حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر47
رسول اللہ ﷺ نے جنگ کا دائرہ محدود کرنے کے لئے بھی قواعد مرتب فرمائے اور اُن کے اعلان کے لئے میرا انتخاب فرمایا۔ سردیوں کی شام تھی اور فارس کی ہوا چل رہی تھی۔ موسم میں بے حد خنکی تھی۔ آج سے پہلے میں نے حضورؐ کو کبھی اتنا خاموش اور آپ ہی آپ میں اتنا گم نہیں دیکھا تھا۔ جب انہوں نے مجھے ہدایات دینے کے لئے پاس بلایا تو مجھے بہت آگے جھک کر اُن کے الفاظ سننا پڑے تھے۔ ہدایات دے کر حضورؐ رخصت ہو گئے۔ آج شام وہ وقت سے بہت پہلے خیمے میں چلے گئے تھے۔ جہاں انہوں نے رات بہت دیر گئے تک عبادت کی اور مسلمانوں کی فتح کے لئے دعائیں فرمائیں۔
حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر46 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
دوسرے دن صبح میں ایک بلند مقام پر کھڑا ہو گیا۔ مدینے کے درختوں کے جھنڈ میرے پیچھے تھے اور میرے سامنے سپاہ اسلام تھی جسے اسلام کی پہلی جنگ میں شریک ہونا تھا۔ تین سو نفوس اور اُن کے سامنے صحرا، جدھر ہمیں کوچ کرنا تھا۔ فضا میں کوئی پرندہ نہیں تھا۔ ہوا ساکت تھی اور آسمان پر سفید بادل کا صرف ایک ٹکڑا تیر رہا تھا۔ میں نے بآوازِ بلند سب کو مخاطب کیا اور اللہ کے رسولؐ کی ہدایات کا اعلان کیا۔ جو کچھ اُس دن میری زبان سے ادا ہوا مجھے اُس پر فخر ہے:
’’جنگ کے قواعد یہ ہوں گے،
کوئی کسی عورت یا بچے پر ہاتھ نہیں اُٹھائے گا،
کوئی کھیت میں کام کرتے ہوئے کسی کسان پر ہاتھ نہیں اُٹھائے گا،
کوئی کسی ضعیف آدمی پر ہاتھ نہیں اُٹھائے گا،
کوئی کسی اپاہج پر ہاتھ نہیں اُٹھائے گا،
کوئی کسی پھلدار درخت کو نہیں کاٹے گا،
اگر کسی سے کھانے کو کچھ لیا تو اُس کی قیمت ادا کی جائے گی،
کوئی جنگی قیدیوں کو رسیوں سے نہیں جکڑے گا،
کوئی خود سوار ہو کر قیدیوں کو پیدل چلنے پر مجبور نہیں کرے گا،
جو ہتھیار ڈال دے گا اُس کے ساتھ نرمی سے پیش آیا جائے گا،
دوبارہ تاکید ہے کہ کوئی بچوں پر ہرگز ہاتھ نہیں اُٹھائے گا‘‘۔
بچوں کے متعلق مجھے حضورؐ نے دو مرتبہ اعلان کرنے کو فرمایا تھا۔ یہ تھی ہماری تعلیم و تنظیم۔ کل تین سو سترہ آدمی، جن میں چھیاسی مہاجر تھے، خزرج کے ایک سو ستّر اور اوس کے اکسٹھ۔ ستّر اونٹ تھے اور صرف دو گھوڑے۔ مکے سے جو فوج ہمارے ساتھ لڑنے آ رہی تھی اُس میں ایک ہزار آدمی، سات سو پچاس اُونٹ اور ایک سو گھوڑے تھے۔ ہم لوگوں نے درختوں کی چھالیں اپنے جسموں پر باندھ کر ڈھالوں کا کام لیا۔ ہمارے مدمقابل فولاد کے زرہ بکتر پہنے تھے۔ گھوڑں پر سوار ہو کر حملہ آور ہوتے تو ہمیں لگتا تھا سروں پر چٹانیں منڈلا رہی ہیں۔
لیکن فتح ہماری ہوئی!
یہاں میں اپنے خلاف ایک الزام کی تردید کرنا چاہتا ہوں کہ میں نے ایک جنگی قیدی کو بے دردی سے قتل کر دیا۔ یہ جنگی قیدی اُمیہ تھا، میرا سابقہ آقا جس نے ایک بار مجھے مار مار کر ادھ موا کر دیا تھا۔ یہ سب جانتے تھے کہ بلال اور اُمیہ کے درمیان کوئی رو رعایت نہیں تھی جیسے کہ بارہ سال پہلے اُمیہ اور بلال میں کوئی رو رعایت نہیں تھی۔ اسی پس منظر میں مجھ پر عائد کردہ الزام کو زیادہ ہوا ملی۔
جب جنگِ بدر کا فیصلہ ہمارے حق میں ہوا تو شام خاصی گہری ہو چکی تھی۔ امیہ ہتھیار ڈالنے کی تیاری کر رہا تھا مگر ابھی تلوار اُس کے ہاتھ میں تھی۔ جیسے ہی اُس نے اچانک مجھے اپنے گرد کھڑے ہجوم سے باہر نکلتے دیکھا تو اُس سے رہا نہ گیا۔ اُس نے مجھے نہایت حقارت سے غلام کہہ کر پکارا۔ مجھے چاہئے تھا کہ میں ہنس پڑتا لیکن میں ایسا نہ کر سکا۔ اُمیہ کو بھی چاہئیے تھا کہ وہ تلوار ہاتھ سے گرا دیتا مگر اپنے سابق غلام کے سامنے وہ بھی ایسا نہ کر سکا۔ پھر میں نے دیکھا کہ اُس کی تلوار مجھ پروار کرنے کے لئے اُٹھی۔ اُس وقت میں نے دیکھا کہ اُس کی زرہ پیٹ پر سے کٹی ہوئی تھی۔ تقریباً ایک پور کے برابر چوڑی جگہ خالی تھی، میں نے اُسی جگہ وار کیا اور وہ اوندھے منہ گر گیا۔ میرے ساتھیوں نے اُسے سیدھا کیا، وہ مر چکا تھا۔ اُس وقت مجھے احساس ہوا کہ مجھ سے کیا ہو گیا ہے۔
مجھ پر ایک عجیب اضطراب کی کیفیت طاری ہو گئی۔ غلاموں کے خمیر میں، اُن کی گھٹی میں یہ بات پڑی ہوتی ہے کہ اپنے آقا پر کبھی مدافعت میں بھی ہاتھ نہ اٹھانا۔ اُس وقت میرا سابق آقا زمین پر پڑا تھا اور میری تلوار سے اُس کا خون ٹپک رہا تھا۔
اُس وقت سے آج تک میں نے کئی راتیں سوچتے سوچتے گزاری ہیں کہ بلال کیا تُونے اُس سے بدلہ لیا تھا جو اللہ کی طرف سے تجھ پر جائز نہیں تھا، کیا تُونے جان بوجھ کر اپنے رسولؐ کے صریح حکم کی خلاف ورزی کی کہ ہتھیار ڈالنے والوں پر ہاتھ نہیں اُٹھانا، کیا تیرے پاس اُس کے قتل کا کوئی جواز تھا۔ کیا تجھے بدلہ لینے کی اجازت تھی، وہ اُس وقت جنگی قیدی تھا یا ہتھیاروں سے لیس ایک مخالف، اُس نے تجھ پر پہلے ہاتھ اٹھایا تھا یا تُونے حفظِ ماتقدم کے طور پر اُس پر پہلے وار کر دیا تھا، تو غصے میں بہک جانے کا قصوروار تھا یا اُس کے غصے کی وجہ سے مدافعت پر مجبور ایک بے قصور، تیری تلوار نے اُس دن اُس کی زندگی کا فیصلہ کیا تھا یا تیرے اپنے مستقبل کا۔
اُمیہ کی لاش کے گرد کھڑے دوستوں نے مجھے مبارک باد دی لیکن وہ صحیح صورتِ حال کے شاہد نہیں تھے۔ موقعے کی صرف دو ہی شہادتیں تھیں۔ میں اور اُمیہ!
اُحد
اُحد میں ہمیں معلوم ہوا کہ جنگ ایک ہنڈولا ہے جو کبھی اوپر لے جاتا ہے کبھی نیچے لے آتا ہے۔ جنگ میں یہ فیصلہ نہیں ہوتا کہ کون جیتا ہے، کون ہارا ہے بلکہ یہ کہ اُس سے پہلے کیا ہوا اور اُس کے بعد کیا ہوا۔
اُحد میں وہ جیت گئے، وہ کھڑے رہے اور ہم گھبرائے ہوئے، پریشان، خوف زدہ، اپنی جانیں بچانے کے لئے تتر بتر ہو گئے۔ وہ جیت گئے تھے لیکن اپنی فتح کی خوشی میں انہوں نے کیا کیا۔ اُحد کے پتھریلے خار زار میں اپنی فتح کا نعرہ لگانے کے بعد انہوں نے کیا کیا۔ انہوں نے اسی میدان میں اپنے لئے جہنم کی فصل بوئی۔ انہوں نے لاشوں کی بے حرمتی کی، اُن کو برہنہ کیا، اُن کے اعضاء کاٹے۔ اُن کے ناک کان کاٹ کر گلے کے ہار بنائے۔
لیکن ایسا کیوں کیا انہوں نے؟ لاشوں کی بے حرمتی سے انہیں کیا حاصل ہوا؟ اُن کے اعضاء کاٹ کے انہوں نے کیا پایا؟ میرا یہ خیال ہے کہ ہر جنگ کے بعد آخری فیصلہ جیتنے، ہارنے والے نہیں بلکہ مرنے والے کرتے ہیں۔ جنگ میں کسی کی ہارجیت نہیں ہوتی، صرف موت کی فتح ہوتی ہے اور آخری قہقہہ وہی لگاتی ہے۔
واقعہ یہ تھا کہ یہ ہمارا اور اللہ تعالیٰ کا معاملہ تھا۔ قرآن کی تیسری سورۃ آلِ عمران کی آیت 166 میں صاف آیا ہے کہ اللہ نے ہمیں اُحد میں اس لئے شکست دلائی کہ وہ ہماری آزمائش چاہتا تھا:
اور جو مصیبت تم پر اُس روز پڑی
جب دونوں گروہ باہم مقابل ہوئے،
وہ اللہ کی مشیت سے ہوئی،
تاکہ اللہ مومنین کو جان لے۔
بدر کی فتح نے ہمیں ولولہ عطا کیا، اُحد کی شکست نے ہمیں سنجیدگی بخشی۔ ہم نے واقعی اپنی صفیں بہت جلد توڑ دی تھیں۔ حضورؐ ہمیں پکارتے رہے اور ہم سراسیمگی کے عالم میں اِدھر اُدھر بھاگتے رہے۔ ہمیں شاید یہ وہم تھا کہ پیغمبرؐ کی حکم عدولی کرنے پر بھی اللہ ہماری مدد کو آئے گا۔ ہمیں بچوں کی طرح ایک سخت سبق دیا گیا تھا اور ہم تھے بھی واقعی بچوں کی طرح۔ مگر اس سبق کی ہمیں بڑی قیمت چکانا پڑی۔(جاری ہے )
حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر48 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں