پاکستا ن ریلویز محفوظ سفر کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کررہاہے
موجودہ دورِ حکومت سے پہلے ان مینڈلیول کراسنگ کے حوالے سے گزشتہ حکومتوں میں کوئی سکیم نہیں تھی اور نہ ہی کوئی سروے کیاگیا مگر وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے اس مسئلے کی غیر معمولی نوعیت واہمیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے صوبائی اور ضلعی حکومتوں کے ساتھ مل کر سروے کروائے سیکرٹری ریلویز اور چیف ایگزیکٹوآفیسر ریلویز کی جانب سے صوبائی حکومتوں کوخطوط بھیجے گئے جس کے جواب میں حکومت پنجاب نے 610ملین جاری کئے اور اس رقم سے 75ریلوے کراسنگ کو ایک سکیم کے تحت ان مینڈ سے مینڈ لیول کراسنگز میں تبدیل کردیاگیا۔ پہلے ساڑھے تین سالوں میں 80لیول کراسنگز کو مینڈ کیا گیااور آئندہ سال تک مزید 100سے اوپر تک ان مینڈ لیول کراسنگز کو مینڈ کردیاجائے گا ۔ ریلویز کے مطالبے پر وزیر اعلیٰ سندھ 105ملین جاری کررہے ہیں اور سندھ میں موجودہ 17لیول کراسنگزکو مینڈ کرنے کے لیے ٹینڈر جاری کئے جارہے ہیں۔ پنجاب حکومت اس مد میں مزید 637ملین جاری کر رہی ہے گزشتہ دور حکومت میں صرف 7لیول کراسنگز کو ان مینڈ سے مینڈ کیا گیا۔ کے پی کی حکومت نے بھی اس مد میں 177ملین فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے ۔ بلوچستان حکومت کی طرف سے اس مد میں ابھی تک کوئی فنڈز جاری نہیں کیے گئے اس کے علاوہ وفاقی وزیر ریلوے کی ہدائت پر ریلویز نے اس امر کو بھی یقینی بنایا ہے کہ ہر ڈرائیور ، اسسٹنٹ ڈرائیور کی صحت کا جائزہ لیا جائے پچپن برس سے رائد عمر کے ہر ڈرائیور اور اسسٹنٹ ڈرائیور کا سال میں دومرتبہ جبکہ اس سے کم عمر کے ملازمین کو سال میں ایک مرتبہ طبی معائنہ لازمی کردیاگیاہے ۔ اسی طرح تما م گینگ مینوں کا میڈیکل ٹیسٹ بھی لازمی کردیاگیاہے یہ جاننے کے لیے کہ ہمارا عملہ بلڈ پریشر یا شوگر یا ایسے امراض کا شکار تو نہیں، انکی نظر کا ٹیسٹ بھی لازمی کردیاگیاہے ۔ اس سے پہلے یہ طبی معائنہ دو تین سال کے بعد کیا جاتا تھا پاکستان یلویز اپنی تمام ٹرینوں اور لوکوموٹیوز میں جی پی ایس ، ٹریکنگ سسٹم کی نتصیب کررہاہے جس سے ڈرائیور کو پہلے سے معلوم ہوجائے گاکہ کوئی لیول کراسنگ ، پُل یا اسٹیشن آرہاہے ۔ ٹرین سٹاف ، ڈرائیور، گارڈ اور گیٹ کیپر کے مابین رابطے کے لیے VHFواکی ٹاکی کے نظام کے لیے 73کروڑ کا PC-Iمنظور ہوچکاہے۔ جہاں تک گوجرہ ٹرین حادثہ کا تعلق ہے تو یہ وضاحت کرناضروری ہے کہ مذکورہ لیول کراسنگ ان مینڈاور ان سگنلڈ ہے اور اسے عبور کرنے کے لیے انتہائی احتیاط کا مظاہرہ کرناضروری ہے ۔ ابتدائی رپورٹ کے مطابق یہ احتیاط روا نہیں رکھی گئی ۔
پاکستا ن ریلویز پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ایسے تمام لیول کراسنگز پراحتیاطی بورڈ نصب کرے، راستہ ہموار کرے اور جہاں ضرورت ہو وہاں سپیڈ بریکر بھی بنائے اس لیول کراسنگ پر نہ صرف احتیاطی بورڈ ہے بلکہ سپیڈ بریکر بھی موجود ہے۔ شورکوٹ سیکشن پر اس وقت کسی قسم کی دھند بھی نہیں تھی ور اس کراسنگ پر ریلوے لائن میں کسی قسم کا موڑ بھی نہیں تھا جس سے کسی بھی ٹرین کو دور سے آتے ہوئے نہ دیکھا جاسکے۔ حقیقت یہ کہ ٹرین اپنی پٹڑی پر سفر جاری رکھتی ہے وہ کسی کو کچلنے کے لیے ادھر اُدھر نہیں جاتی لہٰذا ضروری ہے کہ جو کوئی بھی لیول کراسنگ کو عبور کرے وہ رُکے دیکھے ، سُنے کہ ٹرین تو نہیں آرہی اور پھر اسے کراس کرے یہ احتیاط مینڈ اور ان مینڈ دونوں قسم کے لیول کراسنگز پرروا رکھی جانی چاہیے یہ لمحہ فکر بھی ہے کہ ٹرین آتی ہوئی دیکھ کر بھی کراسنگ کو عبور کرنے کا خطرہ مول لیا جاتاہے اور اس قسم کی مہم جوئی سے قیمتی جانوں کا ضیاع ہوتاہے ۔ پاکستان ریلویز کو قیام پاکستان سے لیکر اب تک ریلو ے کی طرف توجہ نہیں دی گئی یہ ایک قومی ادارہ ہے اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اسکی بحالی اور ترقی کے لیے دن رات کام کیا جارہا ہے ۔ موجودہ دور کے آغاز میں اسکی آمدن اٹھارہ ارب روپے تھی مگر موجودہ مالی سال کے اختتام پر پاکستان ریلویز انشاء اللہ چالیس ارب روپوں سے زائد سالانہ کمائے گا یہ دن رات کی محنت کا نتیجہ ہے کہ ریلوے کے مسافروں میں کڑوڑوں کا اضافہ ہوا اور ٹرین میں آپریشن میں25فیصد اضافہ ہوا، ٹرینوں کے اوقات میں بھی 80فیصد تک بہتری آئی۔ لیکن اس کے باوجود ٹرین حادثوں کی تمام تر ذمہ داری وفاقی وزیر پر ڈالنا کہاں کا انصاف ، اور ان کے مستعفیٰ ہونے کا مطالبہ جائز نہیں اس طرح کے بیانات قومی ادارے کے وقار اور عوامی اعتماد کو مجروع کرتی ہے ریلویز کو ٹارگٹ کرنا ملک دشمنی کے مترادف ہے۔یہ پاکستان ریلوے کے خلاف شازش ہے جسے ہم کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔