مہنگائی، اصلی یا مصنوعی؟

  مہنگائی، اصلی یا مصنوعی؟
  مہنگائی، اصلی یا مصنوعی؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

فارمیسی شاپ کے مالک مدثر نے ایک ہی میڈیسن کی دو ڈبیاں میرے سامنے رکھیں۔ایک پر قیمت 330 روپے تھی، جبکہ دوسری پر930 روپے، پھر اُس نے ایک اور میڈیسن کی دو ڈبیاں مجھے دکھائیں، ایک پر قیمت 430 روپے تھی اور دوسری پر1930 روپے۔اُس نے کہا آپ بہت لکھتے ہیں،کبھی اس ڈاکے پر بھی لکھیں جو ادویات کی آئے روز ہوشربا قیمتیں بڑھا کر غریب عوام کی جیبوں پر ڈالا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا ادویہ ساز کمپنیوں نے پچھلے دو برسوں میں جو لٹ مچائی ہے،اُس کا تصور نہیں کیا جا سکتا، کئی سوگنا قیمتیں بڑھا دی گئی ہیں۔ اب تو کلیہ یہ ہے جو دوائی مارکیٹ میں نایاب ہو جائے، سمجھو اُس کی قیمت دو گنا یا تین گنا ہونے والی ہے۔کچھ عرصہ لوگ اُس کی تلاش میں مارے مارے پھریں گے، پھر جب نئی قیمت پر سپلائی کی جائے گی تو یہ سوچ کر خرید لیں گے کہ شکر ہے دستیاب تو ہوئی۔اُس نے کہا اِس وقت عام سی بیماری کا علاج بھی اتنا مہنگا ہو گیا ہے جو عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہے،مگر اِس کے باوجود کوئی دن ایسا نہیں جاتا،جب کسی میڈیسن کی قیمت میں اضافہ نہ ہو جاتا ہو۔اس کا مجھے خود بھی تجربہ ہے،کیونکہ آئے روز اُن ادویات کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں جو ہمارے روزمرہ استعمال میں شامل ہو چکی ہیں۔ایک زمانے میں ادویات کی قیمتیں حکومت کی مرضی اور منظوری سے بڑھائی جاتی تھیں۔ایک ڈرگ ریگولیٹری  اتھارٹی بھی ہوتی تھی، جو گہری چھان پھٹک اور تجزیے کے بعد ادویات کی صرف چند فیصد قیمتیں بڑھانے کی اجازت دیتی تھی،مگر اب ایسا کوئی تکلف نہیں کیا جاتا۔ سب سے زیادہ قیمت بلڈ پریشر اور شوگر کی ادویات کی بڑھائی گئی ہیں یہی دو بیماریاں ایسی ہیں،جن میں آدھا ملک مبتلا نظر آتا ہے۔ اس کی وجہ حالات ہیں، جس نے ہر شخص کو پریشان کر رکھا ہے اور مریض بنا دیا ہے۔سوال یہ ہے کیا ایک ایسے ملک میں ادویہ ساز کمپنیوں کو کھلی چھٹی دی جا سکتی ہے کہ وہ جب چاہیں جتنی مرضی قیمتیں بڑھا دیں،جہاں غربت انتہاء درجے کی موجود ہے اور  لوگوں کی اوسط آمدنی اتنی بھی نہیں کہ وہ دو وقت کی اچھی روٹی ہی کھا سکیں،ہمارے حکمران سمجھتے ہیں عوام کا مسئلہ صرف روٹی دال ہے وہ اگر تھوڑے بہت سستی ہو جائیں تو ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے کہ مہنگائی کم ہو گئی ہے۔دوسری طرف ایک گولی اگر پہلے20روپے کی تھی اور اب100روپے میں خریدنی پڑتی ہے، تو اس کئی سو گنا مہنگائی کی طرف کسی کی نظر ہی نہیں جاتی۔ایک دوائی اگر پانچ گنا مہنگی کر دی جائے تو ادویہ ساز کمپنی کو اربوں روپے کا فائدہ ہوتا ہے۔اس میں کون کون حصے دار ہوتے ہیں اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے،کیونکہ اتنی بڑی چھلانگ کسی سرپرستی کے بغیر نہیں لگائی جا سکتی۔میں نے عرصہ ہوا کسی وزیر، مشیر یا وزیراعلیٰ اور وزیراعظم کا یہ بیان نہیں دیکھا کہ ادویات کو مصنوعی طور پر مہنگاکرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ یوں لگتا ہے جیسے انہیں اس شعبے کی پرواہ ہی نہیں، شاید اس کی وجہ یہ ہو اِن افراد کا علاج و ادویات مفت دستیاب ہوتی ہیں، پھر چھوٹی سی بیماری کا علاج کرانے کے لئے بھی انہیں بیرون ملک جانے کی اجازت ہوتی ہے۔علاج کا بِل پاکستانی عوام سے ظالمانہ ٹیکسوں کے ذریعے حاصل ہونے والی آمدنی ہی سے ادا کیا جاتا ہے۔

ملک میں بے یقینی اور عدم استحکام ہو تو گڈ گورننس ایک بے تعبیر خواب بن جاتی ہے۔اِس وقت کوئی ایک شعبہ بے لگام نہیں،بلکہ اکثر شعبے جو من میں آئے کر رہے ہیں۔ مہنگائی کو ہی لیں تو اسے کنٹرول کرنے کا نظام سرے سے مفلوج نظر آتا ہے۔پچھلے دِنوں وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا تھا مڈل مین اشیاء سستی نہیں ہونے دیتا۔یہ مڈل مین کون ہے اور کہاں پایا جاتا ہے کہ جس پر قانون کی گرفت نہیں ہوتی۔اُس کے منافع کو اتنا زیادہ کیوں ہونے دیا جاتا ہے،جو عوام پر بوجھ بنے۔منڈیوں میں یہ مڈل مین کاشتکا ر کو پورا معاوضہ نہیں لینے دیتا اور دوسری طرف عام صارفین تک سستی اشیاء پہنچنے کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ سرکاری نرخ نامے ہر شہر میں روزانہ جاری کئے جاتے ہیں، مگر یہ نہیں بتایا جاتا جو قیمتیں بتائی گئی ہیں،دستیاب کہاں ہوں گی۔پچاس روپے کی فوٹو کاپی  دکاندار اور ریڑھی والے کو دے کر مارکیٹ کمیٹی کے حکام سمجھتے ہیں انہوں نے اپنا فرض پورا کر دیا۔ ان قیمتوں کو عملی طور پر نافذ کرانا کوئی اپنے ذمے نہیں لیتا۔مجھے ایک ماہر معیشت نے بتایا پاکستان میں مہنگائی اشیاء کی کمیابی کے باعث نہیں،بلکہ گورننس کے فقدان کی وجہ سے ہے۔یہاں جس کا جو داؤ لگ رہا ہے لگائے جا رہا ہے سب سے زیادہ لوٹ مار کھانے پینے والی اشیاء میں ہو رہی ہے،جن میں ادویات بھی شامل ہیں اگر حکومت تھوڑی سی ہمت دکھائے،ایسے طبقوں اور افراد پر ہاتھ ڈالے جو مصنوعی مہنگائی کے ذریعے عوام کا جینا دوبھر کئے ہوئے ہیں تو انہیں بڑا ریلیف مل سکتا ہے،مگر اس کے لئے جرأت اور ہمت کی ضرورت ہے، جس حکومت کے پاس مضبوط مینڈیٹ ہی نہ ہو وہ آڑھتیوں، تاجروں اور بروکروں کا سامنا نہیں کر سکتی۔ اسے یہی ڈر لگا رہتا ہے کہ اگر ہڑتال ہو گئی، اشیاء غائب کر دی گئیں تو عوام کی طرف سے ایک دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا۔حکومتوں نے ایک طرف ہر قسم کی سبسڈیز کا خاتمہ کر دیا ہے اور دوسری طرف انہیں ناجائز منافع خوروں، ذخیرہ اندوزوں اور مصنوعی مہنگائی کے ذریعے عوام کے جسم سے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑنے والوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔اب تو بھولے سے بھی کوئی حکمران یہ بیان نہیں دیتا کہ ناجائز منافع خوری کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

ایک دور تھا سیاسی جماعتیں بھی مہنگائی کے خلاف آواز اٹھاتی تھیں۔زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں، تحریک انصاف کے دورِ حکومت میں سب سے زیادہ لانگ مارچ مہنگائی کے خلاف ہی  کئے گئے تھے۔ اب ایسا لگتا ہے ملک سے مہنگائی کا خاتمہ ہو گیا ہے۔یہ ایشو ہی نہیں رہا جس پر سیاسی جماعتیں توجہ دیں،حالانکہ زمینی حقیقت یہ ہے مہنگائی آج بھی ملک کا نمبر ون مسئلہ ہے۔ لوگوں کی قوتِ خرید نہ ہونے کے برابر رہ گئی  ہے۔ہاں ایک طبقہ ایسا ضرور ہے جو آج خوشحالی سے ہمکنار ہے اور ہر قسم کی خریدای کر سکتا ہے،لیکن مسئلہ اُس طبقے کا ہے جس کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ایسے ہزاروں گھرانے ہیں جن میں بوڑھے والدین کی بیماری پر  اتنے اخراجات اُٹھتے ہیں کہ کھانے کو پیسے نہیں بچتے۔سرکاری ہسپتالوں سے ادویات نہیں ملتیں اور بازار میں اُن کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ گزشتہ دو برسوں سے اِس ملک کی سیاست اور گورننس صرف اپوزیشن کو کنٹرول کرنے تک محدود ہے۔اپنی کمزور گرفت کی وجہ سے حکومت ان طاقتور طبقوں کے خلاف اقدامات  سے گریزاں ہے جو ملکی صورتحال کا پورا پورا فائدہ اُٹھا کے اپنے مفادات پورے کر رہے ہیں۔اس وقت ضرورت اِس امر کی ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف چاروں وزرائے اعلیٰ کا ایک اجلاس طلب کر کے مہنگائی پر قابو پانے کا ایک قومی ایجنڈا ترتیب دیں۔سب سے زیادہ فوکس اس نکتے پر رکھا جائے کہ مصنوعی مہنگائی کے ذمہ داروں کو کسی صورت من مانی کی اجازت نہیں دی جائے گی اس کے لئے ایک میکنزم بنا کے دلجمعی سے کام کیا جائے تو مثبت نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -