعکس لوگ چلے وہ معاشرہ انسانی معاشرے کی بجائے وحشیوں کی بستی ہے، انسانوں کے روپ میں بھیڑیئے جسے چاہیں زبردستی نوچ ڈالیں۔ پہلا جرم ہی اگر انصاف سے سزا کا مستحق ٹھہرے تو دوسرا جنم نہیں لے سکتا۔عدل کی کاشت کاری رک جائے تو جرم کی خود روجھاڑیاں اگنے لگتی ہیں۔انصاف کی کمزوری ظلم کو بڑھاوا دیتی ہے۔طاقتور کے سامنے قانون بے بس ہو تو پھر زبردستی و زیادتی کے واقعات معمول بن جاتے ہیں۔ جہاں درس گاہوں میں باپ کے رتبے کے اساتذہ بیٹیوں جیسی شاگردوں کو فیل کرنے کی دھمکی دے کر انہیں ہوس کا نشانہ بنانے لگیں وہاں درندگی ہی جنم لے سکتی ہے۔مدرسوں میں دینی تعلیم کے لئے جانے والے معصوم بچوں سے زبردستی و زیادتی ہونے لگے تو پھرایسے معاشرے انسانی معاشرے نہیں جنگل ہوتے ہیں جہاں کسی کی عزت جان مال اور خون کی کوئی اہمیت نہیں رہتی۔
زبردستی و زیادتی۔۔سیالکو ٹ موٹر وے کے واقعہ پر بہت شور ہو رہا ہے۔حکومتی وزیر اور خود وزیراعظم فرما رہے ہیں کہ خواتین اور بچوں سے زیادتی کرنے والے کو ایسی بھیانک سز ا دی جائے کہ وہ دوبارہ ایسی حرکت نہ کرسکے، قصور کی زینب سے لے کر موٹڑوے واقعہ تک کتنے ایسے زبردستی و زیادتی کے واقعات ہوچکے حالانکہ قصور کے عمران کو پھانسی دی گئی تھی، سزا موجود ہے لیکن جرائم نہیں رک رہے تو ذرا اس بات پر غور کر لیا جائے کہ ہمارے معاشرے کی تربیت میں میں کیا کمی رہ گئی ہے اس طرف بھی دھیان دیا جائے زبردستی و زیادتی ہر طاقتور کیوں اپنا حق سمجھنے لگاہے؟؟؟۔
رونا دھونا بہت ہوگیا،سی سی پی او کے بیان پر غم و غصہ کا اظہار کرکے بھڑاس نکال لی لیکن یہ کون سوچے گا کہ کلمہ کے نام پر لی گئی ریاست میں تمہارے خون،تمہارے مال اور تمہاری عزتیں محفوظ کیوں نہیں اس سوال کا جواب سی سی پی او نے نہیں دینا ہمارے تعلیم و تربیت کے اداروں کو دینا چاہئے۔اس کیس میں پاکستان کی تمام یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز، دینی مدرسوں کے انچارج صاحبان اور ملک کے دس بڑے ماہرین نفسیات کو بلا کر حل ڈھونڈنا چاہئے۔
قانون تو موجود ہے لیکن قانون پر عمل کون کرائے گا اصل سوال یہ ہے جس پر حکومت اور وزیروں کو سوچنا چاہئے۔زبردستی کرنے والا کیسے قانون کی گرفت میں آئے جب سارا سسٹم نوٹوں کی گڈیوں کے سامنے رال ٹپکائے جھاگ کی طرح بیٹھ جاتا ہو۔تھانے کے منشی سے لے کر کچہری کے وکیل تک اور محلے کے کونسلر سے لے کرکچہریوں تک سب ظالم کے ساتھ کھڑے ہو کر مظلوم کو راضی نامہ کرنے پر مجبور کر رہے ہوتے ہیں۔قوم کی نئے سرے سے تربیت کرنے کی ضرورت ہے۔