انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... آخری قسط
انسانی سمگلنگ کے متعلق پائے جانے والے موجودہ خیالات پر تنقید کرنے والو ں کا مزید کہنا ہے کہ تشدد اور استحصال جس کا سامنا غیر قانونی تارکین وطن کو کرنا پڑتا ہے دراصل ان غیر قانونی ترک وطن کے عمل سے جڑاہوتا ہے نہ کہ سمگلنگ کے غیر قانونی نیٹ ورکس اس کا سبب بنتے ہیں ۔ تارا کارمک کے مطابق ، انسانی سمگلنگ کے متعلق تما م بحث اور پروپیگنڈہ کا مطلب تار کین وطن کے مفادات کو تقو یت دینا ہے کیونکہ یہ ان کو کسی اور ادارے کو تسلیم نہ کرنے یا ترک وطن کے بحث و مبا حثے کو سیا سی رنگ دینے سے روکتا ہے۔ انسداد انسانی سمگلنگ کے لیے کیے گئے اقدامات کو موردالزام ٹھر اتے ہوئے ان کے متعلق نا قدین کامو قف ہے کہ ایمنسٹی انٹر نیشنل کی طرح کے ادارے اس جرم کی روک تھا م کیلیے ناکافی یاغیر موثر سرکاری اقدامات کے حوالے سے مشکل کا سامنا کرتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ انسانی سمگلنگ کے مسئلہ کو سمجھنے کا فقدان، اس کے شکار افراد کی شناخت کا کمزور نظام اور انسداد سمگلنگ کے اہم عوامل کے حصول کے لیے ذرائع کا نہ ہونا (جس میں شناخت ، حفاظت ، روک تھام اور عدالتی کا روائی شامل ہے) اس میں بڑی رکاوٹ ہیں ۔ مثلاًایمنسٹی انٹر نیشنل ، بر طانوی حکومت کی طرف سے انسداد سمگلنگ کے نئے اقدامات کو غیر موزوں قرار دے چکی ہے۔ تنقید کرنے والوں نے اس طرح کی سینکڑ وں مثالیں دیکر ان بین الاقوامی کو ششوں کو مسترد کردیا جواس جرم کی روک تھام کے لیے گذشتہ ڈیڑھ عشرے سے عالمی سطح پر متفقہ طور پر کی جا رہی ہیں ۔ لاورا آگٹسن نے اس مسئلہ کو سلجھاتے ہوئے بیان کیا ہے کہ کچھ واقعات میں ’’اینٹی سمگلر ز‘‘ان تارکین کو ،جو یہ جانتے ہوئے کہ وہ جسم فروشی کریں گے سرحد عبور کرنے کا سوچ سمجھ کر فیصلہ کرتے ہیں، بھی سمگلنگ کے شکار افراد کا درجہ دیتے ہیں ۔ ایسے افراد اپنے آپ کو سمگلنگ کا شکار تصو ر نہیں کرتے ہیں ۔ ا یسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ جن میں مبینہ متاثر ہ فرد نے سر کای یا غیر سرکار ی تحفظ قبول کرنے سے انکار کر دیا یا وہ انسداد سمگلنگ کے مراکز سے فرار ہوگئے ۔ ایسے افراد کو اس جرم کا شکار قرار نہیں دیا جاسکتا۔
انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 67 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ڈی این اے (ڈیمی مو رانیڈ آسٹن )فاؤنڈیشن جو انسانیت کے پر چارک ڈینی مور اور آسٹن نے امریکہ میں بنائی تھی نے انسانی سمگلنگ کے خلاف لڑنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اپنی تمام کوششوں کا رخ اس طرف کردیا۔(خاص طور پر جنسی مقاصد کے لیے بچوں کی سمگلنگ کی طرف )ستمبر 2010ء کو اس جو ڑے نے ہالی ووڈ کے دیگر سٹارز اورمائیکروسافٹ جیسی ٹیکنالوجی کی کمپنیوں کے ساتھ مل کر جنسی مقاصد کے لیے بچوں کی سمگلنگ کے خلاف لڑنے کے لیے اپنی مہم ’’اصلی مرد لڑکیاں نہیں خرید تے ‘‘ کے نام سے شروع کرنے کا اعلان کیا ۔ اس مہم میں ٹو ئیٹر اور فیس بک جیسی کمپنیاں بھی شامل تھیں ۔ ’’اصلی مرد لڑکیا ں نہیں خریدتے ‘‘کی بنیاد اس تصور پر رکھی گئی کہ اعلیٰ درجے کے یا معروف مردو ں کے چائلڈسیکس کے خلاف بولنے سے کاروباری جنسی تجارت میں چھوٹی لڑکیوں کی طلب میں کمی واقع ہونے میں مدد مل سکے گی ۔ اس طرح کی ہزاروں کوششیں سرکاری اورغیر سرکاری سطح پر کی گئیں جن پر لاکھو ں ڈالر ز خرچ ہوئے۔ لیکن ا س جرم میں خاطر خواہ کمی واقع نہ ہو سکی ۔ ملکی اور بین الاقوامی قوانین اور سرحدوں کی سیکورٹی سخت کرنے کے ساتھ ساتھ ہوائی اور سمند ری اڈوں پر تعینات عملے کو انسانی سمگلنگ روکنے کے لیے تربیت بھی دی گئی لیکن مطلو بہ نتائج حاصل نہ ہوسکے ۔ ماہرین کاکہنا ہے کہ جب تک دنیا میں رشوت ، اقرباپروری اور قانون میں نر می رہے گی دیگر جرائم کی طرح یہ جرم بھی بڑھتارہے گا ۔ قانون کے متعلق ایک حکایت مشہور ہے کہ’’ یہ اندھا ، بہرہ ، اور گونگا ہوتا ہے ۔ ‘‘اس سے کام لینے کے لیے پہلے اس کے لیے آنکھیں ، کان اور زبان کا انتظام ہونا چاہیے جو جرم کے سر زد ہونے کے وقت وہاں موجود لوگ ہوسکتے ہیں۔
ؒختم شد