لنک مانگنے والے عظیم لوگ اور ہماری معاشرتی منافقت

لنک مانگنے والے عظیم لوگ اور ہماری معاشرتی منافقت
لنک مانگنے والے عظیم لوگ اور ہماری معاشرتی منافقت
سورس: Representational Image

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کل جب میں نے فیس بک کھولی تو ٹاپ پر ایک پوسٹ پڑھی جس میں لکھا تھا کہ فلاں ٹک ٹاکر بھی وائرل ہو گئی تم سے تو یہ امید نا تھی ۔۔۔ اور ساتھ میں ہی لکھا تھا کہ ویڈیو میرے پاس موجود ہے اور نیچے کمنٹس میں ویڈیو مانگنے والوں کی ایک لمبی لائن موجود تھی۔ پہلے تو مجھے سمجھ نہیں آئی کہ یہ ٹک ٹاکر کون ہے پھر تھوڑا زور ڈالا تو یاد آیا کہ یہ ایک مشہور پاکستانی وی لاگر اور ٹک ٹاکر ہیں اور سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے وہ دیہاتی زندگی اور رہن سہن دکھاتی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ وہ سوشل میڈیا کے ذریعے پیسہ بھی کماتی ہیں میں نے بھی اکثر ان کی ویڈیوز دیکھی ہیں۔ اس پوسٹ کے بعد سارا دن ایک ہی سلسلہ جاری رہا جس میں کچھ لوگ تو متاثرہ خاتون کے حق میں بولتے ہوئے دکھائی دئیے کہ اس کے ساتھ غلط ہوا ایسا نہیں ہونا چاہیئے تھا لیکن زیادہ تر تعداد ان لوگوں کی تھی جو متاثرہ کو قصوروار ٹھہرا رہے تھے کہ اسے کسی پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے تھا اس نے ایسا شرمناک کام کیا ہی کیوں جس سی اس کی عزت خراب ہو اور کچھ تو اپنی بہن بیٹیوں کی عزت کی حفاظت کی دعائیں مانگتے بھی نظر آئے۔ یہ سلسلہ پورا دن چلتا رہا جس میں صرف  اسی خاتون کا ہی ذکر سننے کو ملتا رہا اوراس کو اس طرح سے قصور وار اور کہیں کہیں مظلوم بھی بتایا جا تا رہا لیکن میں شام تک اسی انتظار میں رہی کہ شائد وہ بندہ بھی سامنے آجائے جس نے اس کی ویڈیو وائرل کی اور جس پر اس نے اعتماد کیا لیکن مجھے ابھی تک وہ شخص کہیں بھی سننے یا دیکھنے کو نہیں ملا اور مجھے حیرت اس بات کی بھی تھی کہ سوشل میڈیا پر بھی کہیں کسی نے اس بات کا زکر نہیں کیا کہ بھئی اس بندے کو بھی تو سامنے لاؤ جس نے یہ کام کیا ہے اور میں دعوے کے ساتھ یہ کہہ سکتی ہوں کہ اگر وہ کہیں سامنے آیا بھی تو ہم لوگ اس کو  appreciate  ہی کریں گے کیوں کہ قصور تو سب متاثرہ کا ہے ناں۔ 

یہ کوئی اس طرز کا کوئی پہلا واقعہ نہیں ، اس طرح کے واقعات ہمارے ملک میں اکثر پیش آتے رہتے ہیں اور ان کا شکار اکثر خواتین ہوتی ہیں کچھ victims  تو خود کشی کے ذریعے سے ہی جان چھڑواکر اس دنیا سے چلے جاتے ہیں اور کچھ اگر رپورٹ کروا بھی دیں یا قانونی چارہ جوئی کریں بھی تو آخر میں ان کو ہی قصوروار ثابت کر کے معاملہ رفع دفع کر دیا جاتا ہے۔  

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح کے واقعات جو سوشل میڈیا پر وائرل ہوتے ہیں وہ کیوں پیش آتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سوشل میڈیا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس کے ذریعے روزانہ کی بنیاد پر معلومات شیئر کی جاتی ہیں اور یہ ایک دوسرے کے ساتھ روابط قائم کرنے کا بھی ایک سستا اور آسان ذریعہ ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں سوشل میڈیا کو معلومات حاصل کرنے اور علم میں اضافہ کرنے کے لیئے استعمال کیا جاتا ہے اور اس کو بنانے کا مقصد بھی یہی تھا لیکن بد قسمتی سے ہمارے ملک میں ایسا نہیں ہے۔  ہم چونکہ غیر ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہیں اور کوئی چیز یا پراڈکٹ بنانا یا پروڈیوس کرنا تو دور کی بات ہے اس کو استعمال کرنے کے طریقوں سے بھی ناواقف ہیں۔ ہمارے ہاں سوشل میڈیا کا استعمال صرف لوگوں کو بے نقاب اور ننگا کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور جب وہ بندہ تنگ اکر خود کشی کر لیتا ہے تو پھر ایک دو دن تک اس کا افسوس کیا جاتا ہے اور پھر نئے سرے سے سب شروع ہو جاتا ہے۔ ہم نے سوشل میڈیا کو صرف انٹرٹینمنٹ کے طور پر لیا اور اس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ حکومتی سطح پر بھی سوشل میڈیا پر جرائم اور اس طرح کے واقعات  کو روکنے کے لیے اقدامات کئے گئے ہیں لیکن بد قسمتی سے بات پھر وہی آجاتی ہے کہ قوانین بنانے سے کیا ہوتا ہے جب تک اس کی آگاہی نہیں دی جائے گی۔ 2016 میں Prevention of Electronic Crimes Act  بنایا گیاجس میں سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ صارفین کو تحفظ فراہم کرنے کی کسی حد تک کوشش کی گئی۔ اس قانون کے تحت مختلف سزائیں اور جرمانے بھی رکھے گئے کہ اگر کوئی کسی کو آن لائن ہراساں کرتا ہے یا بلیک میل کرتا ہے یا کسی کی ویڈیوز اور تصاویر کو وائرل کرتا ہے تو اس کی سزائیں اور جرمانے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ایف آئی اے کو اس بات کا پابند کیا گیا کہ وہ سائبر کرائم ونگ بنائے جو کہ سائبر کرائم کو ڈیل کرے اس کے علاوہ سائبر کرائم کو روکنے کے لیے ہیلپ لائین بھی متعارف کروائی گئی ۔ لیکن مسلہ یہ ہے کہ قوانین کی آگاہی کے لیئے کوئی اقدامات نہیں کئے جاتے۔ ہمارے ہاں بہت سے لوگ یہاں تک کہ سوشل میڈیا انفلوئنسرز، ٹک ٹاکرز، وی لاگرز اور وہ تمام لوگ جو سوشل میڈیا کے ذریعے پیسہ کما رہے ہیں ان کو بھی معلوم نہیں کہ سائبر کرائم قانون موجود ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ کہ سوشل میڈیا صارفین خاص طور پر خواتین اپنی آن لائن اور ڈیجیٹل سیکورٹی کو یقینی بنائیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے بنیادی سیکیورٹی ٹولز جیسے کہ پاسورڈ کی سیکیورٹی، فرینڈز لسٹ کا چناؤ، two factor authentication, اور دیگر ضروری اقدامات کر کے اپنی سیکیورٹی یقینی بنائیں اور سوشل میڈیا پر اپنی ذاتی معلومات شئیر کرنے سے پہلے اس بات کو دیکھ لیں کہ وہ جن کے ساتھ اپنی ذاتی معلومات شیئر کررہی ہیں کیا وہ قابل اعتبار ہیں بھی یا نہیں ۔

حکومتی سطح پر بھی ان اقدامات کو یقنینی بنانے کی ضرورت ہے کہ سائبر کرائم کو کنٹرول کرنے کے لیے موثر قانون سازی کریں اور ایسے واقعات میں اصل مجرموں کو قرار واقعی سزائیں  دیں تاکہ اس طرح کے واقعات سرے سے پیش ہی نہ آئیں ۔

نوٹ: یہ مصنفہ کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں

مزید :

بلاگ -