کھرب پتی ٹیکس چور اور ککھ پتی عوام

  کھرب پتی ٹیکس چور اور ککھ پتی عوام
  کھرب پتی ٹیکس چور اور ککھ پتی عوام

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

بعض وزراء کی باتوں سے یوں لگتا ہے جیسے وہ الف لیلیٰ کی کہانیاں سنا رہے ہوں۔ اب وزیرخزانہ محمد اورنگزیب نے چیئرمین ایف بی آر کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے یہ ہوشربا انکشاف کیا ہے کہ ملک میں 5فیصد امیر افراد 16کھرب روپے کا ٹیکس چوری کرتے ہیں۔ہائے ہائے ایک نہیں، دو نہیں پورے 16کھرب روپے، کروڑ نہیں، ارب نہیں کھرب کی بات ہو رہی ہے بھائی۔ جس ملک میں لاکھ کا سن کر ستر فیصد پاکستانیوں کے ہوش اڑجاتے ہوں، اس ملک میں 16کھرب کی بات ایسے کی گئی ہے جیسے کباڑیئے کی دکان کے سکریپ کا ذکر ہوتا ہے۔ غضب خدا کا پاکستان جیسے مقروض ملک میں، جس کا بال بال قرضوں میں  جکڑا ہوا ہے۔ سولہ کھرب روپے سالانہ چوری ہوجاتے ہیں۔بڑے بڑے ادارے، محکمے، ٹاسک فورس،عدالتیں، قانونی شکنجے ان پانچ فیصد افراد کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتے۔ میں ایک ٹیکس چور تاجر کو جانتا ہوں، وہ خود بتاتا ہے کہ اگر ٹیکس دو تو کئی کروڑ دینا پڑے،جبکہ میں محکمے والوں کو پچاس لاکھ روپے دے کر پاک صاف ہو جاتا ہوں، کوئی میری طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا۔ اب میں سوچ رہا ہوں وزیرخزانہ نے 16کھرب روپے کی ٹیکس چوری کا ذکر کیا ہے۔ اس میں سے اگر یہ ٹیکس چور پانچ فیصد افراد پچاس ارب روپے بھی ایف بی آر کے کرپٹ اہلکاروں کو ادا کرتے ہوں تو ہماری ساری کوششوں کے باوجود کوئی مائی کا لعل انہیں ٹیکس نیٹ میں نہیں لا سکتا۔ یہاں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ جن ذرائع سے ایف بی آر اور وزارت خزانہ  کو  یہ معلوم ہوا کہ ملک میں 5فیصد امیر ترین افراد 16کھرب روپے کا ٹیکس چوری کررہے ہیں، انہیں یہ بھی تو معلوم ہوگیاہوگا وہ کون ہیں اور ہر ایک کتنی ڈکیتی کررہا ہے۔ اور کچھ نہیں ہو سکتاتو کم از کم ان کے نام ہی عوام کے سامنے لائے جائیں۔ کل میں ایک پھل فروش ریڑھی والے کے پاس گیا، جو بہت دنوں بعد نظر آیا تھا، اس کی ریڑھی پر مال بھی بہت کم تھا، پہلے بھری ہوتی تھی۔ میں نے پوچھا اتنے دن کہاں غائب رہا۔ اس نے بتایا بہن کی شادی تھی۔ اس میں مصروف تھا۔ میں نے کہا آج مال کیوں کم لایا ہے، اس نے کہا شادی پر بہت خرچ ہو گیا، اب پھر پیسے جوڑوں گا تو زیادہ مال لاؤں گا۔ یہ ہیں وہ عوام جو اپنی ایک ضرورت پوری کرتے ہیں تو دوسری ان کے سر پر کھڑی ہوتی ہے ان سے سرکار نجانے کتنے ٹیکس وصول کرتی ہے۔ ہر شے پر ٹیکس دیتے ہیں۔ بجلی، گیس،پانی اور سانس لینے کے علاوہ بھی ہر شے ٹیکس دینے کے بعد ملتی ہے۔ انہی کے دم سے معیشت چل رہی ہے مگر اسی ملک میں ایک پانچ فیصد طبقہ ایسا ہے جو 16کھرب روپے کے ٹیکس کھا جاتا ہے۔ وہ سولہ کھرب آ جائیں تو شاید آئی ایم ایف سے قرض لینے کی ضرورت بھی پیش نہ آئے۔ حکومت آئے روز بجلی و گیس کی جو قیمتیں بڑھاتی ہے، وہ بھی نہ بڑھانی پڑیں۔ گویا پچیس کروڑ عوام کی زندگی میں ایک بہار آ جائے۔ مگر صاحب ایسا نہیں ہوگا، یہاں بس حکومت کا بس عوام پر چلے گا کہ فائلر بن جاؤ، وگرنہ بندے دا پتر بنا دیں گے۔

میرے جیسے سادہ مزاج اب یہ سوچتے رہیں گے ان پانچ فیصد کھرب پتیوں میں کتنے ایسے ہیں جو حکومتوں میں بھی شامل ہیں۔ حکومتوں میں شامل نہیں تو کم از کم حکومتیں بنانے اور گرانے میں تو ضرور شامل ہوں گے جس ملک میں چند کروڑ روپے کے عوض لوگ سینیٹرز بن جاتے ہوں وہاں کھربوں کی بات تو پورے پورے ایوان خریدنے کے برابر ہے۔ ذرا غور فرمائیں جس ملک کے چند فیصد لوگ 16کھرب روپے کا ٹیکس چوری کرتے ہوں، ان کی آمدنی کتنی ہوگی، ایک سو کھرب تو ضرور ہوگی۔ کیا اس کے بعد بھی اس ملک کو غریب کہاجا سکتا ہے۔ پاکستان غریب ملک نہیں بس اشرافیہ نے اسے غریب رکھنے کی ٹھان رکھی ہے۔ پالیسی ایک ہی ہے کہ عوام کو سکھ کا سانس نہیں لینے دینا۔انہیں سکھ کا سانس آ گیا تو وہ ہمارا سانس بند کر دیں گے۔ اس ظالمانہ سوچ کے تحت ہر وہ چیز مہنگی رکھی جاتی ہے، جو سستی ہو تو عوام کی زندگی میں سکون آ جائے۔ بجلی، گیس اور پٹرول کو مہنگا رکھنا اسی پالیسی کا نتیجہ ہے۔ وزیروں کی باتیں عوام کے زخموں پر نمک چھڑکتی ہیں اس لئے کہ وہ صرف باتیں ہوتی ہیں۔ عمل کی نوبت کبھی نہیں آتی۔  یہاں عوام کے خلاف آپریشن ہو سکتے ہیں، حقوق مانگنے پر انہیں گولیوں کا نشانہ بھی بنایا جا سکتا ہے، مگر کسی عادی ٹیکس چور کی گرفت نہیں ہو سکتی۔ وہ اس ملک میں آزاد پیدا ہوا ہے اور آزاد ہی رہے گا۔ دنیا میں ٹیکس کا ایسا نظام کہیں بھی موجود نہیں  جس میں جو جتنا غریب ہے وہ اسی تناسب سے زیادہ ٹیکس دیتا ہے۔جی ایس ٹی کے نظام نے ہر امیر غریب کو ایک صف میں لاکھڑا کیا ہے۔ براہ راست ٹیکس نافذ کرنے کی نوبت کبھی آئی ہے نہ آئے گی۔ اس نظام میں صرف عام صارف ٹیکس دے رہا ہے کیونکہ بڑے بڑے کارخانہ دار، تاجر، سرمایہ دار،آڑھتی، سب اپنے ٹیکس کو قیمت میں شامل کرکے اس سے وصول کرلیتے ہیں۔ المیہ یہ بھی ہے کہ عوام سے حاصل کیا گیا ٹیکس بھی قومی خزانے میں نہیں جمع کرایا جاتا۔ ملک کے ہر ریسٹورنٹ میں 15فیصد جنرل سیلز ٹیکس وصول کیا جاتا ہے، وہ سب مالکان کی جیبوں میں چلا جاتا ہے کہ ایسا کوئی نظام ہی نہیں بنایا گیاکہ وہ ٹیکس حکومتی خزانے میں چلا جائے جو صارف ذرا باخبر ہے، پکی رسید پر اصرار کرتا ہے یا ریسٹورنٹ والوں سے ٹیکس نمبر مانگتا ہے، اسے یا تو ٹیکس معاف کر دیا جاتا ہے یا پھر اصلی رسید دے دی جاتی ہے۔

ایسا نہیں کہ ٹیکس جمع کرنا ایک پراسرار اور مشکل کام ہے۔ دنیا کے شاید 99فیصد ممالک میں ٹیکس وصولی کا ایک موثر نظام رائج ہے۔ امریکہ میں رہنے والے دوست بتاتے ہیں یہاں ٹیکس بچانا اتنا ہی مشکل ہے جیسے کسی ہائی وے پر سڑک کراس کرتے ہوئے جان بچانا۔ پھر اگر کوئی ایسا کرنے کی غلطی یا جرائت کر بیٹھے تو نظام کے شکنجے میں آکر ان تمام سہولتوں سے محروم ہو جاتا ہے جو ریاست کی طرف سے فراہم کی جاتی ہیں۔ یہ کتنے شرم کی بات ہے کہ ہمارے ملک کا وزیرخزانہ اور ٹیکس اکٹھا کرنے والے ادارے کا سربراہ پریس کانفرنس میں یہ اعلان کرتے ہیں کہ ملک ٹیکس چوروں کی جنت ہے۔ کیا دنیا تک یہ پیغام نہیں پہنچ رہا۔ کیا سرمایہ کاری کرنے والے ایسے کسی ملک کا رخ کر سکتے ہیں جہاں ٹیکسوں کا نظام کرپشن پر استوار ہے، یعنی جس سے جتنا چاہو وصول کرلو اور جتنا چاہو معاف کردو۔ ایسے چھوٹے چھوٹے اقدامات جو ایف بی آر کر رہا ہے، کیا ٹیکس کلچر کو فروغ دے سکتے ہیں؟ کیا سمیں بلاک کرنے، نان فائلر کو زمین یا گاڑی خریدنے سے روکنے جیسے اقدامات اس بڑے سیلاب کے آگے بند باندھ سکتے ہیں، جو ٹیکس چوری کے نام پر اس ملک کے عوام کو روند رہا ہے۔ کیا بڑے ٹیکس چوروں پر براہ راست ہاتھ نہیں ڈالا جا  سکتا؟ کیا انہیں اس جرم میں ہتھکڑیاں نہیں پہنائی جا سکتیں۔ سب کچھ ہو سکتا ہے مگر اس کے لئے جرائت چاہیے۔ 

مزید :

رائے -کالم -