سال 2024 کا اختتام۔کوہلی اور کونسٹاس

  سال 2024 کا اختتام۔کوہلی اور کونسٹاس

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ناگزیریت کا زعم انسانی زندگی کا سب سے بڑا دھوکہ ہے جو اسے نرگسیت کے وہم میں مبتلا کر دیتا ہے۔ لمحہ لمحہ زندگی کی نمو پذیری ہی اس کا سب سے بڑا حسن ہے۔ کائنات کا مشاہدہ ہمیں ہر پل  قدرت کے ا سی کرشمے کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ پھول جب اپنے حسن پر نازاں ہو کر کھلتا ہے تو اس کی نظر وہاں نہیں پڑتی جہاں سے ایک نئی کونپل کے پھوٹنے کا عمل شروع ہو چکا ہوتا ہے۔شوق بھی عجیب چیز ہے کہ اس کی چنگاری بھی کہیں نہ کہیں طبیعت میں موجود رہتی ہے جو ذرا سی ہوا سے ہی دہک اٹھتی ہے۔ہم جیسے کرکٹ کے شوقینوں کو پاکستانی کرکٹ اور خصوصا کرکٹ بورڈ کا شکرگزار ہونا چاہیے کہ انہوں نے سال 2024ء میں اپنی بہترین کارکردگی سے اس کھیل سے دل ہی اچاٹ کر دیا ہے۔کوئی زمانہ ہوتا تھا کہ دنیائے کرکٹ کی ہر ٹیم کے کھلاڑی کا نام ازبر ہوتا تھا اور بھلا ہو ہمارے کرکٹ بورڈ کا کہ انھوں نے ایسی تباہی پھیری کہ اب یہ بھی نہیں پتا کہ آج کل ہمارا کپتان کون ہے۔صبح آنکھ کھلی تو سوشل میڈیا پر ایسے ہی سرسری نظر دوڑائی تو ہر طرف نوجوان آسٹریلوی کھلاڑی سان کونسٹاس کی جادوئی بیٹنگ کے چرچے ہو رہے تھے۔ 19سالہ اس نوجوان نے اپنے ٹیسٹ ڈیبیو میں ہی دنیائے کرکٹ کے بھارت سے تعلق رکھنے والے منجھے ہوئے خطرناک بالر جسپریت سنگھ بومرا کی ایسی دھلائی کر دی کہ انڈیا کا پورا سوشل میڈیا بلبلا اٹھا۔ بات صرف دھلائی تک رہتی تو شاید اتنا مسئلہ نہ بنتا  لیکن اس نے  تو ساتھ جگ ہنسائی والا معاملہ بھی کر دیا۔144 کی سپیڈ سے ان سونگ اور آؤٹ سونگ کی مہارت رکھنے والے خطرناک بولر کو ایسی شاٹس لگائیں جو اچھا خاصا تجربہ کار بیٹسمین کسی سپنر کو لگاتے ہوئے بھی دس بار سوچتا ہے۔ بال کی سپیڈ اور سونگ سے خوفزدہ ہونے کی بجائے اسی کو ہی بالر کے خلاف استعمال کرتے ہوئے پیچھے کی جانب ناقابل یقین باؤنڈریز لگا دیں جس نے  ایک دم سے اس نوجوان کو  شائقین کرکٹ کی آنکھوں کا تارا بنا دیا ہے۔

بلا کا اعتماد، غضب کی ٹیکنیک اور حد درجے کی بے خوفی اس کے چہرے پر نمایاں تھی جس نے یہ نہیں دیکھا کہ باؤلر کون ہے بلکہ نظر صرف گیند پر رکھی جس سے لگ رہا تھا کہ کوئی پریکٹس سیشن چل رہا ہے۔یہ شاٹس لگاتے ہوئے وہ دو بار ناکام بھی ہوا اور گیند سونگ ہو کر وکٹ کیپر کے پاس گئی جس پہ دوسری کریز پر موجود اس کا ساتھی بھی ہنس رہا تھا، باؤلر  بھی فاتحانہ مسکراہٹ سے  اسے دیکھ رہا تھا اور ٹیم  کے دیگر کھلاڑی بھی اس کی بچگانہ کوشش پر شرمندہ کرنے والی تالیاں بجا رہے تھے۔محنت اور عزم آپ کا حوصلہ ٹوٹنے نہیں دیتا اوردوسروں کی آوازیں کبھی آپ کے رستے کی دیوار نہیں بنتیں۔ٹیسٹ میچ میں ہونے والی 62 گیندوں پر کھیلی گئی یہ60 رنز کی  اننگز کوئی انبار نہیں تھی لیکن اس نے دنیائے کرکٹ کی توجہ ایک دم سے حاصل کر لی ہے جس کے بعد  ناگزیریت اور نرگسیت میں مبتلا رویہ بھی سامنے آیا جس کی ہر طرف سے مذمت جاری ہے۔ویرات  کوہلی بلا شبہ اپنے دور کا سب سے اہم بلے باز ہے۔ اس کی ٹیکنیک اور کریز پر کھڑے رہنے کی صلاحیت پر کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے کہ وہ بڑا پلیئر ہے لیکن بڑا انسان ہونے  کا پتا کسی غیر معمولی صورت حال میں ہی لگتا ہے۔ نوجوان کی ان بے تکی شاٹس پر کوہلی آگ بگولہ دکھائی دیا او ر اس نے کریز پر گزرتے ہوئے اسے کندھا مارا جس پر وہ نوجوان بہت متحمل رہا اور اس نے بعد میں اپنے انٹرویو میں کہا کہ کوہلی اس کے پسندیدہ بیٹسمین ہیں،کھیل میں ایسا ہوجانا معمولی بات ہے۔اس عمر میں ذہنی تربیت کا یہ لیول ہمارے یہاں تو کم از کم ناپید ہے۔آسٹریلیا کرکٹ لوورز کی سرزمین ہے اور وہ ہر بڑے پلیئر کی قدر کرتے ہیں۔ کوہلی کے آنے سے پہلے اس کے خیر مقدمی بینر سے میلبورن سجا ہوا تھا اور اس ایک حرکت کے سبب وہاں سب اس کو جوکر کہنے لگ گئے ہیں۔ انڈیا کے سینئر کھلاڑی بھی اسے غیر ضروری اور غیر اخلاقی قرار دے رہے ہیں۔ آئی سی سی کی طرف سے اسے میچ فیس کا 20 فیصد جرمانہ اور ایک کریکٹر پوائنٹ بھی کم کیا گیا ہے جو بظاہر اتنی بڑی سزا تو نہیں لیکن اخلاقی طور پر بہت بڑا دھچکہ ہے۔ خبروں کے مطابق ٹیسٹ میچز میں بومرا کو پچھلے تین سالوں میں کسی بیٹسمین نے چھکا نہیں لگایا اور وہ اپنی مہارت سے کم وبیش 4000گیندیں دنیا بھر کے بلے بازوں کو پھینک چکے ہیں جس پر ان کے خلاف کوئی جارحانہ بیٹنگ سامنے نہیں آئی۔ ہو سکتا ہے کہ باؤلر کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی ہو کہ کسی کی کیا ہمت کہ مجھے چیلنج کرے اور پھر اس کا جواب ایک بچے سے دلوا دیا گیا۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ نوجوان سان کونسٹاس کے اس کارنامے اور شاندار شاٹس پر کوہلی اور بومرا اسے سراہتے،آؤٹ ہونے پر اس کی پہلے میچ میں شاندار اور یادگار پرفارمنس پر تھپکی دیتے تو ان کا قد بڑا ہوتا۔ کسی بھی انسان کو قدرت کی طرف سے عطا کردہ صلاحیت کا اظہار ہو کر رہنا ہوتا ہے۔ پہلے سے کھلا ہوا پھول اپنے پہلو میں ہونے و الی کونپل کی نمو کو روک نہیں سکتا، کہ اس نے کھل کر رہنا ہے کہ یہی زندگی کاثبات اور حقیقت ہے۔یہاں کوئی حرف آخر اور ناگزیر نہیں۔یہ نکتہ سمجھ میں آجا ئے کہ آپ نے بھی کسی کی جگہ لی تھی اور اب آپ کے پیچھے بھی کوئی اسی طرح قدرت کے کرشمے کی صورت موجود ہے۔ زندگی کے اس تسلسل اور حسن سے محظوظ ہوا جائے تو جگہ چھوڑنی آسان ہو جاتی ہے۔اس نوجوان کی دلیرانہ بلے بازی  نے سال  2024ء میں پاکستانی کرکٹ سے ملنے والے زخم بھلا دئیے۔ویل ڈن کونسٹاس۔ مزہ کرا دیا قسم سے۔۔۔!

مزید :

رائے -کالم -