مولانا حالی ؔ اور اُن کی خدمات
الطاف حسین1837ء میں پانی پت میں پیدا ہوئے۔ جب آپ نو برس کے تھے تو والد فوت ہو گئے۔ بڑے بھائی اور بہن نے حالی ؔ کی پرورش کی۔ دستور کے مطابق قرآن حفظ کرنے کے بعد عربی اور فارسی کی تعلیم شروع کی۔17برس کی عمر میں شادی کر دی گئی۔ 1854ء میں دلی چلے گئے وہاں مولوی نوازش علی سے ڈیڑھ برس تک عربی کی تعلیم حاصل کی۔حالات پھر پانی پت لے گئے۔ تین، چار سال بعد نواب مصطفی خاں شیفتہ کی مصاحبت میں آپ جہانگیر آباد رہے، وہاں نواب کی صحبت نے پرانا شعر و شاعری کا شوق پھر تازہ کر دیا۔ اپنی شاعری بغرض اصلاح، غالب کو ارسال کرنے لگے۔ آٹھ سال بعد وہاں سے لاہور چلے گئے۔ سر رشتہۂ تعلیم میں انگریزی سے اردو میں ترجمہ کی گئی کتب کی عبارت کی اصلاح کا فریضہ سرانجام دیتے رہے۔ایچی سن سکول میں بطور اتالیق بھی رہے۔ لاہور میں کرنل ہالرائیڈ اور محمد حسین آزاد کے ساتھ مل کر1874ء میں انجمن پنجاب کی بنیاد رکھی اور موضوعاتی مشاعروں کا آغاز کیا۔ چار برس یہاں گزارنے کے بعد دہلی چلے گئے، وہاں سر سید سے ملاقات ہوئی۔ وہ انہیں علی گڑھ لے گئے۔ سر سید کی وساطت سے حالیؔ حیدر آباد دکن پہنچے۔ وہاں کی ملازمت سے دست کشی کے بعد واپس پانی پت چلے گئے اور وہیں یکم جنوری1915ء میں وفات پائی۔ یہ نثری و شعری تصانیف پیچھے چھوڑیں: (1) تریاقِ مسموم1867ء( 2) مجالس النساء 1874ء ( 3) سفر نامہ حکیم ناصر خسرو1882ء( 4) طبقات الارض 1883ء( 5) حیات سعدی 1886ء (6) مقدمہ شعرو شاعری1893ء( 7)یاد گارِ غالب 1897ء ( 8)حیاتِ جاوید1901ء( 9) مولود شریف 1864ء تا1870ء کے زمانے کی تالیف 1923ء میں پسر خواجہ سجاد حسین نے شائع کروائی۔ مسدس حالی ؔ 1879ء۔ نظم حالی ؔ (اردو مجموعہ)1890ء دیوانِ حالی ؔ 1893ء اس فہرست پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حالی ؔ کی ادبی زندگی کا شجر سر سید احمد خان سے تعلق خاطر کے بعد تناور اور بار آور ہوتا ہے۔ ان کی زیادہ تر اور مقبول تصنیفات علی گڑھ سے تعلق کے بعد منص�ۂ شہود پر آئیں۔ حالی ؔ اپنے مزاج کے اعتبار سے علی گڑھ تحریک کے مقاصد سے ہم آہنگ تھے،اس لئے سب سے زیادہ مفید بھی وہی ثابت ہوئے۔ وہ ایک نقاد کا دل و دماغ لے کر پیدا ہوئے تھے۔ ان کی شاعری سے بھی ناقدانہ خیالات کو یکجا کر کے ان کی تنقیدی افتادِ طبع کا تجزیہ کیا جا سکتا ہے-: اے شعر! راہ راست پہ تو جبکہ پڑ لیا اب راہ کے نہ دیکھ نشیب و فراز تو حالی ؔ قدرت کی طرف سے شاعری کا مادہ لے کر پیدا ہوئے تھے۔ حسن و تناسب کی پرکھ، شدتِ احساس، دردِ دل کی نعمت، تخیل کی تیزی اور مشاہدے کی گہرائی، وہ خصوصیات تھیں جو فطرت نے فیاضی کے ساتھ ان کو ودیعت کی تھیں۔ بچپن ہی سے رنج و مصائب سے دوچار ہونے کے سبب ان کے دل میں سوز و گداز پیدا ہو چکا تھا۔ ان کی غزل میں سادگی، اصلیت اور حقیقت کا عنصر نظر آتا ہے۔ وہ جذبات و احساسات کو اس ڈھنگ سے بیان کرتے ہیں کہ ان میں دل کی سچی لگن اور دھڑکن صاف سنائی دیتی ہے: جو دل پہ گزرتی ہے کیا تجھ کو خبر ناصح کچھ ہم سے سنا ہوتا پھر تو نے کہا ہوتا سماں کل کا رہ رہ کے آتا ہے یاد ابھی کیا تھا اور کیا سے کیا ہو گیا یہی انجام تھا اے فصلِ خزاں گل و بلبل کی شناسائی کا رنج کیا کیا ہیں ایک جان کے ساتھ زندگی، موت ہے، حیات نہیں 1857ء کی جنگِ آزادی اور اس کے نتیجے میں انڈیا اور مسلمانوں کی بربادی، بیس سالہ حالی ؔ نے اپنی آنکھوں سے دیکھی تھی۔ اس دور میں مُلک و قوم کی بدحالی و پریشانی بدامنی و انتشار و بے چینی اپنی انتہا کو پہنچ چکی تھی اور ساتھ ہی لوگوں پر جمود اور بے حسی،مایوسی اور شکست خوردگی طاری تھی، لیکن خدا کے کچھ بندے ایسے بھی تھے، جنہوں نے اس طوفانِ مصیبت کے سامنے ہمت اور ہوش کے ہتھیار نہیں ڈالے، بلکہ حالات کا مقابلہ قلم سے کرنے کی کوشش کی۔ سرسید نے محسوس کر لیا تھا کہ اب ایک نیا دور شروع ہو رہا ہے، جس میں مغربی علوم سیکھے بغیر کام نہیں چلے گا۔اگر لوگوں نے زمانے کا ساتھ نہ دیا تو مزید برباد ہو جائیں گے۔ آپ نے علی گڑھ سکول و کالج قائم کئے جو ایک تحریک بنے۔ ان کا ساتھ مولانا حالی ؔ نے بھی دیا۔ وہ بہت بڑے عالم دانشور اور مفکر تھے، انہوں نے ’’مدو جزرِ اسلام‘‘ لکھی، جو مسدسِ حالی ؔ کے نام سے مشہور ہے اور مولانا کی شناخت کا علمی حوالہ ہے۔ حالی ؔ نے ’’مقدمہ شعرو شاعری‘‘ تحریر کیا جو آج بھی فنِ شعر پر ایک مستند دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے جسے 1893ء میں اپنی قدیم اور جدید غزلوں اور متفرق کلام کے ساتھ شائع کیا جو اُن کے حسنِ ذوق، وسعتِ نظر اور جدتِ خیال کا آئینہ ہے۔ مولانا حالی ؔ نے سوانح نگاری کا بھی حق ادا کر دیا اور ’’ حیاتِ سعدی‘‘ لکھ کر اُس با کمال شاعر اور بے مثل ادیب کی زبردست شخصیت کو ہندوستانیوں سے متعارف کروایا، جن کی گلستان و بوستان سارے ہند میں بہت مقبول تھیں، جن سے اخلاقی اصلاح کا کام لیا گیا ہے۔ حالی ؔ طبعاً اس چیز سے متاثر تھے، اس لئے انہیں سعدی سے ایک خاص لگاؤ تھا۔ حالی ؔ کے اپنے کلام میں سعدی کا اثر کافی پایا جاتا ہے۔ اس کے بعد غالب اور سرسید کی سوانح عمریاں (یاد گارِ غالب اور حیاتِ جاوید) لکھ کر مولانا نے ہم پر احسان عظیم کیا ہے غالب کی وفات پر حالی نے سو اشعار کا مرثیہ 1869ء میں لکھا جو اُس محبت و عقیدت کا آئینہ ہے جو اُن کو غالب سے تھی ۔ شاعری کا کیا حق اس نے ادا پر کوئی اس کا حق گزار نہ تھا مولانا حالی ؔ جتنے بڑے شاعر تھے اتنے ہی عظیم نثر نگار بھی تھے۔ اس بات کا ثبوت ان کے نثری شاہ کار ’’تریاقِ مسموم‘‘ ، علم طبقات الارض، مجالس النساء اور شواہد الالہام وغیرہ ہیں۔ انہوں نے ابتدائی زمانے میں ’’مولود شریف‘‘ بھی لکھا۔ ان کی نثر میں فصاحت، متانت، اسدلال، اعتدال اور توازن سموئے ہوئے ملتے ہیں۔ ان کے ہاں سلاست و روانی بھی پائی جاتی ہے۔۔۔ وہ معنوی روانی جس میں دماغ کہیں بھٹکتا نہیں۔ علمی مسائل ذہن میں صاف ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اُن کی نثر کا انداز نہایت نپا تلا اور سنجیدہ و متین ہے۔ لاہور میں چار سال تک انگریزی کتابوں کے ترجمے کی اصلاح کا کام بھی کرتے رہے، جس کی بدولت انہیں بہت سی مغربی تصانیف کو پڑھنے کا موقع ملا۔ ان کو اس میں ایک نئی دنیا نظر آئی اور ان کا مذاق شعری نئے سانچے میں ڈھلتا رہا۔ اُسی زمانے میں مولوی محمد حسین آزاد نے لاہور میں ایک نئی قسم کے مشاعرے کی بنیاد ڈالی، جس میں نظم کے لئے عنوانات دیئے جاتے تھے۔ ان مشاعروں کے لئے حالی ؔ نے چار نظمیں برکھا رت، نشاطِ امید، مناظرہ رحم و انصاف اور حب وطن لکھیں۔ ’’ برکھا رت‘‘ کو پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ حالی ؔ کا مشاہدہ کتنا گہرا اور نظر کتنی باریک بیں تھی اور مظاہرِ قدرت اور مناظرِ فطرت کو انہوں نے کس قدر غور سے دیکھا ہے۔ ’’ مسدسِ حالی ؔ ‘‘ اُردو کی قومی شاعری کا سنگِ بنیاد تھا۔ حالی ؔ ، سرسید کے مشن میں برابر کے شریک ہو گئے اور انہوں نے اپنی شاعری کو قومی خدمت کے لئے وقف کر دیا۔ قومی خدمت کا تصور حالی ؔ کے ذہن میں یہ تھا کہ سر سیدد کی تعلیمی تحریک کی تائید کر کے قوم کو تعلیم کی طرف توجہ دلائیں۔ جہالت کی تاریکی دور کریں اور لوگوں کو معاشرتی اور معاشی اصلاح کی ضرورت کا احساس دلائیں تاکہ وہ زمانے کے تقاضے اور مطالبے کو سمجھیں اور اس کو پورا کریں۔ اس سلسلے میں حالی ؔ نے بہت سی نظمیں اور مثنویاں لکھیں۔ ان سب کی تہہ میں یہی جذبہ اور روح کار فرما ہے۔ اس با مقصد شاعری پر انہوں نے تنقید کی پروا نہیں کی۔ حالی سے پہلے اُردو شاعری میں عورت محض محبوب کی حیثیت سے سامنے آتی ہے۔ اُس کی اصل صفات ایثار، قربانی، جفاکشی، محنت، وفا، پرستش، محبت اور خدمت کا ذکر کہیں نہیں ملتا، لیکن حالی ؔ نے اس غلطی کی تلافی کی۔ جہاں جہاں بھی عورت کا ذکر کرتے ہیں، اُسے انسانیت کے بلند مقام پر جگہ دیتے نظر آتے ہیں۔ ’’ چپ کی داد‘‘ اُن کی مشہور نظم ہے، جس میں انہوں نے ہندوستانی عورت کی سیرت اور اس کی خدمات پر روشنی ڈالی ہے: اے ماؤ، بہنو، بیٹیو، دُنیا کی زینت تم سے ہے ملکوں کی بستی ہو تمہیں قوموں کی عزت تم سے ہے حالی ؔ کی بہت سی نظموں اور مثنویوں میں سب سے دل گداز اور اثر آفرین ’’مناجات بیوہ‘‘ ہے۔ 1886ء میں لکھی گئی اس نظم میں ایک کمسن بیوہ کی درد ناک حالت کا نقشہ کھینچا گیا ہے جو سماج اور رواج کے ظلموں کا شکار ہے اور اس انداز سے کھینچا ہے کہ دل کانپ اُٹھتا ہے۔ چپ کی داد بھی بے چشمِ نم، انسان نہیں پڑھ سکتا۔ مولانا حالی ؔ نے شعر و ادب سے حقیقی زندگی کی ترجمانی کا کام لینے کے ساتھ ساتھ اسے اصلاح کا ذریعہ بھی بنایا۔ ’’مقدمہ شعر و شاعری‘‘ لکھنے کی غرض و غائت یہی تھی کہ وہ شاعروں کو سمجھائیں کہ شعر کا اصلی مقام کیا ہے؟اور شاعر اس سے کیا کچھ کام لے سکتا ہے۔ وہ سادگی کے دلدادہ اور حقیقت نگار شاعرہیں، جن کا مقصد اپنا پیام زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانا ہے۔ اُن کے کلام کی نمایاں خصوصیات سادگی، اصلیت، جوش، حقیقت پسندی اور درودو اثر ہیں، لیکن اندازِ بیان کی سادگی کے باوجود ان کے ہاں درد و اثر کی کمی نہیں۔ حالی ؔ کا کلام قوم کے نام ایک حیات بخش پیام تھا جو اُسے پہنچا اور اُس نے اسے حسبِ استعداد قبول کیا، حس سے اہلِ دل اور اہلِ نظر صدیوں استفادہ کرتے رہیں گے۔ *