پی ایف سی کے دورہ گلگت بلتستان کی روداد اور پریوں کے دیس کی سیر کا آنکھوں دیکھا حال
ہمیشہ کی طرح اس دفعہ بھی اچانک ملک محمد سلمان صاحب صدر پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ کا پیغام موصول ہوا کہ پی ایف سی کے منتخب ممبرز اس دفعہ جشن آزادی گلگت بلتستان میں سلیبریٹ کریں گے، مجھے بھی اس حوالے سے با ضابطہ دعوت دی گئی جو میں نے ہمیشہ کی طرح دل سے قبول کی ۔11 اگست کو میں اپنے آفس اوکاڑہ سے سیدھا لاہور پہنچا، جدھر سے سب ممبر نے اکٹھے ہو کراپنےسفرکاآغاز کرنا تھا ،ہم لوگ گیارہ اگست کی رات 9 بجے لاہور سے روانہ ہوئے اور رات 1 بجے اسلام آباد ٹول پلازہ پر پہنچ گئے،یہاں سے باقی تمام دوستوں کو پک کرنا تھا،درالحکومت کے قریب پہنچ کربارش شروع ہوگئی جس نےسفرکامزہ دوبالا کردیا ۔ٹول پلازہ سے باقی دوستوں کو رسیو کر کے گلگت بلتستان کےسفر کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ ایک دوسرے کے ساتھ انٹروڈکشن کرواتے اور گپ شب کرتے کب ہم لوگ مانسہرہ پہنچ گئے پتا ہی نہیں چلا، اسی طرح نماز فجر کا وقت بھی ہوگیا تو نماز کی ادائیگی اور تازہ دم ہونے کے لیے مانسہرہ بائی پاس پر بس کو کچھ وقت کے لیے روکا گیا ۔ مانسہرہ کا موسم بہت ہی خوشگوار تھا،بس سے نیچے اترتے ہی سفر کی تھکن بالکل بھول گئی ،سب دوست منہ ہاتھ دھونے اور فریش ہونے میں مصروف تھے لیکن ہمیشہ کی طرح مجھے ایک ہی خیال تھا کہ ایک آدھ تصویر بنالی جائے اور میں نے وہی کیا۔
مانسہرہ سے ہمارا سفر ناران کی طرف شروع ہوا اور ہم لوگ حسین موسم میں صبح کی ٹھنڈک کے ساتھ 9 بجے ناران ہمارے متعلقہ گیسٹ ہاوس یہان پر پاکستان فیڈریشن کی جانب سے ہمارے رکنے اور ناشتے کا انتظام کیا گیا تھا پہنچ گئے ، گیسٹ ہاؤس میں ابھی سارا عملہ اور باقی مہمان بھی نیند کے مزے اڑا رہے تھے، گیسٹ ہاؤس کا سارا منظر ہی بہت دلفریب تھا، ایک طرف سے دریائے کنہار کے پانی کا شور اور دوسری طرف رنگ برنگے پھولوں پر بیٹھے پرندو ں کی آواز بہت ہی دلفریب تھی، یہ گیسٹ ہاوس ناران سے کوئی 10 کلومیٹر پیچھے اور کاغان سے کو ئی پندرہ کلومیٹر آگے کہنے کا مطلب یہ کہ شہر کے شور شرابے سے بالکل علیحدہ تھا، گیسٹ ہاوس کے سٹاف کو اٹھایا گیا تو انہوں نے سب کو ان کے کمرے جو کہ پہلے سے ہی بکڈ تھے کی چابیاں الاٹ کیں،میرا کمرا دریا کے بالکل کنارے ویو پوائنٹ پر واقع تھا،کمرے میں داخل ہوتے ہی پہلی نظر ونڈو پر پڑی جس سے دریائے کنہار کا پانی اور سامنے موجود پھولوں نے آنکھوں کو احساس دلایا کہ شاید یہ کوئی پینٹنگ لگی ہوئی ہے جو کہ قدرت کے اتنا قریب کہ بنانے والے آرٹسٹ کے ہاتھ چوم لیے جائیں لیکن میرے ساتھ کمرے میں عمر بھائی موجود تھے جو کہ پیشے کے لحاظ سے پروگروام اینکر ہیں لیکن انتہائی خوبصورت اور خوب سیرت انسان ہیں، انہوں نے ونڈو کی سکرین سائڈ پر کی تو پانی کے شور سے احساس ہوا کہ یہ سچ میں قدرت کی بنائی ہوئی ایک دلکش تصویر ہی ہے ،جیتی جاگتی باتیں کرتی شور مچاتی تصویر۔
فریش ہونے کے بعد سب نے ناشتے کے میز پر بیٹھے یہ طے کرنا کہ پوری رات کا سفر کرنے کے بعد سب تھک چکے ہیں اس لیے کچھ وقت آرام کرلیں یا پھر جھیل سیف الملوک کی طرف سفر کیا جائے، اتنے پیارے اور حسین موسم میں سونے کی گستاخی کون کر سکتا تھا ؟اس لیے سب نے گھومنے کا ہی ارادہ کیا اور ہم لوگ جھیل سیف الملوک کی طرف پریوں کی تلاش میں نکل پڑے حالانکہ میں شرکا کا تعارف کرواتا چلوں تو بہت ساری "پریاں" ہمارے گروپ میں ہمارے ساتھ بھی موجود تھی لیکن ہم پرستان سے آنے والی پریوں کے دیوانے تھے ۔ پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ کی طرف سے گلگت بلتستان کے ہمارے اس ٹور میں میاں حبیب اللّٰہ صاحب سینئر صحافی و کالم نگار جو کہ ہمارے اس ٹور کے گروپ لیڈر بھی تھے، ملک محمد سلمان صاحب صدر پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ جنہوں نے اس پورے سفر کا اہتمام کیا ، پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کی ڈپٹی ڈائریکٹر حنا خالد ایک بہت ہی خاموش اور آرٹسٹ خاتون ۔
ڈپٹی سیکرٹری توانائی پنجاب محمد آصف اقبال ہمارے گروپ کے ہیرو شاید میں جن کا ولن تھا ، اینکر پرسن عمر حسین چوہدری میرے خوبصورت اور خوب سیرت دوست جن کا ذکر اوپر بھی کیا جا چکا ہے ، قرات العین عینی پی ٹی وی سے اینکر پرڈیوسر رایئٹر ،مہرین فاطمہ جن کے بارے میں شاید عمر بھائی میرے سے زیادہ اچھا بتا سکتے تھے لیکن میں ہی بتاتا چلوں کہ مہرین پیشے کے لحاظ سے نیوز اینکر ہیں اور ہمارے اس ٹورر میں سی سی ٹی وی کا کردار ادا کر رہی تھی ، لیلہ شاہ بھی پیشے لے لحاظ پروگروام اینکر ہیں ، دعا شاہ کے بارے میں لکھنے کو بہت کچھ تھا لیکن ہمارے اس ٹور میں وہ لمحوں کو قید کرنے مطلب کے فوٹوگرافی کی خدمات سرانجام دے رہی تھیں ، سویرا چیمہ میڈیا سٹودنٹ اور ٹرویلڑ ہیں جو کہ اس ٹورر میں صرف نیند پوری کرنے ہی آئیں تھی ، عبدالوحید کا تعلق بھی صحافت سے ہے لیکن ہمارے گروپ میں سب کی مدد کرنے کی ذمہ داری ان کو ہی سونپی گئی تھی اور وہ ذمہ داری انہوں نے بہت اچھے طریقے سے نبھائی،ٹور میں ہمارے ساتھ فوٹوگرافر طارق محمود بھی شامل تھے، کہنے کو تو طارق سب کے ساتھ تھے لیکن جب ہم لوگوں نے فوٹوز دیکھے تو احساس ہوا کہ طارق کے بنائے گئے 500 فوٹوز میں سے کوئی 600 فوٹوز پریوں کے ہی تھے، ہمارے دکھ اپنی جگہ لیکن طارق بھائی کو اپنے کام میں مکمل مہارت حاصل ہے۔
ناشتے کے بعد ہمارا پریوں کی تلاش کا سفر شروع ہوا اور ہم ناران سے جیپوں میں بیٹھ کر سیف الملوک کی طرف روانہ ہوگئے، وہاں پہنچ کر ایک دفعہ لوگوں کا تانتا بندھا ہوا دیکھا تو مایوسی ہوئی کہ شاید اب پریوں کی جگہ سیف الملوک نہیں رہی ہوگی کیونکہ وہاں اب لوگوں کی اتنی تعداد موجود ہے کہ شاید اب پریوں کی گنجائش نہیں رہی ہوگی لیکن جب آپ ان مارکیٹوں ، دکانوں اور ہوٹلوں کے ناجائز قبضوں اور گندگی کے عذابوں کے پار دیکھیں تو سیف المکوک میں سچ میں پریاں اترتی دکھائی دیں گی ۔ جب سفید اور سبز پہاڑوں کے اوپر نیلگوں آسمان کا عکس جھیل کے پانیوں پر نظر آتا ہے تو ایک دفعہ اس پانی سے عشق سا ہونے لگتا ہے، ایسے لگتا ہے کہ سچ میں کسی پری کا عکس ہے جو نیلے اور سفید رنگ لے لباس میں ملبوس آپ کو پانی کی طرف کھنیچ رہی ہے۔
کچھ وقت جھیل کے پاس گزارنے کے بعد ہم لوگوں نے اوپر لگے پکوڑوں کے سٹالز پر جا کر دوپہر کا کھانا کھایا جو کہ جھیل کنارے پیاز والے پکوڑوں کا بھی اپنا ایک خاص ٹیسٹ ہے جو کہیں اور نہیں ملنے والا۔ اگلی صبح ہم لوگ ناران سے ہماری اگلی منزل استور کی طرف روانہ ہوئے شام کو سات بجے ہم ہماری منزل استورمیں موجود وزیر ہوٹل اینڈ گیسٹ ہاوس جدھر ہم نے اگلی دو راتیں گزارنی تھی وہاں پہنچ گئے ۔ بہت ہی خوبصورت جگی تھی اور اور سفر کی تھکن کی وجہ سے وہاں اور بھی سکون محسوس ہو رہا تھا وہاں فریش ہونے کے بعد سب نے اکٹھے ڈنر کیا جو کہ انہوں نے اپنے روایتی انداز میں بنایا تھا اور بے حد لذید تھا ڈنر کرتے ہوئے سب لوگوں نے اگلے دن کا پروگرام بنایا اور کافی سوچنے کے بعد ہم نے راما جھیل کو فائینل کیا ، استور میں بہت ساری جگہیں ہیں دیکھنے کے لیے اس لیے انتخاب کرنا تھوڑا مشکل ہو ریا تھا صبح دس بجے ناشتہ کرنے کے بعد ہم لوگ راما کی طرف راونہ ہوئے اور راما میڈوز سے ہوتے ہوئے دوپہر کو دو بجے ہم لوگ راما جھیل کے ٹریک پر پہنچ گئے کیسے پہنچے یہ کہانی پھر کبھی خیر وہاں سے تھوڑا سا جیپ ٹریک تھا اور اس کے بعد پیدل یا گھوڑوں پر جانا پڑنا تھا جیپ میں بیٹھ کر ہم پیدل ٹریک پر پہنچ گئے اور اس سے آگے سب کو اپنی ٹانگوں پر اعتبار تھا اس لیے پیدل سفر کیا آغاز کیا ، کچا ٹریک اور جنگل کے ساتھ ٹریک شروع ہوا گرمی کی شدت کے باوجود چلنے میں مزا آرہا تھا ابھی تھکن کا احساس شروع ہی ہواتھا کہ راما گلیشیرز نے ہمارا سواگت کیا برف پت تھوڑا چلنے کے بعد ایک دم سے حیران ہو گئے کہ گلیشیرز کے ساتھ ایک بہت ہی خوبصورت جھیل جس کی شکل بالکل کسی کٹورے کی طرح گول تھی بہت ہی دلفریب منظر پیش کر رہ تھی لیکن یہ راما جھیل نہیں تھی یہ گلیشیرز کے پگھلنے کی وجہ سے جھیل وجود میں آئی تھی جو کہ دوبارہ شاید ہی کسی اور کو دیکھنے کا موقع ملے وہان رک کر ہم نے بہت ساری سلفیاں بنائی اور گلیشرز کا ٹھنڈا پانی پیا اور ہم میں سے کافی لوگوں نے گلیشیرز کے نیچے جانے کی کوشش کی جو کہ انتہائی خطرناک لیکن بہت ہی دلفریب منظر تھا ۔
راستے میں موجود گلیشرز کے ننھے منے بچوں سے اٹھکیلیاں کرتے ہم کوئی ڈیرح گھنٹے کے بعد راما جھیل کی چھن چھن کرتی خوبصورتیاں سامنے آہی گئیں نانگا پربت ہمیشہ کی طرح بادلوں کا سفید لباس پہنے بڑے تفاخر سے اترا رہی تھیں ۔ کچھ لمحون کے لیے اس کے سر سے بادلوں کا دودھیا دوپٹہ اترا تو سہی لیکن کیمرے کی زد میں کوئی خاص شوٹ نا آسکا ۔ اور راما جھیل کی یہ سب خوبصورتیاں اور قاتل ہپاڑ کی یہ ادائیں دیکھ کر تھکاوٹ رفوچکر ہوگئی اور جھیل کے ٹھنڈے پانی میں نہانے کا فیصلہ کیا جو کہ اس ٹرپ کا ایک شاندار فیصلہ ثابت ہوا پھر چائے پکوڑے ، چپس ، کولڈ ڈرنک اور پتہ نہیں کیا کیا الا بلا کا آرڈر دیکرکچھ لوگ مقامی افراد سے جھیل کہ کہانیاں سننے اور میوزک سننے اور باقی افراد جھیل کنارے آوارگی اور فوٹو کنچوانے میں مصروف ہوگئے ۔ کھانے پینے سے اچھا انصاف کرنے کے بعد سب دوستوں نے جھیل کے اندر جا کر گروپ فوٹو بنایا اور خوب انجوائے کیا عصر کی نماز کے بعد واپسی کی راہ لی اور واپس استور پہنچ کر جب موسم اچھا خاصا سرد ہو چکا تھا اپنے اپنے کمروں میں گھس کر دبک گئے اور اگلے دن کے منظر زہن میں سوچنے لگے لیکن میرے اس سفر کی بہترین نیند وہ تھی جو میں نے اور عمر بھائی نے جھیل کنارے پتھروں پر لیٹ کر آدھا گھنٹا گزارا۔ بے شک راما جھیل کے کنارے پتھروں پر سو کر جو مزے کی نید آتی ہے وہ کبھی نرم بستر پر لیٹ کر بھی نہیں آسکتی ۔ سب کے آخر میں ہمارے اس سارے سفر کے مکمل ارینجمنٹ کرنے میں پاکستان فیڈریش آف کالمسٹ اور ایک فرشتہ جن کا ذکر یہاں موجود نہیں ہے کا دل و جان سے شکریہ کہ وہ ملک پاکستان کی خوبصورتی دکھانے میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔