سندھ واٹر لاسز کے نام پر 39فیصد زیادہ پانی استعمال کرتا ہے 

سندھ واٹر لاسز کے نام پر 39فیصد زیادہ پانی استعمال کرتا ہے 
سندھ واٹر لاسز کے نام پر 39فیصد زیادہ پانی استعمال کرتا ہے 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ؛۔  ایثار رانا
 خدارا پانی کی کمی کے مسئلہ کو قومی مسئلے کے طور پر دیکھیں اسے سیاست کی نذرنہ کریں،پانی کی جس کمی کا آج ہم شکار ہیں اس کی پیش گوئی ارسا بہت پہلے کر چکا ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پانی کا بحران سر پر پہنچ چکا ہے تربیلا ڈیڈ لیول کے قریب ہے،چشمہ میں بھی صورتحال پریشان کن ہے۔رواں،خریف میں پنجاب کو دوکروڑ 10لاکھ 71ہزار ایکڑ پر محیط فصلوں کے لئے 22فیصد کمی کا سامنا ہے۔جبکہ سندھ ایک کروڑ ایکڑ کے لئے 17فیصدپانی کی کمی کا سامنا ہے اگر پنجاب میں فصلوں کو بروقت پانی نہ ملا تو نہ صرف صوبے بلکہ پاکستان بھر میں غذائی بحران پیدا ہو سکتا ہے۔ اب آئیں سندھ اور پنجاب میں اصل جھگڑا کیا ہے؟۔اسے سمجھنے کے لئے پہلے اس فارمولے کو سمجھنا ہو گا جس کے تحت صوبوں کو ملنے والے پانی میں واٹر لاسز (water losses)یعنی پانی کا ضیاع کے نام پر مزید پانی دیا جاتا ہے۔اس فارمولے کے تحت پنجاب کو 22اور سندھ کو 39فیصد فالتو پانی فراہم کیا جاتا ہے۔یہ ایسے ہی ہے جیسے ہم بجلی کے بل میں لائن لاسز کی رقم صارف پر ڈال کر پوری کرتے ہیں،اس بار گرمی دیر سے آئی جس کی وجہ سے گلیشئر پگھلنے سے ملنے والا پانی بروقت نہ آسکا۔پھر بارش کم ہوئی،جس کی وجہ سے قدرتی انداز میں جمع کئے جانے والا پانی دستیاب نہ ہو سکا۔اب اگر ارسا کے فارمولے کے تحت پانی کی تقسیم کی جائے نیز سندھ کو 39فیصد واٹر لاسز بھی دیا جائے تو پنجاب کے پاس خریف کی فصل کے لئے ضرورت کے مطابق پانی نہیں رہتا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ پنجاب کے تمام بیراجوں پر واٹر میٹر نصب ہیں جن سے پانی کی آمد،استعمال اور ضائع ہونا واضح ہو جاتا ہے۔پنجاب کا مطالبہ یہ ہے کہ سندھ میں بھی انسپکشن کا نظام رائج کیا جائے اور غیر جانبدار انسپکٹرز جیسے نیسپاک یا واپڈا کے ذریعے اس بات کا یقین کیا جائے کہ سندھ میں اصل میں واٹر لاسز ہے کتنا؟۔ماضی میں یہ دیکھا گیا ہے کہ سندھ کی طرف سے رپورٹ کردہ ڈیٹا اکثر ارسا کے ڈیٹا سے مختلف ہوتا ہے۔میری تجویز یہ ہے کہ بجائے صوبوں میں منافرت پیدا کی جائے اسمبلیوں میں دشنام طرازی کی جائے(جیسا کہ گزشتہ روز سندھ اسمبلی میں ہوا)وفاق کی سطح پر ماہرین کی ایک غیر جانبدار انسپکشن ٹیم صوبوں کی ضرورت دستیاب پانی اور واٹر لاسز کے فارمولے کو زمینی اور مشینی حقائق کے مطابق طے کیا جائے۔میرا یقین ہے کہ اگر ”واٹر لاسز“ کا حقیقی تعین کر لیا جائے تو یہ جھگڑا ہمیشہ کے لئے ختم ہو سکتا ہے۔یہاں پر میں وزیر اعظم عمران خان سے درخواست کروں گا کہ وہ وفاق کی علامت ہیں وہ اپنا کردار ادا کریں اور پانی کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنائیں۔دوسرا مجھے حیرت ہے کہ ارسا الیکشن کمیشن کی طرح صرف موجیں کرنے کے لئے ہے یا وہ اس سنگین صورتحال میں اپنا کردار ادا کرے گی وہ خو د اپنی اتھارٹی استعمال کیوں نہیں کرتی۔آخری بات افسوس ہم کئی دہائیوں سے صرف ایک کام کر رہے ہیں اور وہ پانی کا ضیاع،آپ بھی سن لیں چند ہزار کیوسک پر لڑ رہے ہیں اور گزشتہ سال ہم نے ساڑھے پندرہ ملین ایکٹر فیٹ پانی ضائع کیا۔ 


تجزیہ ایثار رانا

مزید :

تجزیہ -