کاش امریکی صدر سرینگر بھی جاتے

کاش امریکی صدر سرینگر بھی جاتے
کاش امریکی صدر سرینگر بھی جاتے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جب احمد آباد کرکٹ گراؤنڈ میں سوا لاکھ بھارتیوں کا جلسہ دیکھ کر خوشی سے نہال تھے اور اس عالم ِ سرخوشی میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو سب سے بڑا جمہوری وزیراعظم اور بھارت کو دُنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ قرار دے رہے تھے، عین اُسی وقت بھارت کے دارالحکومت دہلی میں خونریز جھڑپیں اور مظاہرے بھارتی جمہوریت کے مسخ شدہ چہرے کو بے نقاب کر رہے تھے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی تقریر میں کہہ گئے کہ بھارت اِس لئے دُنیا کی ایک بڑی جمہوری ریاست ہے کہ یہاں ہندو، مسلم، سکھ، پارسی اور دیگر مذاہب کے ماننے والے اکٹھے رہ رہے ہیں۔ٹرمپ یہ بات مودی سے امریکی مفادات میں کئے جانے والے معاہدوں کی وجہ سے انہیں خوش کرنے کے لئے کہہ گئے،وگرنہ حقیقت یہ ہے کہ مودی نے بھارت کو انتہا پسند ہندو ریاست میں تبدیل کر دیا ہے،جہاں دیگر مذاہب اور عقیدوں کے ماننے والوں کی زندگی اجیرن ہو کر رہ گئی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ تو کہا کہ ہمارے پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں،مگر ساتھ ہی اپنی عادت سے مجبور ہو کر یہ تڑکا بھی لگایا کہ پاکستان سے مل کر دہشت گردی کے خلاف کام کر رہے ہیں،اِس سے پہلے وہ یہ کہہ چکے تھے کہ بھارت اور امریکہ کو اسلامی انتہا پسندوں نے لڑنا ہے۔اس ساری تقریر میں ڈونلڈ ٹرمپ ایک بہت بڑی منافقت کر گئے،انہوں نے جہاں جمہوریت اور انسانی حقوق کی باتیں کیں وہاں وہ مقبوضہ کشمیر میں چھ ماہ سے محبوس80لاکھ کشمیروں کا ذکر تک نہیں کر سکے، نہ ہی انہوں نے نریندر مودی سے یہ کہا کہ مقبوضہ وادی سے کرفیو ختم کر کے کشمیریوں کو زندہ رہنے کا حق دیا جائے۔


ایک زمانے میں امریکی صدور بغیر لگی لپٹی رکھے حقیقت بیان کر دیتے تھے،مگر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک شاطر کھلاڑی کی طرح گیم کھیلنے کا رویہ اپنا رکھا ہے۔کیا امریکی انٹیلی جنس اتنی کمزور ہے، جس نے اپنے صدر کو یہ تک نہیں بتایا کہ نریندر مودی بھارتی تاریخ کا سب سے متنازعہ اور نامعقول وزیراعظم ثابت ہوا ہے،جس نے بھارت کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے،اُس کی شان میں آدھے گھنٹے کی تقریر کر کے امریکی صدر نے یہ واضح کر دیا ہے کہ اب امریکہ کو صرف اپنا معاشی مفاد عزیز ہے۔وہ بھارت کو اربوں ڈالرز کا اپنا اسلحہ بیچنا چاہتا ہے۔اُس کی نظر میں بھارتی منڈی سپر ہے اور نریندر مودی ایک ایسا خوشامدی وزیراعظم ہے کہ جس کی امریکی صدر تعریف کرے تو اُس کی آنکھوں میں چمک آ جاتی ہے۔

اُس کی اِس کمزوری کو سامنے رکھ کر ڈونلڈ ٹرمپ تعریفوں کے پُل باندھتے ہیں، جس کا مقصد سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ امریکی مفادات کے حامل معاہدوں کے لئے نریندر مودی کو تیار کرنا چاہتے ہیں۔اس حقیقت کو بھارت کی بڑی اپوزیشن جماعت کانگریس بھانپ چکی ہے،جس نے امریکی دورے کو ایک سوشل سرگرمی قرار دے کر امریکی صدر کے اعزاز میں تقریب کا بائیکاٹ کیا۔احمد آباد کے جلسے میں امریکی صدر کی تقریر کو سیاسی مہم قرار دیا، جس کا مقصد امریکی صدرکی آئندہ صدارت کے لئے راہ ہموار کرنا ہے اور دوسری جانب نریندر مودی کو اس مشکل وقت میں سہارا دینا ہے، ایک زمانے میں امریکی صدور ایشوز پر بات کرتے تھے، ڈونلڈ ٹرمپ نے ایشوز کی بجائے دوسرے ملک کے حاکم وقت کی تعریف کر کے شیشے میں اتارنے کی پالیسی اختیار کی ہے،جس کا سب سے بڑا ہدف نریندر مودی ہیں، جو امریکی صدر کی تعریف کو اپنے لئے کامیابی کی سند سمجھتے ہیں،حالانکہ اُن کا اپنا حال یہ ہے کہ بھارت اِس وقت جل رہا ہے اور شکست و ریخت اُس کا مقدر بن چکی ہے۔


ڈونلڈ ٹرمپ کی نریندر مودی کو بے وقوف بنانے کی حکمت ِ عملی اُس وقت بھی عیاں ہوئی جب انہوں نے کہا کہ بھارت کی معیشت بڑی تیزی سے ترقی کر رہی ہے اور یہ صرف نریندر مودی کی قائدانہ صلاحیتوں کی وجہ سے ہے،جبکہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ پچھلے چھ برسوں میں بھارتی معیشت کا گراف نیچے آیا ہے اور اقتصادی جائزوں کے مطابق بھارت اس وقت بدترین معاشی دور سے گذر رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارتی سٹیٹ کے بارے میں اتنا بڑا جھوٹ کیوں بولا،جواب وہی ہے کہ نریندر مودی کی کمزوری ڈونلڈ ٹرمپ کے ہاتھ لگ گئی ہے کہ وہ جھوٹی تعریفیں سن کر عبداللہ دیوانے کی طرح خوش ہو جاتے ہیں اور اسی خوشی میں وہ امریکہ سے ایسے معاہدے بھی کرگذریں گے جو سرا سر امریکی مفاد میں ہوں گے۔اس وقت بھارت کا مسئلہ اقتصادی نہیں،بلکہ سیاسی ہے۔بھارت ٹوٹ رہا ہے اور یہ خود بھارتی سیاست دان کہہ رہے ہیں۔ جمعیت العلمائے ہند نے بھارت میں ایک بہت بڑی تحریک شروع کر رکھی ہے۔

یہ تحریک صرف مسلمانوں کے حقوق کے لئے نہیں،بلکہ بھارت میں جمہوری اقدار کی پامالی اور اُسے انتہا پسند ہندوؤں کے سپرد کرنے کے خلاف ہے۔یاد رہے کہ جمعیت العلمائے ہند نے قیام پاکستان کے وقت بھی بھارت میں رہنے کا فیصلہ اسی لئے کیا تھا کہ بھارت کو سیکولر جمہوری ریاست کہا گیا تھا،مگر اب یہ ریاست ہندو انتہا پسندوں آر ایس ایس کے نرغے میں ہے، جس کی داغ بیل خود نریندر مودی نے متنازعہ شہریت بل پاس کر کے ڈالی ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ ہندو انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس کے غنڈے جس بربریت کا مظاہرہ کر رہے ہیں،اس کی تفصیل اس دن بھی دنیا بھرکا میڈیا دکھاتا رہا،جب امریکی صدر آگرہ میں تاج محل کی سیر کا مزا لے رہے تھے۔حیرت ہے کہ اتنی واضح حقیقتوں کے باوجود امریکی صدر نریندر مودی کو بھارت کا کامیاب ترین وزیراعظم قرار دیتے رہے،اسے منافقت کہا جائے یا کچھ اور، اس کا فیصلہ خود امریکی عوام نے کرنا ہے،جواس بات پر فخر کرتے ہیں کہ امریکہ دُنیا میں انسانی حقوق اور جمہوریت کا علمبردار ہے،مگر اُن کا صدر ایک ایسے شخص کی تعریفوں کے پُل باندھ رہا ہے،جو انسانی حقوق کی بدترین پامالی کا ذمہ دار ہے۔


امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا حالیہ دورہئ بھارت حقائق پر پردہ ڈالنے کی برترین مثال ہے۔احمد آباد سٹیڈیم میں سرکاری لاٹھی سے ہانکے ہوئے سوا لاکھ کے مجمعے کو دیکھ کر متاثرہونے والے ڈونلڈ ٹرمپ کاش تاج محل جانے کی بجائے سرینگر جانے کی خواہش کا اظہار کرتے تو ملمع کاری سے بھارت کا خوبصورت چہر دکھانے کے اس ڈرامے کی اصلیت سامنے آ جاتی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ایسے شخص کو جمہوریت کا چیمپئن قرار دے کر جسے دُنیا اب ہٹلر ثانی کے نام سے پکارتی ہے،خود امریکہ کے چہرے کو داغدار کیا ہے۔ایک بار پھر یہ ثابت ہو گیا ہے کہ امریکہ صرف اپنا مفاد دیکھتا ہے۔اس مفاد کے لئے جب چاہتا ہے دہشت گرد بناتا ہے اور جب مفاد پورا ہو جاتا ہے تو منہ پھیر لیتا ہے۔نریندر مودی ایک بہت بڑا دہشت گرد ہے،جس نے نہ صرف مقبوضہ کشمیر میں نہتے کشمیریوں کو ریاستی جبر کا نشانہ بنا رکھا ہے،بلکہ بھارت میں ہندو انتہا پسندی کو فروغ دے کر اقلیتوں کے لئے بھارت کو ایک بڑی جیل میں تبدیل کر دیا ہے۔کیا ایسے متعصب، منقسم مزاج اور ظالم شخص کی تعریف امریکی صدر کو زیب دیتی ہے؟امریکی قوم سے آج کی مہذب دُنیا یہ سوال پوچھ رہی ہے۔

مزید :

رائے -کالم -