آفیشل سیکریٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ کا اطلاق عام شہریوں پر کس طرح ہو تاہے اور سزا کتنی ہے؟ حکومت نے اہم معلومات جاری کر دیں
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن )وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ نے کہاہے کہ ابہام پایا جارہاہے کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کیاہے اور ملٹری کورٹس کا اطلاق سویلینز پر کس طرح سے ہور ہاہے تو اس بارے میں آسان لفظوں میں بتاتا ہوں کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ اور ملٹری ایکٹ 1952 کا اطلاق اس جگہ پر ہوتاہے کہ کوئی بلڈنگ یا اس بلڈنگ کا کوئی حصہ ، کوئی آفس یا کوئی علاقہ جس کا دفاع سے متعلق مقصد ہے ، وہاں پر ایسی حساس تنصیبات موجود ہیں جو ملک کے دفاع سے متعلق ہیں، اگر کوئی بھی شخص چاہے وہ یونیفارم میں بھی ہے اور اسے اس علاقے میں اگر جانے کی اجازت نہیں ہے تو وہ بھی اس جرم کا مرتکب ہو گا، جو علاقہ ممنوعہ ہے ، وہاں پر کوئی بھی شخص گھسنے کی کوشش کرے ، اس میں داخل ہو یا کسی کو داخل کرنے کی ترغیب یا مدد دے تو وہ آفیشیل سیکریٹ ایکٹ اور ملٹری ایکٹ کے شکنجے میں آتاہے ۔
اگر کسی کو وہاں پر جلاﺅ گھیراﺅ کرتے ہوئے پکڑا جائے گا تو ملٹری ایکٹ میں اس کی سز ا تین سال کی ہے ، اگر وہ توڑ پھوڑ اور فوٹر گرافی کرتاہے تو اس کی سزا 14 سال ہے ، جبکہ اسی ایکٹ جس میں جلاﺅ گھراﺅ ہو تو اینٹی ٹیریرسٹ ایکٹ کے سیکشن سیون میں اس کی سزا 25 سال ہے ، یعنی یہی کیس اگر انسداد دہشتگردی عدالت میں چلے گا تو اس کی سزا 25 سال ہے ۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے رانا ثناءاللہ کا کہناتھا کہ اب اس میں یہ ہے کہ سویلینز کا سوال کیسے پیدا ہو گیا ؟ یہ ممنوعہ علاقے ، جہاں ملک کے دفاع سے متعلق حساس تنصیبات موجود ہیں، وہاں تک رسائی حاصل کرنا ، گھسنا ، فوٹو گرافی کرنا ، ویڈیوز بنانا اور پھر اسے پھیلانا ، یہ کہاں کا احتجاج ہے، اس احتجاج کو کور دیں سویلینز پروٹیسٹ اور ہیومن رائٹس کا تو کونسی ریاست موثر انداز میں اپنا دفاع کر سکتے ہیں، کیپٹل ہل میں تو ایسی کوئی تنصیبات نہیں تھیں، وہ ایک طرح سے سیاسی دفتر ہے ، لندن رائٹس میں بھی کوئی ایسی بات نہیں تھی، ان ملزموں کو کس آہنی ہاتھ سے ڈیل کیا گیا ، جس ملزم نے ہال میں داخل ہو کر سپیکر کی ٹیبل پر کھڑے ہو کر تصویر بنائی تھی اسے چار سارل قید کی سزا ہوئی ہے ،وہاں پر تو خلیل رمدے صاحب نے ٹویٹ نہیں کیا ، وہاں پر تو کوئی خیال نہیں آیا کہ ہیومن رائٹس کی خلاف ورزی ہو رہی ہے ، یہاں ان کو بڑا نظر آ رہاہے ،روز ٹویٹ کر رہے ہیں، وہان پر لابیز بر سرگرم ہیں ، یہاں سے ڈالرز پہنچائے جارہے ہیں۔
جو بھی یہ ملزم ہے ، ان ممنوعہ علاقے میں گھسنے کی کوشش کرتاہے ، اس میں کسی ترمیم کی ضرورت نہیں ہے ، نیاقانون بنانے کی بھی ضرورت نہیں، نہ اس میں ملٹری کورٹ بنانے کی ضرورت ہے ، پہلے ہی عدالتیں موجود ہیں وہ اپنا کام کر رہی ہیں ، دفاع سے متعلق معاملات پر ان کا پورا اختیار ہے ، بعض چیزیں ایسی ہیں، جناح ہاﺅس کور کمانڈر کی رہائشگاہ تھی، وہ دراصل کیمپ آفس بھی تھا،اس میں حساس نوعیت کی چیزیں موجود تھیں، مثال کے طور پر کوئی لیپ ٹاپ پڑاہے ، کیا اس لیپ ٹاپ میں کوئی ذاتی انفارمیشن ہو گی ؟ بڑی حساس معلومات ہوں گی، اس علاقے تک ٹریس پاس ہواہے ، ان چیزوں کو جلا دیا گیا یا وہاں سے اٹھا لیا گیاہے ، کیا ان کی ریکوری ملٹری حکام نے کرنی ہے یا اللہ دتہ اے ایس آئی نے کرنی ہے ، یہ کتنا حساس معاملہ ہے ، اگر خدانخواستہ وہاں سے اٹھائی گئی چیز ہمسایہ ملک سے استعمال ہو تی ہے تو اس کے نتائج کیا ہوں گے ، اس کے ملک کے دفاع پر کیا اثر ہو گا، کیا یہاں پر کوئی سیاسی احتجاج کی بات ہو رہی ہے ، کیا سیاسی احتجاج کے خلاف ایکشن ہو رہاہے ، جو اس قسم کا موقف لیا جائے ، خدا کا خوف کریں، یہ ریاست کے دفاع کا مسئلہ ہے ، وہاں پر چیزوں کو جلا دیا گیاہے تو ان میں سے کتنی چیزیں ایسی ہوں گی جو کہ حساس نوعیت کی ہوں گی کو ناقابل تلافی نقصان ہیں ۔
اگی کسی کو وہاں پر جلاﺅ گھیراﺅ کرتے ہوئے پکڑا جائے گا تو ملٹری ایکٹ میں اس کی سز ا تین سال کی ہے ، اگر وہ توڑ پھوڑ اور فوٹر گرافی کرتاہے تو اس کی سزا 14 سال ہے ، جبکہ اسی ایکٹ جس میں جلاﺅ گھراﺅ ہو تو اینٹی ٹیریرسٹ ایکٹ کے سیکشن سیون میں اس کی سزا 25 سال ہے ، یعنی یہی کیس اگر انسداد دہشتگردی عدالت میں چلے گا تو اس کی سزا 25 سال ہے ۔