دنیا میں تہلکہ مچانے والا مقبول ترین ناول ،جو زندگی بدل سکتا ہے۔۔۔قسط نمبر40
رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ منظر دیکھا تو فرشتوں کے سردار کو اپنے پاس بلاکر پوچھا کہ یہ لوگ تو میرے امتی، میرے نام لیوا، میرے کلمہ گو ہیں۔ ان کے ساتھ یہ سلوک کیوں ہورہا ہے؟ فرشتے نے بڑے ادب سے جواب دیا:
’’یا رسول اللہ! بے شک یہ لوگ آپ کے نام لیوا ہیں، مگر آپ کو نہیں معلوم کہ ان لوگوں نے آپ کے بعد آپ کے دین میں کیا نئی نئی چیزیں پیدا کردی تھیں۔‘‘
اس پر رسول اللہ کے چہرۂ انور پر سخت ناگواری کے تأثرات پیدا ہوئے اور آپ نے فرمایا:
’’ان لوگوں کے لیے دوری ہو جنھوں نے میرے بعد میرے لائے ہوئے دین کو بدل ڈالا۔‘‘
حضور یہ کہہ کر واپس حوض کوثر کی سمت مڑگئے اور قافلے کے لوگ بھی آپ کے پیچھے پیچھے چلے گئے۔ میں بھی آگے بڑھنا چاہ رہا تھا کہ صالح نے کہا:
’’رکو اور دیکھو یہاں کیا ہوتا ہے۔‘‘
دنیا میں تہلکہ مچانے والا مقبول ترین ناول ،جو زندگی بدل سکتا ہے۔۔۔قسط نمبر39 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
میں نے دیکھا کہ فرشتے ان لوگوں پر بری طرح پل پڑے ہیں۔ اسی اثنا میں میدان حشر کے بائیں جانب سے کچھ مزید فرشتے بھی آگئے۔ انھوں نے انتہائی بے رحمی سے ان لوگوں کو مارنا شروع کردیا۔ فرشتے ایک کوڑا مارتے اور ہزاروں لوگ اس کی زد میں آکر چیختے چلاتے دور جاگرتے۔ تھوڑی ہی دیر میں حوض کے قریب کا علاقہ صاف ہوگیا۔ مار کھاتے اور بلبلاتے ہوئے یہ لوگ جنھوں نے دین اسلام میں نت نئے عقیدے اور اعمال ایجاد کرلیے تھے، اپنی رسوائی اور بدبختی کا ماتم کرتے ہوئے وہاں سے رخصت ہوگئے۔
میں صالح کے ساتھ کھڑا یہ عبرتناک مناظر دیکھ رہا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ یہ وہ بدنصیب ہیں جن کے لیے قرآن مجید کی ہدایت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ناکافی تھی۔ اس لیے انھوں نے اس میں اضافہ اور تبدیلی کرکے دین حق کا چہرہ مسخ کرنے کی کوشش کی۔ ان کے پاس اپنی ہر گمراہی اور بدعملی کی ایک بے جا منطق موجود ہوتی تھی۔ جب کوئی سمجھانے والا انھیں سمجھانے کی کوشش کرتا یہ اس کی جان کے دشمن ہوجاتے تھے۔ جب انھیں بتایا جاتا کہ قرآن مجید سے باہر کوئی عقیدہ ایجاد نہیں کیا جاسکتا اور سنت رسول کے علاوہ کوئی اور عمل خدا کے ہاں مقبول نہیں ہوسکتا تو یہ ان باتوں کو بکواس سمجھتے اور اپنی گمراہیوں میں مگن رہتے تھے۔ مگر اس کا نتیجہ انھوں نے آج بھگت لیا تھا۔ میں یہ سب سوچ ہی رہا تھا کہ صالح نے مجھ سے کہا:
’’عبد اللہ! میں انسانوں کو سمجھ نہیں سکا کہ آخر ہر نبی کی امت نے ہدایت واضح طور پر پالینے کے بعد بدعتوں میں اتنی دلچسپی کیوں لی؟‘‘
’’تم نے اچھا سوال کیا ہے۔ میں خود بھی زندگی بھر اس مسئلے پر سوچتا رہا ہوں۔ میرے خیال میں اس کی اصل وجہ غلو ہے۔ انسان بڑی جذباتی مخلوق ہے۔ وہ افراط و تفریط کا شکار ہوجاتا ہے۔ انبیا کے نام لیواؤں کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ کچھ لوگ مادیت کی طرف اپنے رجحان کی بنا پر انبیا کی تعلیمات کو چھوڑ بیٹھے تو کچھ لوگوں نے انبیا اور صالحین کی محبت اور عبادت کے شوق میں اعتدال سے تجاوز کیا۔ یہی تجاوز اور غلو بدعت کا سبب بن گیا۔‘‘
صالح نے میری بات پر گردن ہلاتے ہوئے کہا:
’’اس افراط و تفریط اور غلو و تجاوز کا سب سے بڑا نمونہ مسیحی تھے۔ ایک طرف ان کے ہاں حضرت موسیٰ کی شریعت کو ترک کردیا گیا۔ دوسری طرف رہبانیت ایجاد کرکے ایسی ایسی عبادتیں، ریاضتیں اور بدعتیں دین میں داخل کرلی گئیں کہ کسی نارمل انسان کے لیے مذہبی شناخت کے ساتھ زندگی گزارنا مشکل ہوگیا۔ عمل کے ساتھ ان کے ہاں عقیدے کا غلو بھی آخری درجے میں ظاہر ہوا۔ انھوں نے نبیوں کی امت ہوتے ہوئے بھی خدا کی بیوی اور بیٹا گھڑلیا۔ مگر یار حقیقت یہ ہے کہ تم مسلمان اس کام میں کون سا پیچھے رہے ہو۔‘‘
یہ آخری بات اس نے بہت زور دے کر کہی۔ میں نے بلا توقف جواب دیا:
’’اور آج اس کا نتیجہ بھی بھگت لیا۔ عیسائیوں نے بھی اور مسلمانوں نے بھی۔‘‘
یہ کہتے وقت میری نظر میں کچھ دیر قبل رونما ہونے والے مناظر گھوم رہے تھے۔(جاری ہے)
(ابویحییٰ کی تصنیف ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ دور جدید میں اردو زبان کی سب زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بن چکی ہے۔ کئی ملکی اور غیر ملکی زبانوں میں اس کتاب کے تراجم ہوچکے ہیں۔ابو یحییٰ نے علوم اسلامیہ اور کمپیوٹر سائنس میں فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن کے ساتھ آنرز اور ماسٹرز کی ڈگریاں حاصل کی ہیں جبکہ ان کا ایم فل سوشل سائنسز میں ہے۔ ابویحییٰ نے درجن سے اوپر مختصر تصانیف اور اصلاحی کتابچے بھی لکھے اور سفر نامے بھی جو اپنی افادیت کے باعث مقبولیت حاصل کرچکے ہیں ۔ پچھلے پندرہ برسوں سے وہ قرآن مجید پر ایک تحقیقی کام کررہے ہیں جس کا مقصد قرآن مجید کے آفاقی پیغام، استدلال، مطالبات کو منظم و مرتب انداز میں پیش کرنا ہے۔ ان سے براہ راست رابطے کے لیے ان کے ای میل abuyahya267@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔