مذہب کو سمجھنے کے لئے اِس چیز کی ضرورت ہے
میری اپنی سوچ ہے کہ مذہب کا لب لباب عبادات نہیں ہیں۔ مذہب کا لب لباب حقوق العباد ، رشتے اور اْن کے ساتھ تعلقات ہیں۔ یہ اللہ کی فوقیت ہے، اس لیے اللہ نے نظام کو پکا کرنے کے لیے عبادات کو ترتیب دیا کہ اگر میرے پاس میرے ہمسائے کو ملنے کا وقت نہیں ہے تو میں اْس کو مسجد میں جاکر مل سکتا ہوں۔ ایک بات ذہن نشین کرلیں۔ عبادات اللہ کے لیے ہیں اگر اللہ نے چاہا تو معاف کردے گا، لیکن حقوق العباد میں اگر ہمیں اپنے رشتے داروں سے کوئی مسائل ہیں وہ خدا نے معاف نہیں کرنے وہ تو رشتے داروں نے معاف کرنا ہے ۔اگر عبادات اور تعلقات میں سے کسی ایک کو چننا پڑے تو میں تعلقات کو اپنی پہلی پسند بناؤں گا، کیونکہ اللہ کے نزدیک انسانی رشتے کی اہمیت اور فضیلت ہے۔
حدیث (مفہوم) قدسی ہے کہ مجھے اپنی عبادات کے بعد جو چیز سب سے اچھی لگتی ہے وہ ہے حسن سلوک اور حسن سلوک رکھنے کا سب سے اچھا طریقہ دوسروں کو کھانا کھلانا ہے۔
آپ کو ایک بات کی وضاحت کروں کہ قرآن حکیم اللہ کا کلام ہے، میرا اور آپ کا منطق آج کل کمپیوٹر بنا ہوا ہے۔آپ کو اس بات سے حیرت ہو گی کہ جو منطق ارسطو نے آج سے 3ہزار دوسو سال پہلے نے تخلیق کی تھی، ہم اْس منطق میں اضافہ نہیں کرسکے۔ آج بھی منطق وہی ہے جو ہزاروں سال پہلے تھی۔ سواتین ہزار سال پہلے کی انسانی عقل ارسطو کو سمجھ نہیں سکتی لیکن انسانی عقل یہ چاہتی ہے کہ خدا کے کلام کا ترجمہ کر کے اْس کو سمجھ لے۔ اس بات کو یوں سمجھنا چاہیے کہ ہم خدا پر دانش کے مطابق طبع آزمائی کرسکیں۔
میں تو یہ بھی نہیں جانتا کہ انصاف کس چیز کا نام ہے۔ میں ہر اْس چیز کو حسن مانتا ہوں جو خدا کہتا ہے کہ ٹھیک ہے۔ مسلمان ہونا ایک غلامی ہے لیکن یہ غلام بہت فہیم ہوتا ہے اور اس فہم کا استعمال اللہ نے اس کی نیکی اور بدی پر اپنے قوانین پر رکھا ہے۔ ایک تصویر کبھی اْس کے بنانے والے سے نہیں پوچھتی کہ تْو نے اْس میں پیلا رنگ زیادہ کیوں بھر دیا، لیکن یہ انسان کی فوقیت ہے کہ وہ پوچھ سکتا ہے تو نے میرا ایک بازو چھوٹا کیوں بنایا۔وہ خداوندہے اْس کے ساتھ اپنے آپ کو وضاحت میں لے کر آنا اور اپنی ذات کااس کے ساتھ تقابل کرنا کتنا غلط ہے۔ کسی بھی مذہب کی تکمیل اْس وقت تک نہیں ہوتی کہ جب تک اْس میں قیادت نہ ہو۔پیغمبر کے بغیر مذہب نہیں بن سکتا۔ جب تک اْس میں کتاب نہ ہوگی، ایک مذہب بن ہی نہیں سکتا ، کسی قائد کی رائے نہ ہو۔ ایک مذہب کی تکمیل ہو ہی نہیں سکتی جب تک اْس میں ادارے نہ ہوں مسجد نہ ہو، مندر نہ ہو۔ مذہب بن ہی نہیں سکتا، جب تک اْس میں فرشتے نہ ہوں، یہاں تک کہ ہر مذہب اور اسلام میں کہیں نہ کہیں یکسانیت موجود ہے۔ یہاں تک ہم میںیکسانیت موجود ہے ، لیکن اسلام میں ایک چیز اضافی ہے ، جسے ہم مابعدالطبیعات کہتے ہیں۔ اب اس مابعد الطبیعات کی وضاحت کرنے کے لیے ایک مکمل اور افضل ترین دماغ چاہیے جو اپنے وقت کا قیدی نہ ہو۔ ہم اس کو عشق کے ساتھ تشبیہ دیتے ہیں۔ اگر ہم عشق کا ترجمہ انگریزی میں کریں گے تو یہ نامکمل ہو گا کیوں کہ انگریزی میں عشق کا تصور ہی نہیں پایا جاتا۔ ہماری زندگی میں بہت سے ایسے معاملات ہیں جو دین کے ساتھ منسلک ہیں۔ ان معاملات کی ہم شرعی طور پر وضاحت کرسکتے ہیں لیکن وہ بھی حتمی چیز نہیں۔ کیا کوئی یہ قسم کھا سکتا ہے یہ حتمی ہے۔
یہ میری عقلی قوت ہے جو کہ ممکن ہے کہ2014 میں تو ایک نظریہ رکھتی ہے لیکن ہو سکتا ہے یہی میری عقلی قوت اگلے سالوں میں بدل جائے۔ اس لیے آج قرآن پاک کی تفسیر موجود ہے۔ وہ ہمیشہ اپنے زمانے میں بدلتی رہے گی۔ اس کا یہی رنگ اور خوبصورتی ہے۔ ہم لوگوں میں مذہب اسلام کے اندر بہت اختلافات پائے جاتے ہیں لیکن اگر ہم آپس میں یہ مذہبی اختلافات نہ رکھتے تو آج میں اور آپ بحث نہ کرسکتے اور آنے والے مزید سال مزید سوالات لے کر آئیں گے۔ یہ بھی مذہب کی صحت ہوتی ہے اور یہ صرف اسلام میں پائی جاتی ہے۔ آپ ہندو برادری کو کبھی بھی بحث میں ملوث نہیں پائیں گے کیونکہ اْس میں گہرائی نہیں ہے۔ آپ معراج کی وضاحت کیسے کرسکتے ہیں، آپ اس کی وضاحت مابعد الطبیعات سے کرسکتے ہیں۔
میں بہت ہی ادب کے ساتھ درخواست کرتا ہوں کہ مذہب بڑے دماغوں کا کھیل ہے۔ میرے جیسے دماغ صرف شریعت کی پیروی کرتے ہیں۔ نماز پڑھو اور روزہ رکھو۔ زکوٰۃ دو، کپڑوں کا خیال رکھو۔ اس میں جب آپ خود مابعد الطبیعات کو سمجھ نہ پائیں تو اْس کا عکس کرنا بھی مشکل ہے۔ جب بھی آپ رائے دیں تو اللہ اور اس کے رسولﷺ کے نظریات کے مطابق دیں۔ صحابہؓ ہمیشہ کہتے تھے اللہ اور اللہ کا رسولﷺ بہتر جانتے ہیں۔ ہماری ایک رائے ہے، اللہ تعالیٰ بہت بڑا غفور ورحیم ہے۔ معاف کرنے والا ہے۔ وہ تو کفن چور کو بھی معاف کر دیتا ہے۔ خداتعالیٰ جو چاہے کر سکتا ہے یہ اس کی مرضی ہے، ہم انصاف نہیں کرسکتے کہ ایسا کیا ہو گا۔
.
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔