این اے75 ڈسکہ میں دوبارہ پولنگ کا حکم

این اے75 ڈسکہ میں دوبارہ پولنگ کا حکم

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


الیکشن کمیشن نے این اے75 ڈسکہ میں 19 فروری کو ہونے والا انتخاب کالعدم قرار دے دیا اور حکم دیا ہے کہ حلقے میں 18مارچ کو دوبارہ پولنگ ہو گی،یہ فیصلہ الیکشن کمیشن کے اجلاس میں کیا گیا،جس میں چیف الیکشن کمشنر اور چاروں صوبائی الیکشن کمشنروں نے شرکت کی، اِس سے پہلے منگل کو بھی کیس کی سماعت ہوئی تھی، جس میں مسلم لیگ(ن) نے مطالبہ کیا تھا کہ صرف مشتبہ پولنگ سٹیشنوں کی بجائے پورے حلقے میں دوبارہ انتخاب کرایا جائے،کیونکہ پولنگ کے دن خوف و ہراس کی ایسی فضا پیدا کر دی گئی تھی،جس کی وجہ سے وہ ووٹر بھی واپس چلے گئے، جو  ووٹ ڈالنے کے لئے گھروں سے چل کر آئے تھے،بہت سے پولنگ سٹیشنوں پر ووٹروں کو کئی گھنٹے تک قطاروں میں کھڑے رہنے کے باوجود ووٹ ڈالنے میں کامیابی نہیں ہوئی،جس کی وجہ سے انہیں بھی ووٹ ڈالے  بغیر واپس جانا پڑا۔وزیراعظم عمران خان کی ہدایت کے بعد تحریک انصاف البتہ مشتبہ پولنگ سٹیشنوں کی حد تک دوبارہ پولنگ پر رضا مند ہوئی تھی، جب کہ اس سے پہلے وہ اپنی کامیابی کا اعلان کرنے کا مطالبہ کر رہی تھی۔اس نے دوبارہ پولنگ کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مسلم لیگ(ن) کا مطالبہ چونکہ مان لیا گیا ہے اِس لئے اس کی جانب سے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو  سراہا گیا۔
ڈسکہ کا الیکشن کوئی واحد ضمنی انتخاب نہیں تھا، قریبی علاقے وزیر آباد میں بھی اسی روز صوبائی اسمبلی کی ایک نشست پر انتخاب ہوا،جس میں تحریک انصاف کا امیدوار ہار گیا،لیکن وہاں ہار جیت کو تسلیم کیا گیا اسی طرح دوسرے صوبوں میں بھی جہاں جہاں انتخاب ہوئے نتیجہ مان لیا گیا۔ نوشہرہ کے حلقے کے بارے میں البتہ وزیر دفاع پرویز خٹک کا یہ بیان ضرور سامنے آیا کہ اس حلقے میں الیکشن کمیشن اور مسلم لیگ(ن) کی ملی بھگت کی وجہ سے تحریک انصاف کا امیدوار ہارا، جبکہ زمینی حقائق کے مطابق پرویز خٹک کے حقیقی بھائی لیاقت خٹک نے بھی اپنی جماعت کے امیدوار کا ساتھ نہیں دیا،جس کی وجہ سے اُن کی صوبائی وزارت بھی گئی، الیکشن کمیشن نے پرویز خٹک کا موقف مسترد کر دیا ہے  اور اس حلقے میں مسلم لیگ(ن) کے امیدوار اختیار ولی کی کامیابی کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا ہے۔
ڈسکہ کے حلقے میں الیکشن کمیشن کو دوبارہ پولنگ کرانے کی ضرورت کیوں پیش آئی،اس کا ایک جواب تو الیکشن کمیشن کی اس پریس ریلیز کے اندر بھی بین السطور موجود ہے جو20 فروری کو علی الصبح جاری ہوئی اور جس میں بتایا گیا تھا کہ کس طرح بیس پولنگ سٹیشنوں کے پریذائیڈنگ افسروں کے ساتھ الیکشن کمیشن کی ہائی کمان کا رابطہ کٹ گیا۔ ایک کے سوا ان سب کے فون بند تھے ان پریذائیڈنگ افسروں نے یہ مضحکہ خیز موقف اختیار کیا تھا کہ وہ دھند اور خراب راستوں کی وجہ سے ریٹرننگ افسر کے دفتر نہیں پہنچ سکے،حالانکہ دھند اگر تھی تو پورے حلقے میں تھی، حیرت ہے کہ337 پولنگ سٹیشنوں کے پریذائیڈنگ افسروں کا تو اس دھند نے کچھ نہ بگاڑا اور وہ  پول شدہ ووٹوں کے تھیلے صحیح سلامت لے کر ریٹرننگ افسر کے پاس پہنچ گئے،ان پولنگ سٹیشنوں کے نتیجے کا اعلان بھی ہو گیا، لیکن بیس پریذائیڈنگ افسر دھند اور خراب راستوں کی نذر ہو گئے اور پھر اُن کی آمد صبح چھ بجے ہو سکی، جہاں انہوں نے اپنی گمشدگی کی وجہ بیان کرنے کے ساتھ ساتھ ٹیلی فون بند ہونے کا ایک ہی جواز پیش کیا کہ بیٹری ختم ہو گئی تھی۔ ان بیانات کی روشنی میں ریٹرننگ افسر نے بتایا کہ 14پولنگ سٹیشنوں کا نتیجہ تبدیل کیا گیا تھا، جس کے مطابق ان پولنگ سٹیشنوں میں کاسٹ ہونے والے ووٹوں کی شرح80 سے90 فیصد تک چلی گئی تھی اور چند ایک کے سوا سارے کے سارے ووٹ تحریک انصاف کے امیدوار کو پڑے تھے۔اب اس کی توجیہہ یہ کی جا رہی ہے کہ ان پولنگ سٹیشنوں پر عام انتخابات میں بھی تحریک انصاف کے امیدوار کو  زیادہ ووٹ ملے تھے۔
جو پریذائیڈنگ افسر غائب ہوئے یا کئے گئے اُن کے خلاف انضباطی کارروائی کرنا الیکشن کمیشن کا اختیار ہے،غائب ہونے والے پریذائیڈنگ افسروں میں سے ایک نے کہا کہ اُنہیں کہا گیا کہ آپ اپنی گاڑیوں میں جانے کی بجائے ہمارے ساتھ چلیں اور ہماری گاڑیوں میں بیٹھیں جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ کون ہیں تو انہوں نے اپنا تعارف یہ کہہ کر کرایا کہ اُن کا تعلق خفیہ پولیس سے ہے۔ایک پریذائیڈنگ افسر نے اس پولیس افسر کا نام بھی بتایا،اسی طرح خاتون امیدوار نے بھی پولیس کی شکایت کی ہے۔اب جبکہ دوبارہ پولنگ کا اعلان ہو چکا ہے تو ضرورت اِس بات کی ہے کہ الیکشن کمیشن اِس بات کو یقینی بنائے کہ ایسی شکایات کا اعادہ نہ ہو، دوبارہ پولنگ سے پہلے پوری ضلعی اور پولیس انتظامیہ کو بھی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ جو انتظامی افسر ایک مرتبہ حکمران جماعت کے امیدوار کے حق میں آلہئ کار کا کردار ادا کر چکے ہیں اور اپوزیشن کی امیدوار کو ہراساں کرنے کے مرتکب ہوئے ہیں وہ دوبارہ بھی ایسی حرکت کر سکتے ہیں اِس لئے نہ صرف ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ضروری ہے، بلکہ یہ بھی اہم ہے کہ دوبارہ پولنگ میں انہیں کوئی ڈیوٹی نہ سونپی جائے،ورنہ وہ اپنا پہلے والا کردار ہی دہرائیں گے، پولیس کے خلاف بھی کارروائی ضروری ہے، کیونکہ ان کی آنکھوں کے سامنے سارا دن فائرنگ ہوتی رہی اور نمبر پلیٹیں اُتار کر موٹر سائیکل سوار کسی خوف کے بغیر دندناتے رہے اور پولیس خاموش تماشائی بنی رہی،اِس لئے دوبارہ پولنگ میں شفافیت لانے اور غیر جانبدارانہ انتخابات کو یقینی بنانے کے لئے کارروائی ضروری ہے، جو پریذائیڈنگ افسر غائب ہوئے انہوں نے تو الیکشن ڈیوٹی کے لئے خود کو نااہل ثابت کر دیا ہے اِس لئے اُنہیں تو دوبارہ الیکشن ڈیوٹی سونپنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔
تحریک انصاف اور مسلم لیگ(ن) کی قیادت اور ان رہنماؤں کو جو حلقے میں انتخابی مہم چلاتے رہے ہیں اور ظاہر ہے اب بھی پولنگ سے پہلے دوبارہ متحرک رہیں گے باہم مل کر کوئی ضابطہ اخلاق طے کر لینا چاہئے کہ اب کی بار19 فروری کے واقعات نہیں دہرائے جائیں گے، فائرنگ ہو گی اور نہ ووٹروں کی جانوں کو خطرے میں ڈالا جائے گا۔ ضمنی انتخابات کی ایک نشست کو زندگی اور موت کا مسئلہ بنا لینا کسی طور بھی پسندیدہ نہیں۔یہ نشست عام انتخابات میں مسلم لیگ(ن) نے جیتی تھی۔ اگر وہ دوبارہ بھی جیت جاتی تو جوہری طور پر نمبر گیم میں کوئی تبدیلی نہ آتی، ہار کی صورت میں تحریک انصاف کو بھی کوئی  فرق نہ پڑتا،لیکن جس طرح کی انتخابی مہم چلائی گئی اس سے تو لگتا تھا کہ شاید اقتدار کی ساری عمارت اِسی ایک حلقے کی بنیاد پر کھڑی ہے۔ وزیراعظم کے ایک معاونِ خصوصی جو عام انتخابات میں خود بھی ہار چکے ہیں، اپنے امیدوار کو جتوا کر ذاتی تسکین حاصل کرنا چاہتے تھے ان کا منصب اُنہیں الیکشن مہم چلانے کی اجازت نہیں دیتا تھا،لیکن وہ ایسا کرتے رہے۔کئی دوسرے وزیر بھی مہم چلاتے رہے،لیکن جب الیکشن کمیشن نے نوٹس لیا تو معاونِ خصوصی نے استعفا دے دیا۔اب دوبارہ پولنگ میں حالیہ غلطیوں کا اعادہ نہیں ہونا چاہئے۔ ووٹروں کو ووٹ ڈالنے کی پوری آزادی ہونی چاہئے، وہ جسے چاہیں ووٹ دیں اس حلقے میں پوری انتخابی مشق اکارت گئی ہے اور الیکشن کمیشن کو دوبارہ پولنگ کا اہتمام کرنا پڑا ہے۔اِس انتخاب سے جو سبق سیکھنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ووٹروں اور الیکشن کرانے والے عملے کو اغوا کر کے اپنے حق میں نتیجہ حاصل کرنے کی کوششیں ہمیشہ من پسند برگ و بار نہیں لاتیں۔سیاسی اخلاقیات کا تقاضا ہے کہ تمام فریقوں کے لئے میدان یکساں ہموار ہونا چاہئے۔الیکشن کمیشن نے دوبارہ پولنگ کا فیصلہ کر کے ایک بار پھر میدان سجانے کا اعلان کیا ہے تو سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں کو بھی اپنی اپنی ذمے داریوں سے کما حقہ‘ عہدہ برا ہونا چاہئے۔

مزید :

رائے -اداریہ -