نواز شریف کاکرب
مینار پاکستان کے دامن میں ہونے والا کوئی بھی، کسی کا بھی جلسہ کبھی ناکام نہیں ہوا اور کامیاب بھی نہیں ہوا۔ یہی کچھ میاں نواز شریف کے21 اکتوبر کے جلسے کے ساتھ ہوا، عمران خان کے جلسوں کے ساتھ ہوتا رہا۔21اکتوبر کا جلسہ بیک وقت بہت بڑا اور بہت معمولی تھا۔ جلسے کے حامیوں سے پوچھیں تو کہتے ہیں تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے، تاریخی جلسہ تھا۔ مخالفین کو پنڈال خالی خالی نظر آتا ہے۔ لوگ گھروں میں بیٹھے دِکھتے ہیں۔ ایسی رائے دینے والے جلسے سے دور بیٹھے ہوتے ہیں۔
مسلم لیگ ن 21اکتوبر کو بڑا پاور شو کرنا چاہتی تھی۔ جس میں اس کے بقول وہ کامیاب رہی۔ احسن اقبال نے شرکاء کی تعداد دو لاکھ بتائی ہے۔ اسے بڑا اجتماع کہا جا سکتا ہے۔ بہت سے لوگوں کی نظر جلسے پر یعنی شرکاء کی تعداد پر اتنی نہیں تھی جتنی میاں نواز شریف کے خطاب پر تھی۔
میاں صاحب کو ایوان فیلڈ میں 14سال العزیزیہ کیس میں سات سال قید کی سزا ہوئی تھی۔ایوان فیلڈ کیس میں سزا معطل جبکہ العزیزیہ میں وہ قید کاٹ رہے تھے۔اسی دوران خرابی صحت کی بنا پر علاج کے لیے لندن چلے گئے۔4ہفتے کے لیے گئے تھے۔عدالت اور حکومت کی منظوری سے گئے۔ 21اکتوبر کو واپس آئے۔ اسلام آباد ایئر پورٹ پر اترے۔ ایئر پورٹ پر ان کی ضمانت کے قانونی تقاضے پورے کئے گئے۔ جس پر مخالفین کو اعتراض ہے کہ عدالت کیوں نہیں گئے۔ اسلام آباد سے میاں صاحب لاہور ایئر پورٹ آئے، وہاں سے ہیلی کاپٹر میں انہیں مینار پاکستان لایا گیا جہاں ان کا والہانہ استقبال ہوا۔ یہ ہونا ہی تھا۔ لوگ آئے ہی اس لیے تھے کہ میاں صاحب کیا کہتے ہیں ۔
میاں نواز شریف نے اپنا کرب بیان کیا۔کہ ان کے والد،والدہ اور اہلیہ سیاست کی نذر ہوگئے۔ 18ستمبر کو لندن میں انہوں نے اپنے ساتھ زیادتی کرنے والوں کے حوالے سے سخت لہجے میں بات کی تھی، کہا تھاکہ انکے احتساب کے بغیر ملک آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اپنے خطاب میں میاں صاحب ایک اور ہی شخصیت نظر آئے۔ انہوں نے باور کرایا کہ کسی سے انتقام لینے کی تمنا نہیں ہے۔ میاں نواز شریف ان زخموں کا تذکرہ کرتے ہیں جو بھر نہیں سکتے مگر اب دنیا کو وہ گھاؤدکھانا نہیں چاہتے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان ترقی اور خوشحالی کی منزل پر پہنچ چکا ہوتا اگر ان کی حکومت1993ء میں نہ توڑ دی گئی ہوتی۔ بے نظیر بھٹو کی حکومت کم و بیش اتنی ہی مدت کے بعد توڑی گئی تھی جتنی مدت بعد میاں نواز شریف کی پہلی حکومت کو صدر اسحق خان کی طرف سے چلتا کیا گیا تھا۔90میں بے نظیر بھٹو کی حکومت نہ ختم کی جاتی تو وہ بھی اپنے مقصد اور ایجنڈے کی تکمیل کر لیتیں۔میاں نواز شریف کی دوسری حکومت اس کے باوجود1999ء میں ختم کر دی گئی کہ صدر کے پاس حکومت اور اسمبلیوں کے خاتمے کا اختیار نہیں تھا۔ میاں صاحب کے لیے90کی دہائی دکھوں کی زخموں کی دہائی ہے۔ وہ والد اور والدہ کے جنازوں کے ساتھ پاکستان نہ آنے پر صدمے کا اظہار کرتے ہیں۔ والد کی وفات جدہ میں جلا وطنی کے دوران ہوئی۔ جنرل مشرف نے پاکستان آنے کی اجازت دے د ی تھی۔ والدہ کا انتقال لندن میں ہوا۔ میاں صاحب لندن علاج کے لیے گئے تھے۔ میت کے ساتھ اس لیے نہ آسکے کہ عمران خان کی حکومت سے انتقام کا خطرہ تھا۔ میاں صاحب نے کلثوم نواز کی موت کا تذکرہ کر کے سننے اور دیکھنے والوں کو رُلا دیا۔ ان کو کلثوم نواز کی طبیعت بری طرح بگڑنے کی اطلاع ہوگئی تھی۔ سپریٹنڈنٹ جیل سے فون پر بات کرانے کی درخواست کی۔ تین فون سامنے پڑے تھے مگر اجازت نہ دی گئی۔ کہا گیا اوپر سے حکم ہے۔ دو ڈھائی گھنٹے بعد موت کی اطلاع آ گئی۔ کسی شخص کا ایسی صورت حال میں کرب کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ایسا کیوں ہے اور خرابی کہاں پہ ہے؟
میاں صاحب نے یہ بھی اپنے خطاب میں کہا کہ آپ کو پتہ ہے مجھے کیوں ہٹایا گیا؟۔ کس کو نہیں پتہ میاں نواز شریف کو کس نے ہٹایا؟ یہ پتہ ہے کہ کس نے ہٹایامگر کیوں ہٹایا اس سے خاص لوگ آگاہ ہو سکتے ہیں۔ میاں نواز شریف سول بالادستی اورووٹ کو عزت کی بات کرتے رہے ہیں۔ان دونوں سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا۔ میاں صاحب کے مخالفین کا بھی ان دو پر کا اتفاق ہے۔ آج ان کے لیے حالات سازگار ہیں۔ وہ اپنے سیاسی مخالفین کے لیے آسانی پیدا کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ کریں یا نہ کریں ان کے لیے مجبوری نہیں ہے۔ کم از کم سول بالادستی اور ووٹ کو عزت دو کے معاملے پر اتفاق کیا جا سکتا ہے۔
سیاستدانوں کے ساتھ جیلوں میں جو کچھ ہوتا رہا ہے اس سے کون لا علم ہے۔ سیاستدان حکومت سے جاتے ہیں تو کہہ دیا جاتا ہے کہ ہم نے نہیں کیا۔ بعض اوقات تو حکومت کی طرف سے کئی گرفتاریوں کی ذمہ داری بھی لینے سے انکار کر دیا جاتا ہے۔ میاں نواز شریف کبھی ریاست کے اندر ریاست کی بات کرتے تھے۔ پھر ریاست کے اوپر (Above) ریاست کی بات بھی کی۔ جمہوریت میں ایسا کیوں؟
میاں نواز شریف کی سیاست سے جتنا بھی اختلاف کریں مگر حقیقت یہ نظر آ رہی ہے کہ وہ چوتھی بار وزیر اعظم بن رہے ہیں۔ روایتی انداز میں جیسے وہ پہلے بنتے رہے۔ بے نظیر بھٹو بنیں، عمران خان بنے۔ پاکستان سازشوں کی آماجگاہ بھی ہے۔ میاں نواز شریف اور بڑے لیڈروں کو خدا سازشوں سے محفوظ رکھے۔ اقتدار میں آنے پر میاں صاحب کے لیے نظام کو درست کرنے کا بہترین موقع میسر آنے کو ہے۔ نظام درست ہو جائے تو کسی کو بھی اس کرب سے نہ گزرنا پڑے جس سے میاں نواز شریف گزر چکے ہیں۔