پاکستانی سیاست میں رچرڈ گرینل کی انٹری

  پاکستانی سیاست میں رچرڈ گرینل کی انٹری
  پاکستانی سیاست میں رچرڈ گرینل کی انٹری

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستانی سیاست میں ڈونلڈ ٹرمپ کے خصوصی ایلیچی رچرڈ گرینل کی انٹری دلچسپ اور حیران کن ہے،خود رچرڈ گرینل کو بھی غالباً بہت مزا آ رہا ہے اور اُس نے ساری توجہ، پاکستان اور عمران خان پر دی ہوئی ہے۔ابتداء میں اُس کے دو تین ٹویٹ کیا آئے ہر طرف گرینل گرینل ہو گئی۔کل میرا مالی سجاد بھی کہہ رہا تھا رچرڈ گرینل عمران خان کو رہا کرا کے چھوڑے گا۔پاکستان میں جب سے سائفر کہانی آئی ہے،لوگوں کو یقین ہو گیا ہے امریکہ کا کوئی اسسٹنٹ سیکرٹری یا خصوصی ایلچی کچھ بھی منوا سکتا ہے۔ رچرڈ گرینل نے پہلے تو صرف ٹویٹ کئے اب وہ باقاعدہ ٹی وی چینلوں پر انٹرویو بھی دے رہا ہے۔وزراء اگرچہ دعویٰ کر رہے ہیں امریکہ پاکستان کے معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتا،مگر حقیقت یہ ہے امریکہ کی مداخلت پاکستان میں چلتی ہے اور ڈنکے کے زور پر چلتی ہے۔کاش وہ دن آئے کہ ہم امریکی مداخلت سے آزاد ہو جائیں،مگر فی الوقت تو اس کے حصار میں ہیں، رچرڈ گرینل تو ہنری کسنجر سے بھی شہرت میں دو ہاتھ آگے نکل گیا ہے۔اس کا ایک ٹویٹ آتا ہے تو ہلچل مچ جاتی ہے۔ اینکروں کو پروگرام کرنے پڑتے ہیں اور اخبارات  کو شہ سرخیاں لگانی پڑ جاتی ہیں۔یہ ابھی اس وقت کا حال ہے جب امریکی نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عہدہ نہیں سنبھالا۔عہدہ سنبھالنے کے بعد رچرڈ گرینل کی کیا پھرتیاں ہوں گی، اس کا اندازہ محکمہ خارجہ کے افسران کو تو بخوبی ہو گا۔رچرڈ گرینل نے اپنے تازہ ترین انٹرویو میں کہا ہے عمران خان کے خلاف بھی ڈونلڈ ٹرمپ جیسے من گھڑت مقدمات ہیں اِس لئے ہم عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔اس انٹرویو میں رچرڈ گرینل نے یہ بھی کہا عمران خان روایتی سیاست دان نہیں،وہ ایک کھلاڑی ہیں، سیاست سے ہٹ کر جب دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد عوامی نمائندگی کے ذریعے اقتدار میں آتے ہیں تو عام سیاستدان سے بہتر ہوتے ہیں اس لئے ہم عمران خان کو اہمیت دیتے ہیں۔ رچرڈ گرینل کے ٹویٹ اور بیانات تحریک انصاف کے لئے گویا ایک بہت بڑی ڈھارس بن گئے ہیں۔ اگرچہ تحریک انصاف کے رہنما ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں وہ عمران خان کی رہائی عدالتوں کے ذریعے چاہتے ہیں، امریکی مداخلت سے نہیں، مگر یہ کہہ کر رچرڈ گرینل کا شکریہ بھی ادا کرتے ہیں کہ وہ عمران خان کی سپورٹ کر رہے ہیں۔عام پاکستانی کو تو یہ بھی لگتا ہے حکومت مذاکرات اور دیگر معاملات میں جو لچک دکھا رہی ہے وہ بھی رچرڈ گرینل کے پے در پے ٹویٹس کا نتیجہ ہے۔ سوال یہ بھی کیا جا رہا ہے کہ رچرڈ گرینل جو کچھ پاکستان کے بارے میں کہہ رہے ہیں کیا اُسے ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت بھی حاصل ہے۔امریکی نظام میں ایسی گنجائش نہیں کہ کوئی عہدیدار عالمی معاملات میں اپنی ذاتی رائے قائم کر سکے۔ اسے بہرحال اُس دائرے میں رہنا ہوتا ہے،جو حکمران جماعت نے خارجہ اور داخلہ معاملات کے حوالے سے کھینچ رکھا ہوتا ہے۔اس لئے رچرڈ گرینل جو کچھ کہہ رہا ہے وہ ڈونلڈ ٹرمپ کے نوٹس میں ضرور ہو گا، پھر جس طرح امریکہ کے بڑے چینلوں میں رچرڈ گرینل کے انٹرویو ٹیلی کاسٹ ہو رہے  ہیں اور جس طرح رچرڈ گرینل نے صدر جوبائیڈن کے ترجمان پر پاکستان کے حوالے سے تاخیر کے ساتھ ردعمل دینے پر تنقید کی ہے اُس سے اندازہ ہوتا ہے سب کچھ ایک طے شدہ پلان کا حصہ ہے۔

امریکی ترجمان سے ماضی قریب میں صحافیوں نے وائٹ  ہاؤس کی بریفنگ لیتے ہوئے پاکستان کے حوالے سے بہت سے سوالات کئے تاہم ہر سوال کا جواب یہی دیا گیا کہ امریکہ پاکستان کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتا،لیکن جب حالیہ پریس بریفنگ میں فوجی عدالتوں کی طرف سے پاکستانیوں کو سزاؤں کے بارے میں سوال پوچھا گیا تو امریکی ترجمان نے یہ نہیں کہا یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے، بلکہ یہ کہا اس پر ہمیں تشویش ہے، کیونکہ فوجی عدالتوں میں  دفاع اور بنیادی حقوق کے حصول کا حق حاصل نہیں ہوتا۔اگرچہ ترجمان نے کھل کر ان سزاؤں کی مخالفت نہیں کی،جس کی وجہ سے رچرڈ گرینل کو ترجمان کے کمزور بیان پر تنقید بھی کرنی پڑی۔اس سے یوں لگتا ہے جوبائیڈن اور ڈونلڈ ٹرمپ کی پاکستان کے بارے میں جو پالیسی ہے اس پر امریکہ میں بھی سیاست ہو رہی ہے۔ایسے میں رچرڈ گرینل کے پاکستانی سیاست اور عمران خان کی رہائی کے حوالے سے بیانات خود امریکی میڈیا میں بھی جگہ پا رہے ہیں۔ جوں جوں ڈونلڈ ٹرمپ کے عہدہ سنبھالنے کی تاریخ قریب آ رہی ہے،جہاں دنیا میں اُن کی اِس بار پالیسیوں کا انتظار کیا جا رہا ہے، وہاں پاکستان کے بارے میں بھی اُن کا رویہ کیا رہتا ہے، یہ ایک بڑا سوال بنا ہوا ہے۔پاکستانی وزراء کا یہ کہنا کہ ہم اپنے معاملات میں آزاد ہیں اور کسی قسم کی مداخلت یا دباؤ قبول نہیں کریں گے، ایک بہت آئیڈیل موقف ہے مگر زمینی حقائق سے لگا نہیں کھاتا۔77برسوں میں کون سا دور ہے جب ہم امریکہ سے آزاد ہو کر اپنی داخلی یا خارجہ پالیسی بنا پائے ہیں۔کس حکمران کو امریکی آشیر باد کے بغیر اقتدار ملا ہے، جس نے امریکہ کے خلاف آواز اٹھائی وہ نشانِ عبرت ہی بنا۔ ذوالفقار علی بھٹو اور عمران خان کی مثالیں سامنے ہیں۔

آج کی دنیا میں یہ ممکن نہیں کہ آپ عالمی دباؤ سے بے نیاز ہو کر اپنا کاروبارِ مملکت چلا سکیں۔پاکستان جیسے کمزور معیشت کے ملک میں تو ہر وقت یہی دھڑکا لگا رہتا ہے ہم دیوالیہ نہ ہو جائیں۔ اس لئے ضروری ہو جاتا ہے کہ ہم پاکستان میں جمہوریت کو ایک طاقت بنائیں۔حقیقی جمہوری حکومت اور مضبوط پارلیمنٹ موجود ہو تو بیرونی مداخلت روکنا آسان ہو جاتا ہے۔ موجودہ پاکستانی حکومت کا تشخص جمہوری نہیں بن سکا۔آٹھ فروری کے انتخابی نتائج کی گرد نے اس کا جمہوری چہرہ دھندلا کر رکھا ہے، پھر جس طرح اپوزیشن کی آواز دبانے کے لئے ریاستی طاقت کا استعمال ہوا ہے۔اُس کی گونج بیرون ملک بھی سنی گئی ہے کہ آج کی دنیا میں اطلاعات کو روکنا ممکن ہی نہیں۔ 26نومبر کو اسلام آباد میں جو کچھ ہوا عالمی میڈیا نے اُسے بھی رپورٹ کیا ہے۔پر سونے پر سہاگہ فوجی عدالتوں کی سزائیں ہیں، جن سے یہ پیغام گیا کہ پاکستان میں عدالتی نظام بھی ناکام ہو چکا ہے اور اس کی جگہ فوجی عدالتوں نے لے لی ہے۔ ان حالات میں اگر اقوام متحدہ، یورپی یونین، امریکہ اور برطانیہ اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہیں، تو اِس کی وجہ یہ ہے وہ اپنی انسانی آزادیوں اور انسانی حقوق  کے حوالے سے اپنی پالیسیوں کے پابند ہیں۔اس تناظر میں یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ پاکستان میں حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات شروع ہو چکے ہیں۔ حکومت لچک بھی دکھا رہی ہے اور عمران خان سے ملاقاتوں کو بھی  یقینی بنایا جا رہا ہے یہ رچرڈ گرینل کی انٹری کا ثمر ہے یا نہیں،اس سے قطع نظر ہمارے لئے محفوظ راستہ یہی ہے کہ ہم ڈیڈ لاک کو ختم کر کے آگے بڑھیں۔

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -