سر ہوئے ہیں، میرے سر

   سر ہوئے ہیں، میرے سر
   سر ہوئے ہیں، میرے سر

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

  سر نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر ہی صاف کہہ دیا میرے ساتھ دوستی کر لو۔ مزے کروا دوں گا۔جتنے پیسے کہو گی، مل جائیں گے۔یونیورسٹی میں پوزیشن بھی آ جائے گی۔ تمہارے جیسی حسین لڑکی کو دلوں پہ راج کرنا چاہیے۔ٹیوشن کو چھوڑو۔لائف انجوائے کرو۔ عمر کا فائدہ اٹھاؤ۔آٹھ دس سال موج کرو۔پھر شادی کر لینا۔کیریئر بن چکا ہو گا۔ رشتہ بھی مل ہی جائے گی۔کرن مسکرائے جا رہی تھی مگر اس کی مسکراہٹ میں ہزاروں کرب چھپے تھے،سر مجھے پہلے بھی بار بار دیکھتے تھے،ان کی نظروں میں پسندیدگی ہوتی تھی۔ جب میں نے کہا کہ میں ٹیویشن پڑھانا چاہتی ہوں تو سر،سر ہی ہوگئے۔ کرن حسین تھی۔اسے اپنے حسن کا ادراک بھی تھا مگر وہ ذہین بھی تھی اور محنتی بھی۔اس کا تعلیم حاصل کرنے کا مقصد زندگی اپنی صلاحیتوں کے سر پہ گزارنا تھا نہ کہ اپنی شکل و صورت کے سر پر۔وہ چاہتی تھی کہ اسے انسان سمجھا جائے۔فقط ایک مورت نہیں جس سے صرف لطف اٹھایا جا سکتا ہے۔اسے پہلے بھی ایک تلخ تجربہ ہو چکا تھا۔آبائی شہر میں ایک پرائیویٹ کالج میں ایک ٹیچنگ کی آسامی کے لئے درخواست گذاری۔ پڑھانا اس کا مقصدِ حیات تھا۔ وہ خود کو ایک پیدائشی استاد سمجھتی تھی۔انٹرویو اچھا ہوا مگر وہ لوگ بضد تھے کہ اسے کالج کے استقبالیہ پر جاب کرنی چاہئے۔ تنخواہ زیادہ دینا چاہتے تھے، مگر بٹھانا رسیپشن پر چاہتے تھے۔وجہ صاف ظاہر تھی۔ والد کی وفات کے بعد والدہ نے اسے کبھی مالی مشکلات کا اندازہ نہیں ہونے دیا تھا۔دو بھائی تھے۔ وہ بھی جی جان سے محنت کر رہے تھے۔ وہ معاشی طور پر بھی گھر والوں کا بوجھ بٹانا چاہتی تھی، لیکن اپنی طبیعت ہی بوجھل کر لی۔سر عمر کے جس حصے میں تھے انہیں تو اس کا سرتاج بننے کی خواہش بھی نہیں کرنی چاہئے تھی۔ کہاں وہ فرینڈ بننا چاہ رہے تھے۔سادہ فرینڈ بھی نہیں بوائے فرینڈ۔ہیڈ صاحب کے الفاظ سے اس کے ہیڈ میں درد رہنے لگا۔اس کا ایک بھائی یہ عذاب پہلے بھگت چکا تھا۔وہ نو عمری میں ایک صاحب سے ٹیوشن پڑھتا تھا۔ استاد صاحب عاشق ہو گئے اور عاشق بھی ایسے کہ خود کو فاسق نہیں،مشرقی روایات کا علمبردار سمجھتے تھے۔اردو ادب سے چن چن کر ایسے اشعار گنگناتے رہتے تھے جہاں مرد سے مرد کی والہانہ محبت کا بیان والہانہ انداز میں کیا گیا ہے۔ بھائی ذہنی مریض بن گیا۔پڑھائی سے نفرت ہو گئی اور پڑھے لکھے افراد سے بھی۔خواتین تو ہمارے معاشرے میں عرصہ دراز سے استحصال کا شکار ہو رہی ہیں۔اب کم عمر بچے بھی محفوظ نہیں رہے۔کم عمر تو کیا، کالج پڑھنے والے نو عمر لڑکے بھی عجیب عذاب سے گزرتے ہیں۔اساتذہ عمومی طور پر پہلے جیسے نہیں رہے، مگر جہاں زبانی امتحان کا رواج ہے وہاں بچے بچیاں عجیب کرب سے گزرتی ہیں۔ایک بڑے شہر کے بڑے ادارے میں زیر تعلیم چھوٹی عمر کے ایک طالبعلم کے بڑے استادنے زبانی امتحان میں پاس کرنے کی ایک ہی شرط رکھی۔دوستی۔دوستی بھی سادہ نہیں،مغربی معیارات کو شرماتی ہوئی دوستی۔ہر حد سے ماورا انتہائی بے حیاء، بچے کے لئے سزا،نفسِ امارہ کے پجاری استاد کے لئے دوا اور شفا۔ہمارے معاشرے میں استاد کو باپ کا درجہ دیا جاتا ہے۔کچھ عرصہ پہلے تک والدین خود بھلے بچوں کو ہاتھ تک نہ لگاتے ہوں، لیکن استاد کو پورا حق دیتے تھے کہ وہ بچے کے ساتھ جو سلوک مرضی کرے۔ استاد پر اندھا اعتماد کیا جاتا تھا۔استاد اعتماد پر پورا بھی اترتا تھا۔ عالم گیریت،اور مغربیت کے زیر اثر جنس کی بابت ہمارے فکری اور عملی رویے بدلتے گئے۔بد قسمتی سے ہمارے ہاں قرآنی احکامات اور حدیث کی تبلیغ کا حق ادا نہ کیا گیا۔ معاشرہ مختلف وجوہات کی بنا پر گھٹن کا شکار رہا۔لوگ نفسیاتی اور روحانی امراض کا شکار ہوتے گئے۔کہیں بے جا پابندیاں تھیں تو کہیں مادرپدر آزاد ماحول۔توازن کہیں بھی نہیں تھا۔ اسلام خواتین کو جو حقوق دیتا ہے،کئی علاقوں میں خواتین کو وہ حقوق میسر نہیں تھے۔ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مدرسے کے استاد کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی۔ مدرسوں میں اساتذہ کرام کے زیر تعلیم طلباء سے بد اخلاقی کے واقعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا فیشن کا درجہ پا چکا ہے۔ دیگر تعلیمی اداروں میں جو کچھ ہو رہا ہے،اس پر بھی ہمیں انتہائی سنجیدگی سے غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ لبرل کہلانے والے لوگ، بظاہر لبرل سمجھے جانے والے تعلیمی اداروں میں مظلوم بچے بچیوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں،اگر ہم جان لیں تو شاید ہمارے رونگٹے کھڑے ہو جائیں۔ہمارے ہاں طالبات کا روحانی باپ کسی بھی طریقے سے طالبہ کا یا طالبہ کے ہونے والے بچوں کا باپ بننا چاہتا تھا تو اسے اچنبھے کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور سخت ناپسند کیا جاتا تھا۔انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے استعمال میں زیادتی کی بدولت جنسی ویب سائٹس کا سیلاب آیا۔کچھ عرصہ تک انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل میڈیا بے لگام رہا۔نئی نسل ہی نہیں،پختہ عمر کے افراد بھی بگڑ گئے اور بہت بگڑ گئے۔کوئی طبقہ محفوظ نہ رہا۔وقتی لذت ہی مقصد حیات ٹھہری۔بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست انسانی فطرت بھی عجیب ہے۔بندہ خود برا ہو تو دکھ نہیں ہوتا، بندے کا ہیرو کوئی نیچ حرکت کر بیٹھے تو بے حد دکھ ہوتا ہے۔اساتذہ کرام ہمارے معاشرے کے ہیرو تھے اور رول ماڈل بھی۔ لوگوں نے جب اساتذہ کے جنسی معاملات میں کج روی دیکھی تو لوگ حیران بھی ہوئے، پریشان بھی،پشیمان بھی، بد گمان بھی،بے جان بھی۔اسلام جنسی معاملات میں کسی رو رعایت کا قائل نہیں۔قرآن سختی سے کھلے عام اور ڈھکی چھپی آشنائیوں سے منع کرتا ہے۔زنا کی سزا انتہائی سخت ہے تو امرد پرستی کا اسلام میں کوئی تصور نہیں۔پاک باز وہ ہے جس کی تنہائی پاک  ہے۔ خالقِ کائنات خود حیا والا ہے اور حیا کو پسند کرتا ہے۔حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ اگر کسی انسان میں حیا نہیں تو پھر وہ جو مرضی کرے۔حیا عورت کا ہی نہیں مرد کا بھی زیور ہے۔حضرت عثمانؓ کی حیا کی فرشتے بھی گواہی دیتے ہیں۔جو لوگ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلانا چاہتے ہیں انہیں انتہائی سخت سزا کی وعید سنائی گئی ہے۔ استاد اپنے کردار کا بھی ذمہ دار ہے اور اپنے معاشرے کے کردار کا بھی۔ اساتذہ سے انتہائی ادب سے روایت ہے کہ وہ اپنی درخشندہ روایات کا بھر م رکھیں۔نئی نسل کی کردار سازی میں اپنا کردار ادا کریں۔ 

؎جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہک

ان کی تدریس سے پتھر بھی پگھل سکتے ہیں 

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -