حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر48
اُحد میں کائنات کا سب سے قیمتی خون بہا۔ شیرِ نیستاں حمزہؓ نے شہادت پائی۔ ہند کے پاس ایک حبشی غلام تھا، میری طرح حبشہ کا رہنے والا۔ اُس کا نام وحشی تھا۔ وہ نیزہ پھینکنے میں کمال رکھتا تھا۔ ہند کو حمزہؓ سے خاص بغض تھا کیونکہ وہ اس بدر کے جرار سے اپنے باپ، چچا اور بھائی کی موت کا بدلہ لینا چاہتی تھی جو بدر میں اُن کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔ ہند نے وحشی کو لالچ دیا کہ اگر وہ حمزہؓ کو قتل کر دے تو وہ اسے آزاد کر دے گی۔ اس کے علاوہ اُسے چاندی میں تول دے گی اور اُس کے قد کے برابر اُسے ریشم کے تھانوں کا ڈھیر بھی دے گی۔ اُحد کے میدان میں وحشی کا صرف ایک ہدف تھا۔ حمزہؓ۔! اُسے کسی اور سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ جنگ ہو رہی تھی۔ دونوں طرف سے لوگ ایک دوسرے پر ہلے بول رہے تھے۔ تلواریں، نیزے ، بھالے، تیر انسانوں کے جسموں میں پیوست ہو رہے تھے۔ انسان کٹ کٹ کر گر رہے تھے، میدانِ کار زار خون سے سرخ ہوتا جا رہا تھا۔ گھوڑوں کا شور الگ تھا۔ ہر سمت سے زخمیوں کے کراہنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ لوگ خس و خاشاک کی طرح گھوڑوں کے سموں تلے روندے جا رہے تھے۔ چاروں طرف لاشیں بکھری پڑی تھیں۔ جوش میں بپھرے ہوئے فریقین نعرے بلند کر رہے تھے مگر اس سارے ہنگامے میں، سارے ہجوم میں وحشی تنہا تھا۔ سب سے الگ اپنے شکار کے تعاقب میں۔ آپس میں گتھم گتھا سپاہیوں کے بیچ سے راستہ بناتا، ہتھیاروں کی ضرب سے بچتا بچاتا، برق رفتار گھوڑوں کی زد سے ہٹتا بچتا، زخمیوں میں، لاشوں میں رینگتا، گھسٹتا، اپنا نیزہ سنبھالتا آخر کار وہ وہاں پہنچ گیا جہاں چند قدم کے فاصلے پر حمزہؓ دشمنوں سے برسرپیکار تھے اور ان کے مدمقابل اُس شیر میدان کے سامنے اپنا سارا کس بل بھولے ہوئے تھے۔
حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر47 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
وحشی، زخمیوں اور لاشوں کے درمیان لیٹا رہا، آنکھیں کھولے، نیزہ ہاتھ میں سنبھالے۔ بالکل ساکت! اتنے میں اُس نے دیکھا کہ حمزہؓ اُس کے نیزے کی زد میں ہیں اور اُس کے وجود سے بے خبر اپنے مخالفین پر وار پہ وار کئے جا رہے ہیں۔ وحشی لاشوں میں سے جست لگا کر اُٹھا اور اپنا نیزہ حمزہؓ کی ناف میں پیوست کر دیا بس ایک ہی وار۔ یہی ایک وار وحشی کی جنگ اُحد تھی۔ اس کے بعد وہ میدان سے باہر چلا گیا۔ کچھ دنوں مکے میں رہا۔ پھر طائف چلا گیا اور غزوہ تبوک کے بعد مدینے آ کر اسلام قبول کیا۔
مجھے وحشی پر ترس آتا ہے۔ غلام کے لئے آزادی کی رشوت سے انکار بہت مشکل ہے لیکن اس نے وہ ریشم کا لباس کبھی نہیں پہنا اور ہند کی چاندی خرچ کرنے کی بھی اُسے کبھی توفیق نہیں ہوئی۔ اُس نے صرف آزادی حاصل کی اور صحرا میں نکل گیا مگر اس آزادی میں بھی وہ غلام ہی رہا، اپنی حرکت پر شرمسار، اپنے ضمیر کی ملامت کاشکار، اپنے وجود، حتٰی کہ اپنے نام تک سے بے زار!
ایک مدت بعد جب وہ مسلمان ہو گیا تو حضورؐ نے اسے اپنے سامنے آنے سے منع فرما دیا تھا۔ لوگوں کا خیال تھا کہ شاید اُسے دیکھ کر آپ ﷺ کو حمزہؓ کی شہادت یاد آ جاتی ہے، جن سے انہیں بے حد پیار تھا مگر ایک دفعہ سرورِ عالمؐ نے خود وضاحت فرمائی کہ میرے لئے سارے مسلمان برابر ہیں، وحشی سمیت، میں نے اس لئے اُسے سامنے آنے سے منع کیا ہے کہ وہ خود میرے سامنے شرمندہ شرمندہ سا رہتا ہے اور اپنے دل پر بوجھ محسوس کرتا ہے۔
اُحد کے دن ہند کا خوب صورت چہرہ بھی خون آلود ہوا۔ اُس نے حمزہؓ کا پیٹ چاک کر کے اُن کا کلیجہ نکال کر چبایا تھا۔
اُحد کے دن رحمت عالمؐ خود بھی شہادت کے قریب پہنچ گئے تھے۔ ایک نوکیلا پتھر، کہیں سے آ کر انہیں اتنی زور سے لگا کہ وہ زخمی ہو کر گر پڑے۔ انہیں گرتا دیکھ کر ابن قمیۂ، جو مکے کا سب سے بڑا تیغ زن تھا، گھوڑا دوڑاتا اُن کے پاس جا پہنچا۔ آپ ابھی سنبھل بھی نہیں پائے تھے۔ اس سے بہتر موقع اور کون سا ہو سکتا تھا۔ وہ بھی ابن قمیۂ، جیسے شمشیر زن کے لئے جو پہلے ہی کئی مسلمانوں کو تہِ تیغ کر چکا تھا۔ اُس نے بھرپور وار کیا لیکن طلحہؓ، جو حضورؐ کے ساتھ کھڑے تھے، برق کی سی سُرعت سے بڑھ کر تلوار کی زد میں آ گئے۔ اُن کے ایک ہاتھ کی ساری انگلیاں کٹ گئیں اور ابن قمیۂ کی تلوار جو سیدھی نبی اکرمؐ کے خود پر آ رہی تھی، بہک گئی اور اُس کا زور بھی کم ہو گیا۔ اس کے باوجود، وار اتنی طاقت سے کیا گیا تھا کہ تلوار اُن کی کنپٹی کے پاس خود کے کنارے پر لگی اور مغفر کی دو کڑیاں ٹوٹ کر نبی کریمؐ کے گال میں دھنس گئیں۔ خود سے تلوار اُچٹ کر حضورؐ کے شانے پر لگی جس پر دوہری زرہ تھی۔ سر اور شانے پر کوئی کاری زخم تو نہیں آیا لیکن کنپٹی کے اس ضرب پڑنے سے اُن کو چکر آ گیا اور وہ گر پڑے۔ اُن کے گرتے ہی ابن قمیۂ، جسے اپنی تلوار کی کاٹ پر پورا بھروسہ تھا، اپنی طرف سے اپنا کام ختم کر کے واپس جانے کے لئے مڑا۔ میں نے بھی بڑھ کر اُس پر پوری طاقت سے ضرب لگائی مگر اُس کے دفعتاً مڑ جانے سے میری تلوار شاید اُس کے پاؤں پر لگی اور وہ گھوڑا دوڑاتا ہوا اور بآوازِ بلند حضورؐ کے قتل کا اعلان کرتا ہوا اپنی صفوں میں چلا گیا۔ اس کا یہ منحوس اعلان محاذ کے دونوں طرف کئی لوگوں نے سنا۔ اُس کے جاتے ہی چند اور مشرکین نے پیغمبرِ خداؐ کو نرغے میں لینے کی کوشش کی لیکن اُس وقت بارہ جاں نثاروں نے، جن میں میں بھی شامل تھا، حضورؐ کے گرد گھیرا ڈال لیا اور اُن کی ڈھال بن گئے۔ سب کے ہاتھوں میں تلواریں تھیں جیسے خارپشت کے کانٹے باہر کو نکلے ہوتے ہیں۔ خاندانِ مخزوم کے شماسؓ نے جو حضورؐ کے بالکل سامنے تھے، اُن کی مدافعت میں اتنے زخم کھائے کہ آپ نے انہیں ’زندہ ڈھال‘ کے لقب سے نوازا۔ بالآخر اسی مدافعت میں انہوں نے شہادت پائی۔
شامِ اُحد
قریش اپنی جنگ ختم کر کے فارغ ہو گئے، مسلمانوں نے اُحد کی گھاٹی پر چڑھ کر اپنے لئے محفوظ مقام منتخب کر لئے۔ حضورؐ بھی زخمی حالت میں اُحد ہی کی ایک بلندی پر تشریف فرما تھے۔ نیچے میدان میں نیم مُردہ زخمیوں کے کراہنے کی آوازوں کے علاوہ کوئی آواز نہیں تھی۔ ابوسفیان کو ابن قمیۂ کے اعلان کے باوجود حضورؐ کی ہلاکت کا یقین نہیں تھا۔ شام ذرا اور گہری ہوئی تو ہم نے ایک گھوڑے کی ٹاپوں کی آواز سنی۔ تاریکی کا ابھی تک پورا غلبہ نہیں ہوا تھا۔ ہم نے دیکھا کہ ابوسفیان اپنے کتھئی رنگ کے گھوڑے پر سوار اُحد کے دامن تک آیا اور بلند آواز سے پوچھنے لگا:
’’کیا آپ لوگوں میں محمد موجود ہیں؟‘‘
حضورؐ نے جواب دینے سے منع فرما دیا۔ کوئی جواب نہ پا کر ابوسفیان نے پھر پوچھا:
’’کیا ابو قحافہ کا بیٹا موجود ہے؟‘‘
اس پر بھی کوئی جواب نہ ملا تو اُس نے عمر بن خطابؓ کا پوچھا۔ پھر بھی کوئی جواب نہ آیا تو ابوسفیان خود ہی زور زور سے واہی تباہی بکنے لگا:
’’سب کے سب قتل ہو چکے ہیں۔ کوئی زندہ ہوتا تو جواب دیتا‘‘۔
’’اُعْلُ ہُبُلْ اُعْلُ ہُبُلْ ‘‘
یہ سن کر عمرؓ سے نہ رہا گیا۔ انہوں نے کہا:
’اے اللہ کے دشمن تو جھوٹ کہتا ہے۔ حق تعالیٰ شانہ‘ نے ہم سب کو تیرے قتل کے لئے زندہ، سلامت رکھا ہے‘‘۔
اس کے جواب میں ابوسفیان نے اپنی فتح پر پھر ہُبل کی سربلندی کا نعرہ لگایا:
’’اُعْلُ ہُبُلْ اُعْلُ ہُبُلْ ‘‘
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس کو جواب دو کہ اللہ تعالیٰ ہی سب سے بلند ہے، سب سے بڑا ہے۔ یہ سن کر ابوسفیان نے کہا ہمارے پاس عزیٰ ہے۔ نبی پاکؐ نے فرمایا جواب دو کہ اللّٰہُ مَولیٰنا ولا مَولاَلَکمْ۔
یہ سن کر ابوسفیان نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور رخصت ہوتے ہوتے کہہ گیا کہ آئندہ سال بدر کے مقام پر ملاقات ہو گی۔ رہی سہی کسر وہاں نکل جائے گی۔ حضورؐ نے اس کا چیلنج قبول فرمایا اور مجھے کہا اعلان کر دو کہ اے دشمنِ خدا ہم انشاء اللہ بدر کے میدان میں تمہارا انتظار کریں گے۔ دور سے ابوسفیان کی آواز پھر سنائی دی۔
’’اُعْلُ ہُبُلْ اُعْلُ ہُبُلْ ‘‘
یہ آواز دور ہوتی ہوتی غائب ہو گئی تو ہم لوگ ایک ایک دو دو کر کے اُحد سے نیچے اُترے۔ حضورؐ بھی اپنے زخموں کے باوجود، نیچے میدان میں تشریف لے آئے۔ اُن کے ہاتھ میں ایک شمع تھی وہ ایک ایک شہید کے پاس جاتے اور دعا فرماتے۔ اُحد کے میدان میں اور بھی کئی شمعیں جل رہی تھیں۔ چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں بٹے ہوئے لوگ شہداء کے لئے دعائیں کر رہے تھے۔ ایک جگہ اوس کے کچھ لوگ تھے جو اپنے شہداء کی تلاش میں تھے کہ ایک زخمی کو دیکھ کر اُن کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی، یہ تھے اصیرم بن ثابتؓ تھے جنہیں ابھی ایک دن پہلے انہوں نے کفر کا طعنہ دیا تھا اور انہوں نے آگے سے ٹکا سا جواب دیا تھا کہ اگر مجھے اسلام کے بارے میں یقین ہوتا کہ یہ سچا دین ہے تو میں اسلام لانے میں ایک لمحہ تاخیر نہ کرتا۔ اس وقت وہ مسلمان شہداء کی لاشوں کے درمیان شدید زخمی حالت میں آخری سانسوں پر تھے۔ کسی نے پوچھا آپ یہاں کیسے، کسی دوست کی خاطر یا اسلام کی خاطر۔ جواب ملا:
’’اسلام کی خاطر۔ آج صبح میرے دل میں اسلام کی روشنی اس طرح جاگی کہ میں اسلام میں داخل ہو گیا اور تلوار اٹھا کر اللہ کے نبی کے جیش میں شامل ہونے کے لئے یہاں آ گیا۔ یہاں جنگ میں شریک ہوا۔ دشمنوں پر بڑھ چڑھ کر وار کرتا رہا کہ ایک کاری وار کی زد میں آ کر یہاں گر پڑا۔‘‘
اس کے علاوہ وہ اور کچھ نہ کہہ سکے اور کہنے کو رہ بھی کیا گیا تھا۔ اللہ کی شان کہ ایسا شخص، شاید پہلا شخص جنت کا حقدار ہوا جس نے زندگی میں ایک نماز بھی نہیں ادا کی۔(جاری ہے )
حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر49 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں