میرا مقدر نہیں محتاج ہاتھ کی لکیروں کا
یوں تو ہاتھ دیکھنے والوں کی بڑی قسمیں ہیں.اور ہاتھ دکھانے والوں کی بھی.ایک محبوبہ کا ہاتھ بھی ہوتا ہے جسے صرف عاشق لوگ دیکھتے ہیں اور خواہش رکھتے ہیں سدا اسے پکڑ کر دیکھتے رہیں.
ایک ہاتھ بیوی کا بھی ہوتا ہے جو وہ دور سے اپنے شوہر کو دکھاتی ہیں اور وہ بے چارہ وہیں دبک کر رہ جاتا ہے. لیکن میں یہاں ان کی بات کر رہی ہوں جو لکیروں کو پڑھنے کے لیئے ہاتھ دیکھتے ہیں. کچھ لوگ شوقیہ ہاتھ دیکھتے ہیں کچھ وقت گذاری کے لیئے اور کچھ پیشے کے طور پر. شوقیہ ہاتھ دیکھنے والے آپ کو ہر سکول، کالج اور یونیورسٹی میں "سرِ عام "مل جاتے ہیں.سکول کالج میں آپ کہیں بھی لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر دیکھیں تو سمجھ جائیں کہ کوء ماہر علم نجوم اپنے علم کے موتی بکھیر رہا ہے.اور ہر کوئی بے تاب کہ وہ اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں تھما دے. تاکہ اپنی قسمت کا حال جان سکے.شوقیہ ہاتھ دیکھنے والے دوسروں کے مستقبل کی ایسی ایسی پیش گوئیاں کرتے ہیں کہ دل جھوم جھوم جاتا ہے.اور جی کرتا ہے یہ ہاتھ اس کے ہاتھ سے نکلے ہی نا،عمر تمام ہو جائے لیکن مستقبل کے سنہرے دن بتانے والا خاموش نہ ہو.بس بتاتا جائے.سکول.کالج کے زمانے میں ہاتھ دیکھنے والے حکومتی عہدیداروں کی طرح سب اچھا کی خبر دیتے ہیں.ہاتھ دکھانے والوں کی طرف سے جو سب سے زیادہ سوال پوچھا جاتا ہے وہ یہ کہ ہمارا "وہ "کیسا یا کیسی ہوگی.کچھ ہاتھ دکھانے والوں میں ایسے افراد بھی ہوتے ہیں جن کا کہنا ہوتا ہے کہ "میرا مقدر نہیں محتاج ہاتھ کی لکیروں کا "ایسے ہاتھ دکھانے والوں کا دعویٰ ہوتا ہے کہ وہ ہاتھ کی لکیروں پر قطعاً یقین نہیں رکھتے بس شغل لگا رہے ہیں. لیکن دل سے جاننا وہ سب چاہتے ہیں.کہ ہاتھ دیکھنے والا اس کے مستقبل کی ایسی تابناکیاں بیان کرے کہ الفا ٹاور کی روشنیاں بھی اس کے آگے مانند پڑ جائیں.ایسے لوگ توقع کرتے ہیں کہ ہاتھ دیکھنے والا بتائے کہ اس کی شادی شدہ زندگی اوباما اور مشعل اوباما جیسی حسین ہوگی. جیون ساتھی محبت میں عمران ہاشمی کو پیچھے چھوڑ دے.اور دولت کو بنانے اور خرچ کرنے کے معاملے میں ہمارے ہاں کے سیاستدانوں کے گھرانوں جیسا ہو.یعنی دوسرے لفظوں میں بتایا جائے کہ ان کی زندگی میں محبت کامیابی اور دولت کی بھرمار ہوگی. ہاتھ دکھانے والوں میں ایک بندہ یا بندی ایسی ہوتی ہے
جو ہاتھ دیکھنے والے کے ساتھ چپک کر تو بیٹھے ہوتے ہیں لیکن ساتھ ساتھ ڈراتے رہتے ہیں کہ ہاتھ دیکھنا، دیکھنا سخت گناہ ہے. اس سے چالیس دن کی نمازیں بھی فوت ہو جاتی ہیں لیکن اندر سے دل ان کا بھی مچل رہا ہوتاہے کہ کوئی ان کا ہاتھ پکڑ کر آگے کر ہی دے کہ چلو تم دکھاؤ تو سہی.اور اگر ان کا کوئی ساتھی ایسا کردے تو منہ سے تو نہ نہ کرتے ہیں لیکن اندر سے بہت خوش ہوتے ہیں. ایسے لوگوں کے دلوں میں مچلتے سوال لبوں پر آ آ کر رک جاتے ہیں. جنھیں زبان ان کے ساتھی عطا کرتے ہیں.ان کے جیون ساتھی کے حوالے سے پوچھا جائے تو ان کا دل گد گداتا توہے، گالوں پہ شرم کی لالی بھی آتی ہے لیکن وہ منہ سے کچھ نہیں پھوٹتے.خاموشی سے ایسے گْھنے بن جاتے ہیں جیسے کسی اور کی بات ہورہی ہو.پچھلے دنوں مجھے بھی ہاتھ دکھانے کا شوق چرایا. بالکل اسی طرح جیسے کسی بھی سکول، کالج کے دور میں لڑکیوں کو شوق ہوتا ہے.اور وہ دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ تھماکر سب جاننے کا تجسس رکھتی ہیں.اور یہ بھی کہتی ہیں کہ میں تو یقین ہی نہیں رکھتی بس ایسے ہی جاننا ہے.میرے ایک استاد ہیں جن کا پیشہ تو لکھنا لکھانا ہے لیکن ان کا دعوی ہے کہ وہ بہت اچھے پامسٹ ہیں اور پارٹ ٹائم وہ یہ کام ہی کرتے ہیں.ایک بار ان کے آفس ملنے گئی تو حسب ًمعمول وہ فارغ بیٹھے تھے، میں نے اپنا ہاتھ ان کے آگے کردیا کہ تھام لیں، ہاتھ دیکھنے کے لیئے.ساتھ یہ بتانا بھی ضروری سمجھا کہ میں اس پہ یقین ہر گز نہیں رکھتی. لیکن خدا گواہ ہے کہ یہ جملہ کس اوپری دل سے ادا کیا یہ میں ہی جانتی ہوں. دل تھا کہ وہ لکیروں سے میرا روشن مستقبل نکال کر میرے ہاتھ میں تھما دیں.
مستقبل میں امریکہ یاترا کی نوید بھی سنائیں اور یہ بھی کہیں کہ تمھارا شوہر اسی طرح تمھارا فرمانبردار رہے گا جیسے دور دیہات میں رہنے والا مرید اپنے پیر کا.جو پیر پر اندھا اعتقاد رکھتے ہوئے اس کے حکم پر کچھ بھی کر گذرتا ہے.انھوں نے میرے ارمانوں کے مطابق میرے شوہر کی خامیاں بیان کر دیں. شوہر کی برائیاں دوسرے کے منہ سے سننے کا جو لطف حاصل ہوا وہ بیان سے باہر ہے.اب میں یہ جاننا چاہتی تھی کہ میرے شوہر کا دل کسی حسینہ پر تو نہیں آئے گا، اور وہ میرے اسی طرح فرمانبردار تو رہیں گے.اچھا وہ بیچارے مروتاً میرا ہاتھ فری دیکھ رہے تھے ورنہ ہاتھ دیکھنے کے پانچ ہزار لیتے ہیں.لہذا اب میں ان سے یہ نہیں کہہ سکتی تھی کہ میرے شوہر کا ہاتھ بھی دیکھیں. کہ یہ ان کا پیشہ ہے اسی سے ان کے گھر کا چولہا جلتا ہے.سو میں نے شوہر کا ہاتھ دکھانے کے لیئے ایک گھومتا ہوا سوال پوچھا.اس گھومتے ہوئے سوال کا مقصد یہ تھا کہ وہ خود ہی کہہ دیں گے کہ اپنے شوہر کے ہاتھ کی تصویر واٹس ایپ کر دینا دیکھ کر بتادوں گا.اور میں ایک ایک ہاتھ کی دو دو تصاویر جو پہلے سے پاس رکھی تھیں جھٹ سے نکال کر پیش کردوں گی.میں نے اپنے دوست نما استاد سے سوال کیا کہ سر یہ بتائیں میرے شوہر کی بیوی کیسی ہے.مطلب یہ جاننا تھا کہ وہ جواب میں میری تعریفوں کے پل باندھ دیں گے لیکن میرے اس سوال پر ان کا سارا علم ایک کنٹینر میں جمع ہو کر گتھم گتھا ہو گیا.اور وہ ہونقوں کی طرح میرا منہ دیکھنے لگے اور کچھ دیر سوچتے رہنے کے بعد پوچھنے لگے کہ اس کی بیوی کون ہے؟ کیا اس نے دوسری شادی کرلی. اس کے بارے تو بتایا ہی نہیں تم نے-
خیر بات ہو رہی تھی ہاتھ دیکھنے والے اور دکھانے والوں کی جو لوگ شوقیہ ہاتھ دیکھتے ہیں وہ سکول، کالج کے زمانے میں پائے جاتے ہیں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو کیرو کی کتابیں پڑھ پڑھ کر خاصے ماہر ہوچکے ہوتے ہیں.اور اصل میں ہاتھ کی لکیروں کے بارے بہت کچھ جانتے ہیں لیکن بتاتے کسی کو نہیں. بس کسی کا ہاتھ دیکھ کر چپکے چپکے مسکراتے رہتے ہیں.کچھ لوگ اسے باقاعدہ پیشہ بنا لیتے ہیں اور پیسے کماتے ہیں.شوقیہ ہاتھ دیکھنے والوں کے پاس ہاتھ دکھانے والوں کا ہجوم زیادہ ہوتا ہے نسبتاً پیسے لیکر دیکھنے والوں کے. جو پیسے لیکر ہاتھ دیکھتے ہیں ان کی بھی کئی اقسام ہیں کئی ایسے ہیں جو ایک ایک کلائنٹ سے ہزاروں وصول کرتے ہیں. کچھ سو دوسو کماتے ہیں. اور کچھ ساری عمر دوکان لگا کر بیٹھے رہتے ہیں لیکن کوئی انھیں سو روپے بھی نہیں دیتا.بلکہ لوگ "ہاتھ دکھانے "کے بھاؤ تاؤ میں لگ جاتے ہیں.کہ.پچاس روپے دیں گے اس سے زیادہ نہیں.کچھ خواتین و حضرات اکثر ریلوے پھاٹک کے قریب سڑک کنارے زمین پر کپڑا بچھا کر بیٹھے نظر آتے ہیں.جو ہاتھ دیکھنے اور طوطے کے توسط سے فال نکالتے ہیں.اور ان کا دعویٰ ہوتا کہ ان کی فال سو فیصد سچی ہوتی ہے.اور یہ لوگ دس بیس میں ہی ہاتھ دیکھ لیتے ہیں. اسی سڑک پر بیٹھے ان افراد کے پیچھے ایک چھوٹی، بوسیدہ سی دوکان بھی ہوتی ہے جس کے باہر بڑا سا بورڈ لگا ہوتا ہے "اپنی قسمت کاحال جانیئے وہ بھی صرف پانچ سو میں.ان سے بارگیننگ ہوتی ہے اور معاملہ دو تین سو میں طے پا جاتا ہے معاملہ طے ہونے کے بعد یہ رٹو طوطے کی طرح بولنا شروع ہو جاتے ہیں. اور اس رفتار سے بولتے ہیں کہ سننے والا دھیان و گیان لگا کر بھی سنے تب بھی سمجھ نہیں آتا.وہ ہر کسی کو ایک سی باتیں بتاتے ہیں اور جو کچھ بھی وہ بتاتے ہیں پلے کچھ نہیں پڑتا الٹا پلے سے دو تین سو نکل جاتے ہیں.کچھ پڑھے لکھے، سوٹڈ بوٹڈ لوگ بھی ہاتھ دیکھتے ہیں ان کی دوکان نہیں ہوتی.یہاں گاہک بھی نہیں آتے بلکہ کسٹمر آتے ہیں. ان کا آفس ہوتا ہے. جہاں چمکتا ہوا فرنیچر رکھا ہوتا یے اور اے سی بھی لگا ہوتا ہے.بڑی سی میز پر ایک لیپ ٹاپ بھی رکھا ہوتا ہے آفس بہت روشن ہوتا ہے. اور انگریزی لہجے میں اردو بولتے یہ بابو ٹائپ لوگ ہاتھ دیکھنے کے دس ہزار نکلوا لیتے ہیں. ان لوگوں نے ہر ماہ کے پچیس دن سپیشل آفر رکھی ہوتی ہے کہ "ایک ہاتھ دکھانے پر دوسرا ہاتھ فری دیکھا جائے گا".اور مجھ جیسے بچت خور دوسرا ہاتھ فری دکھانے کے چکر میں دس ہزار ادا کردیتے ہیں.یوں سمجھئے کہ ایسے ہاتھ دیکھنے والے اکثر ہمیں ہاتھ دکھا جاتے ہیں. جس کا اندازہ ہمیں بعد میں ہوتا ہے۔