آئیے دعا کریں!

  آئیے دعا کریں!
  آئیے دعا کریں!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

جس روز یہ کالم شائع ہو گا اس سے اگلی رات 27ویں کی رات ہے۔ یہ شب قدر بھی ہو سکتی ہے، وہی جو ہزار مہینوں سے بہتر رات ہے۔ اس رات پروردگار عالم سے یہ دعا کی جانا چاہیے کہ وہ وطنِ عزیز پاکستان کو مسائل کے گرداب سے نکال کر ترقی کی راہ پر گامزن کر دے۔ یہ دعا کی جانا چاہیے کہ تمام کائناتوں کا مالک اُمتِ مسلمہ کو درپیش مشکلات دور کر دے، خصوصاً فلسطین اور کشمیر میں بسنے والے مسلمانوں کو حقیقی آزادی سے روشناس کر دے۔ یہ بات حقیقتاً بڑی تکلیف دہ ہے کہ دنیا کے آدھے معدنی وسائل کا مالک ہونے کے باوجود مسلم دنیا اس وقت عالمی برادری کے شانہ بشانہ آگے بڑھنے سے قاصر ہے۔ اس کی ایک ہی وجہ ذہن میں آتی ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کے آخری پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس راہ پر چلنے کی تلقین کی تھی ہم نے اس سے روگردانی کی۔ ہم کسی اور راستے پر چل پڑے ہیں، جو بد حالی اور ناکامی کا راستہ ہے۔ چنانچہ پروردگار سے یہ دعا بھی کی جانا چاہیے کہ وہ ہمیں صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ یہ جو معاشرے میں دھوکہ دہی، ملاوٹ، رشوت اور کرپشن کا دور دورہ ہے یہ بھی دراصل اسلام کے راستے سے روگردانی کا ہی نتیجہ ہے۔ اسلام نے ایسی سماجی برائیوں سے دور رہنے کی تلقین کی لیکن ہم نے ان معاملات کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا اور یہ رجحان اس قدر تیزی سے فروغ پا رہا ہے  سوچ کر ذہن ماؤف ہو جاتا ہے کہ اس کا انجام کیا ہو گا؟

 جب آپ یہ کالم پڑھ رہے ہیں تو اس کے تین روز بعد عیدالفطر منائی جائے گی۔ یہ اس چیز کے شکرانے کا دن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں روزے رکھنے کی توفیق عطا فرمائی۔ ہم نے جیسے بھی روزے رکھے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں قبول فرما لے اور ہماری نیکیوں میں، ہمارے اجر میں اضافہ کر دے۔ عیدالفطر کا دن  ہو گا تو ذرا توجہ دینے کی ضرورت ہو گی کہ ہمارے آس پاس ایسے بہت سے لوگ موجود ہوں گے جن کے لیے زندگی کے لوازمات پورے کرنا مشکل، محال بلکہ ناممکن ہو چکا ہے، تو ضروری ہے کہ انہیں بھی عید کی خوشیوں میں شامل کیا جائے۔ صدقات کی صورت میں دیں یا فطرانہ کی صورت میں غریبوں کی زیادہ سے زیادہ مدد کریں، کیونکہ بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری، غربت اور دوسرے معاملات نے زندگی کو زیادہ کٹھن اور مشکل بنا دیا ہے۔ اتنا مشکل کہ عام آدمی کے لیے دو وقت کی روٹی پوری کرنا بھی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ دھوکہ دہی اور رشوت و کرپشن اس قدر زیادہ ہیں کہ ایسا کرنے والے سب کچھ لوٹ لے جاتے ہیں اور عام آدمی کے پاس کچھ بھی نہیں بچتا۔ گزرے وقتوں میں معاشرے میں سفید پوش طبقہ سب سے بڑا ہوتا تھا اور اس کے لیے زندگی کے ایک جیسے لوازمات پورے کرنا مشکل نہیں ہوتا تھا۔ پہلے بھی کہیں عرض کیا تھا کہ یہ وہ وقت تھا جب ایک پاؤ یا آدھا سیر گوشت سے پورے گھر کا سالن بن جاتا تھا، اور سارے سیر ہو کر کھاتے تھے۔ اب ہم سیروں کے حساب سے خریدتے ہیں لیکن سیر پھر بھی نہیں ہو پاتے، معدے کے کسی نہ کسی کونے میں کچھ نہ کچھ بھوک باقی رہ جاتی ہے۔ 

بھوک، غربت اور افلاس کے بڑھنے کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ پچھلے وقتوں میں کہیں کہیں کوئی فقیر، کوئی مانگنے والا نظر آتا تھا، لیکن آج ہر قدم پر کوئی نہ کوئی آپ کے سامنے دامن پھیلائے کھڑا نظر آتا ہے کہ کچھ عطا کیجیے۔ ان کو دیکھ کر بندہ ایک لمحے کے لیے تذبذب کا شکار ہو جاتا ہے کہ انہیں کچھ دیا جائے یا نہ دیا جائے؟ یہ کسی حقیقی مالی مسئلے کا شکار ہے یا کوئی پیشہ ور گداگر ہے؟ اکثر ان کو کچھ نہ کچھ دینا پڑتا ہے، لیکن بعض اوقات انکار بھی کرنا پڑتا ہے، اور جب انکار کر دیا جاتا ہے تو یقین مانیں بعد تک محسوس ہوتا رہتا ہے کہ پتا نہیں مانگنے والا کسی حقیقی مسئلے سے دوچار نہ ہو؟ میں نے اسے کچھ نہ دے کر اللہ تعالیٰ کو ناراض تو نہیں کر دیا؟ ہمارے معاشرے میں گداگری کی ممانعت ہے اس کے باوجود معاشرے میں مانگنے والے زیادہ اور دینے والے کم پڑتے جا رہے ہیں۔ 27 ویں کی شب اور عید کے دن جہاں دوسری دعائیں کی جائیں وہاں یہ دعا بھی کی جانا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کے مالی مسائل حل کرے اور مادی وسائل میں اضافہ کر دے تاکہ زندگی گزارنا اتنا کٹھن نہ رہے جتنا ہو چکا ہے۔

 حکومت کی جانب سے بار بار دعویٰ کیا جاتا ہے کہ معیشت بحال ہوتی جا رہی ہے، اور معاملات درست ٹریک پر آگے بڑھ رہے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ حکومتی دعوے غلط ہیں، لیکن جب حکومتی دعووں کو سامنے رکھا جائے اور پھر معاشرے کی مجموعی صورت حال کو دیکھا جائے تو ایک سوال سامنے آ کھڑا ہوتا ہے کہ اگر معیشت ٹھیک ہو چکی ہے تو پھر عام آدمی کو مالی مسائل کا سامنا کیوں ہے؟ بھیک مانگنے والے اتنے زیادہ کیوں ہو چکے ہیں؟ اور لوگوں کو اپنی ایک ضرورت پوری کرنے کے لیے اپنی کسی دوسری ضرورت کا گلا کیوں گھونٹنا پڑتا ہے؟ جناب، معیشت اگر ٹھیک ہو چکی ہے تو  اس کا کچھ فائدہ عام آدمی کو بھی پہنچنا چاہیے۔ اس کی بھی مشکلات دور ہونا چاہئیں۔ ایک طرف حکومت کی جانب سے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ عام آدمی کے مسائل حل کرنے کے لیے فلاں سکیم شروع کی گئی ہے، فلاں منصوبہ مرتب کیا گیا ہے، فلاں پلان ترتیب دیا جا رہا ہے، دوسری جانب عام آدمی کے لیے خفیف سی ریلیف کا باعث بننے والے یوٹیلٹی سٹوروں کو بند کرنے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے یہ خبر نظر سے گزری تھی کہ حکومت یوٹیلٹی سٹوروں کو بند کر رہی ہے لیکن پھر جب عوام کی جانب سے شدید رد عمل ظاہر کیا گیا تو وقتی طور پر اس فیصلے پر عمل درآمد روک دیا گیا، لیکن اب شاید پھر اس ایشو کو آگے بڑھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہو سکتا ہے یہ بھی آئی ایم ایف  کی شرائط میں سے ایک ہو، لیکن سوال یہ ہے کہ جب روزانہ کا ہزار ڈیڑھ ہزار روپیہ کمانے والا کھلی مارکیٹ کے ہتھے چڑھے گا تو اس کا کیا حشر ہو گا؟

حکومت کے لیے آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنا اگر لازم اور بہت ضروری ہے تو اس پر ضرور عمل درآمد ہونا چاہیے لیکن ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ آئی ایم ایف کی تمام شرائط کا نشانہ صرف اور صرف عام آدمی بنے اور جو پہلے سے متمول اور باوسائل ہیں ان پر کسی شرط کا کوئی اطلاق نہ ہوتا ہو۔ کیا آئی ایم ایف کو یہ نظر نہیں آیا کہ ایک کمزور مالی اور معاشی پوزیشن میں ہونے کے باوجود حکومت نے عوامی نمائندوں کی تنخواہوں میں کئی گناہ اضافہ کر دیا ہے۔ 

مزید :

رائے -کالم -