سوشل میڈیااور اس کے موضوعات

سوشل میڈیااور اس کے موضوعات
سوشل میڈیااور اس کے موضوعات

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 سوشل میڈیا کا ان ایام میں بہت چرچا ہے۔ ”اِن ایام“ سے میری مراد پاکستان کے ایام ہیں …… میرے جو دوست احباب اور عزیز و اقربا دیارِ غیر میں جابسے ہیں ان سے مکالمہ ہوتا ہے تو میں پوچھتا ہوں وہاں کا سوشل میڈیاکیسا ہے، کیسی خبریں دیتا ہے اور اس کے اثرات آپ پر کیا مرتب ہوتے ہیں؟

ان کا جواب ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں سوشل میڈیا کی اقسام نایاب تو نہیں،لیکن بہت کم یاب ہیں۔ کسی کے پاس اس میڈیا کو دیکھنے کا وقت ہو تو وہی جانتا ہے کہ سوشل میڈیا کے توسط یا طفیل سے ہمارے اندرونی یا بیرونی حالات کیا ہیں۔ یہاں ہر شخص دن رات اپنی دھن میں مست رہتا ہے۔ ان کی دھن کام، کام اور کام ہے اور پاکستان میں ہماری دھن آرام، آرام اور آرام ہے۔ اگر آپ صاحبِ سمارٹ موبائل ہیں تو آپ ”آرام“ کا مفہوم جانتے ہوں گے۔ ہر پانچ دس منٹ کے بعد ہمارا ہاتھ اپنے سمارٹ موبائل کی طرف اٹھتا ہے۔ ہم منتظر ہوتے ہیں کہ شاید کوئی ”انہونی“ ہوجائے، شاید غریبوں کے دن پھر جائیں، شاید امراء کو ہوش آ جائے،شاید اشرافیہ کو کسی غیر اشرافیہ کی خبر ہو جائے!

لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ میں جب بھی اپنے موبائل پر نظر ڈالتا ہوں، خواہ وہ ایک گھنٹے کے بعد ہو یا ایک پہر کے بعد، معاملہ ایک سا رہتا ہے۔ میرے اور آپ کے موبائل کا اصل ریگولیٹر وہ نہیں جسے میں یا آپ سمجھتے ہیں کہ وہ ہے۔ اس سوشل میڈیا پر جن کا قبضہ ہے، وہ پاکستانی پبلک کے مبلغِ شعور و ادراک سے واقف ہیں۔

پہلی بات یہ ہے کہ آپ کو موبائل اور ا س کا سوشل میڈیا آپ کو وہی کچھ دکھائے گا جو آپ دیکھنا پسند کریں گے۔ آپ کے میڈیا ریگولیٹر کو معلوم ہے کہ آپ کی تاریخِ پیدائش کیا ہے، آپ کے مشاغل کیا ہیں، آپ کے سیاسی رجحانات کیا ہیں اور آپ کو سوشل میڈیا پر نظر ڈالنے کے لئے کتنے ’اوقات‘ میسر ہیں۔

مثال کے طور پر میرے سمارٹ فون پر سوشل میڈیا کی یلغار جن موضوعات سے عبارت ہے، وہ چار پانچ اقسام پر مشتمل ہے۔ ان میں سے پہلی قسم بہت ’بے ضرر‘ ہے اور باعثِ اکتسابِ ثواب بھی ہے۔ بعض احباب کی طرف سے روزانہ ایک آیتِ کریمہ کا ترجمہ نظر آتا ہے اور آخر میں لکھا ہوتا ہے: ”آج کا دن مبارک!“…… دوسری قسم وہ ہے جس پر مختلف انواع و اقسام کے رنگین طغرے آپ کو دیکھنے کو ملتے ہیں۔ مثلاً مختلف قسم کے اشجار و اثمار، مختلف سائزوں کی رنگارنگ چائے کی پیالیاں، مختلف اقسام کے رنگین پھول اور ان کی پتیاں۔ ان کی ترتیب اس طرح کی ہوتی ہے جو نگاہوں میں کُھب جاتی ہے اور اس پر لکھا ہوتا ہے: ”جمعہ مبارک“…… آپ کی نظر سے یہ کالم جمعہ کے روز ہی گزرے گا لیکن میرے موبائل پر جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب تقریباً 15،20طغرے ایسے فلیش کئے جاتے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ واقعی جمعہ کا دن ایک مبارک دن ہے۔ بھیجنے والے کو معلوم نہیں کہ میرا علم و فضل کیا ہے، بے علمی اور بے فضلی کیا ہے، میری پسند اور ناپسند کیا ہے اور میرے مذہبی رجحانات کیا ہیں۔ یہ طغرابھیجنے والا، مختلف طغروں کے ہجوم سے ایک ”دانہ“ اٹھاتا اور مجھے بھیج دیتا ہے۔اس ارسال و ترسیل میں نہ کوئی زیادہ وقت لگتا ہے اور نہ کسی سرمائے کی ضرورت ہے۔ صرف ایک انگلی کا ”ٹھیکہ“ لگانا ہوتا ہے گویا:

دل کے اک کونے میں ہے تصویرِ یار

جب ذرا اُنگلی لگائی، دیکھ لی

ایک تیسری قسم وہ بھی ہے جو اُن تصاویر اور پیغامات کو کور (Cover) کرتی ہے جو میرا ریگولیٹر جانتا ہے کہ مجھے پسند ہیں۔ میرے ساتھ والے کمرے میں ایک رشتہ دار ایسا بھی رہتا ہے جس کے رجحانات مجھ سے مختلف ہیں، اس کی سیاسی وابستگیاں بھی مجھ سے متضاد ہیں، اس کی موبائل سکرین پر جو کچھ آ رہا ہوتا ہے وہ میری سکرین کا اُلٹا مثنیٰ ہے۔ یعنی میرا کعبہ اگر مغرب میں ہے تو اس شخص کا کعبہ مشرق میں ہے۔180ڈگری کا یہ فرق جب ہم ایک دوسرے سے ڈسکس کرتے ہیں تو ریگولیٹر سن رہا ہوتا ہے۔ اس کو معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں ’اشخاص‘ کی یومیہ سرگرمیاں کیا ہیں اور ان کی پسند اور ناپسند وغیرہ کیا ہے۔ وہ بزعمِ خویش ہم دونوں کو واقعی وہ ’متضاد اشخاص‘ سمجھتا ہے۔ اس کو معلوم نہیں کہ ہم نے آپس میں ’ایکا‘ کر رکھا ہے۔ یعنی اس کی ناپسند، میری پسند ہے اور میری ناپسند اس کی پسند ہے!

سوشل میڈیا پر دیکھے جانے والی ویڈیوز کی اقسام یہ بھی ہیں کہ ان میں پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کے زعماء کی کانفرنسیں وغیرہ دکھائی اور سنوائی جاتی ہیں۔ میڈیا کے نمائندوں کو بلایا جاتا ہے اور ان کو ان کانفرنسوں کا احوال اس لئے دکھایا اورسنوایا جاتا ہے کہ وہ اپنے الیکٹرانک یا پرنٹ میڈیا پر اس کانفرنس کی کارروائی ’ضرور‘ دکھائیں گے۔ لیکن ان کے چینل اور اخبارات تو بکاؤ مال ہیں۔ جو زیادہ پیسے لگاتا ہے، اس کا مال پیشِ ناظرین و قارئین رکھ دیا جاتا ہے۔ اللہ اللہ خیر سلا!

پانچویں قسم بڑی عجیب و غریب اور گوناگوں انداز کی ہوتی ہے۔ اس میں ”انسانی جانوروں“ اور سچ مچ کے حیوانات کی وہ حرکات و سکنات دکھائی جاتی ہیں جو آپ کے ذوق کے مطابق ہوتی ہیں۔ آپ کے اس ذوق کا فیصلہ بھی آپ کا ”میڈیا ریگولیٹر“ کرتا ہے۔ آپ اگر کسی مذہبی رجحان کے حامل ہیں تو ’بصد شوق‘ اسے دیکھیں گے۔ اگر ایک بار دیکھ لیا تو آپ کا ریگولیٹر ویسی ہی درجنوں ”بولتی تصویروں“ کا تماشا آپ کو دکھائے گا۔

یہ میڈیا (میرامطلب ہے سوشل میڈیا) ایک ایسی اندھیر نگری ہے جس میں راج چوپٹ ہے۔ ایک اوسط فہم و فراست کا ناظر اور قاری جس کی ایک عمر عقلی دشت کی سیاحی میں گزری ہے وہ جب ایسی بے تُکی چیزیں دیکھتا ہے تو شاید ایک دوبار ’نظریہء ضرورت‘ کے تحت اسے گوارا کرلے یا برائے ایصالِ ثواب یا برائے اخذِ معلوماتِ عامہ یا صرف دل ’پشاوری‘ کرنے کی خاطر اس کو دیکھ لے لیکن جب آپ یہ ’حرکت‘ کررہے ہوتے ہیں تو آپ کا ریگولیٹر جو عیاری اور مکاری کی تمام حدود پار کر چکا ہوتا ہے وہ دیکھ اور سن کر بہت خوش ہوتا ہے۔ پاکستان ایک ایسا معاشرہ ہے جس میں سوشل میڈیا کے پھلنے پھولنے کے وافر امکانات موجود ہیں۔ اس میڈیا کا ایک اوسط قاری یہ نہیں جانتا کہ ”مصنوعی ذہانت“ کہاں سے کہاں نکل گئی ہے۔ غیر ملکی میڈیا کا مطالعہ (یا مشاہدہ) کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ پاکستانی معاشرے کے اہلِ علم و فضل حضرات و خواتین کا معیار کیا ہے اور ان کے اربابِ نقد و نظر کا گراف کہاں سے کہاں تک جا پہنچا ہے۔

اب آخر میں قارئین سے صرف ایک سوال پوچھنا باقی رہ جاتا ہے کہ آپ اور ہم اس طرح کے سوشل میڈیا کو دیکھا کریں یا نہ دیکھا کریں۔ اقبال کی ایک غزل کا شعر ہے:

ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی

ہو دیکھنا تو دیدۂ دل وا کرے کوئی

اور اگر دیدۂ دل وا کرکے سوشل میڈیا کو دیکھنا ہو تو اسی غزل کا ایک اور شعر بھی یاد آ رہا ہے:

نظارے کو یہ جنبشِ مژگاں بھی بار ہے

نرگس کی آنکھ سے تجھے دیکھا کرے کوئی

سوشل میڈیا کو اگر نرگس کی آنکھ سے دیکھنا ہو تو یہ ایک بڑی خوبصورت تشبیہ ہے کہ نرگس کی آنکھ میں بینائی نہیں ہوتی!

مزید :

رائے -کالم -