کٹھمنڈو میں نواز مودی ملاقات کے خواہش مند کسی معجزے کے منتظر

کٹھمنڈو میں نواز مودی ملاقات کے خواہش مند کسی معجزے کے منتظر

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کٹھمنڈو سے براہ راست
 خصوصی تجزیہ:عمر شامی              
18 ویں سارک سربراہی کانفرنس اپنے اختتام کو پہنچ رہی ہے۔آج ممبر ممالک کے سربراہان کٹھمنڈوسے کچھ کلو میٹر دور دولخیل کے تفریحی مقام پر کئی گھنٹے گزاریں گے۔وہاں پر نہ صرف ہمالیہ کے پہاڑوںکا نظارہ ہوگا بلکہ غیر رسمی گپ شپ کے بھی وافر مواقع میسر ہونگے۔خواتین اول بھی پاس ہی ایک اور ریزورٹ میں قیام پذیر ہوں گی۔البتہ ابھی تک نواز شریف اور نریندر مودی کی باقاعدہ ملاقات کے خواہشمند کسی معجزے کے منتظر ہیں۔معروضی حالات یہ اشارہ دے رہے ہیں کہ برف پگھلنے کے امکانات معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔دونوں ممالک کے وزرائے اعظم ایک ہی جگہ موجود ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے نظریں چراتے نظر آرہے ہیں۔وزیر اعظم نواز شریف اور وزیر اعظم نریندر مودی ایک ہی ہوٹل میں مقیم ہیں اور تمام دن انہوں نے دوسرے رکن ممالک کے سربراہان سے ملاقاتوں میں گزارا۔لیکن ایک دوسرے سے باقاعدہ ملاقات کا کوئی موقع پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔وزیر اعظم نواز شریف جب مالدیپ کے صدر سے ملاقات کے لیے جا رہے تھے تو راقم نے دریافت کیا کہ انڈیا کی طرف سے کوئی پیش قدمی سامنے آئی تو وزیر اعظم نے سنجیدگی سے جواب دیا ”دونوں طرف سے خاموشی ہے اور ہم اپنے اصولی موقف پر قائم ہیں“۔اسی دوران وزیر اعظم پر بھارتی میڈیا کے درجنوں صحافیوں نے سوالات کی بوچھاڑ کر نے کی کوشش کی تو وہ پہلو تہی کر کے نکل گئے۔لیکن پاکستانی صحافیوں سے دریافت کرنے لگے کہ ان کے صحافی تو بہت متحرک نظر آ رہے ہیں آپ ان کا مقابلہ کر رہے ہیں؟یہ بات قابل ذکر ہے کہ بھارت کے وزیر اعظم نہ صرف بڑا وفد لے کر نیپال پہنچے تھے بلکہ ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً 150 کے قریب بھارتی صحافی کھٹمنڈو میں سارک کانفرنس کی کوریج کے لیے موجود ہیں۔اتنی بڑی تعداد میں صحافیوں کی موجودگی یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ کسی بڑی خبر کے ملنے کی امید موجود تھی۔دونوں وزرائے اعظم کی سارک کانفرنس میں تقاریر کا جائزہ لیں تو ان میں بھی ایک دوسرے کے لیے کئی پیغامات چھپے تھے۔وزیر اعظم نواز شریف نے اگرچہ براہ راست انڈیا کو مخاطب نہیں کیا لیکن انہوں نے متنازعہ امور کے ذکر سے بھی گریز کیا۔اور ان کی تقریر زیادہ تر علاقائی مسائل اور چیلنجز پر مرکوزرہی۔انہوں نے پاکستان کی امن کی خواہش کو نمایاں انداز میں پیش کیا اور اس بات کا اعادہ کیا کہ سارک ابھی تک اپنے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکا۔خطے کو غربت اور پسماندگی سے نکالنے میں اجتماعی جدوجہد کی اہمیت کو اجاگر کیا۔انہوں نے متعدد معاشی اعداد و شمار کی مدد سے خطے کو درپیش اقتصادی مسائل پر روشنی ڈالی۔پاکستان کے اہم جغرافیائی محل و قوع اور خطے کے ممالک کو اقتصادی طور پر ملانے میں پاکستان کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا۔دوسری طرف نریندر مودی نے بھی اپنی تقریر میں زور بیان بھارت کی طرف سے خطے کے ممالک کو اقتصادی اور معاشی تعاون کی فراہمی کی خواہش پر صرف کیا۔انھوں نے بھارت کو ’بڑا بھائی‘ نہیں بلکہ ’فراخ دل ‘ بڑا بھائی ثابت کرنے کی کوشش کی اور یہ تسلیم کیا کہ بھارت کی اپنی معاشی ترقی خطے میں تنازعات کے حل اور امن کے قیام سے جڑی ہے۔انھوں نے اگرچہ پاکستان کا ذکر صرف ایک لائن میں کیا لیکن ان کی تقریر میں الزامات کی بوچھاڑ نہیںتھی۔انہوں نے ممبئی دھماکوں کا بھی ذکرکیا لیکن اسے ا پنی تقریر کا مرکزی نقطہ نہیں بنایا۔دہشتگردی کے پسندیدہ بھارتی موضوع کو بھی انہوں نے ایک ہی جملے میں سمیٹ دیا۔انہوں نے اشارتاً اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ ’بڑا بھائی ‘ ہونے کے ناطے بھارت کو مسائل اور تنازعات کے حل میں پہل کرنا ہو گی۔اقوام متحدہ میں ہندی میں تقریر کر کے شہرت حاصل کرنے والے مودی اس علاقائی کانفرنس میں انگریزی میں تقریر کرتے نظر آئے۔اختتام اگرچہ انہوں نے ہندی کے اس معنی خیز جملہ کے ساتھ کیا ’پاس پاس تو ہیں مگر ساتھ ساتھ نہیں ہیں‘۔دونوں ممالک کے وفود کے ارکان بھی ایک دوسرے کے بارے میں الفاظ کے چناﺅ میں محتاط رہے اور الفاظ کی کوئی جنگ دیکھنے یا سننے کو نہیں ملی۔اس تمام تراحتیاط کے باوجود بھی دونوں ممالک کے سربراہان اپنے داخلی حالات کے قیدی نظر آئے۔پاکستانی قیادت تو شاید یہ فیصلہ کر کے آئی تھی کہ وہ کسی بھی طور پہل نہیں کرے گی لیکن بھارتی قیادت بھی امن کا راگ ہی الاپتی رہی۔ مودی صاحب کو اپنے الفاظ کو عملی جامہ پہنانے کی ہمت نہ ہوئی ،بہرحال الفاظ کی جنگ بندی اعتماد سازی کی طرف شاید معمولی سا پہلا قدم ہے۔آج بھی دونوں ممالک کے سربراہان کئی گھنٹے ایک ہی جگہ پر اکٹھے گزاریں گے۔اس دورے میں باضابطہ مذاکرات کی امید تو تقریباً مردہ ہو چکی لیکن آخری رسومات کی ادائیگی تک کوئی بات حتمی طور پر کہنا ممکن نہیں۔کیا مودی سرکار واقعی خطے میں امن کو پائیدار بنیادوں پر استوار کرنے میں سنجیدہ ہے؟فیصلہ آج ہو جائے گا۔

مزید :

کالم -