قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 112
فیض احمد فیض بڑے سادہ انسان تھے لیکن پراسرار بھی اتنے تھے کہ زندگی بھر کوئی ان کی یہ ادا سمجھ نہیں سکا کہ بعض اداروں نے اور بعض اشخاص نے ان کی مخالفت کرتے ہوئے ساری ساری عمر گزاردی لیکن انہوں نے اس کے رد عمل میں ایک لفظ تک نہیں کہا۔ پیغمبروں کے بارے میں تو سنا تھا کہ وہ گالیاں سن کر دعائیں دیتے تھے لیکن شاعروں کے بارے میں ایسا نہیں سنا تھا۔ فیض احمد فیض پیغمبر نہیں تھے صرف شاعر تھے۔ یہ کسی کو دعا بھی نہیں دیتے تھے لیکن بددعا بھی نہیں دیتے تھے ۔ اکثر چپ ہی رہتے تھے اور اگر کوئی اس بارے میں پوچھتا تو زیادہ سے زیادہ ہنس دیتے تھے۔
اب ہم سب جانتے ہیں کہ ”نوائے وقت “ میں ایک مدت تک ان کے خلاف کہا جاتا رہا۔ دوست کہتے بھی تھے کہ یہ سراسر زیادتی ہو رہی ہے۔ آپ اس کی تردید کریں لیکن وہ صرف مسکرادیا کرتے تھے اور زیادہ سے زیادہ یہ کہہ دیتے تھے کہ یہ ان کا نقطہ نظر ہے اس لیے انہیں کہنے دیں۔ انہیں حق پہنچتا ہے ۔ جنگ والوں نے ایک دن مجھ سے کہا کہ فیض صاحب کا انٹرویو چاہئے اور وہ آپ کے گھر میں ہی ہونا چاہیے۔ کیونکہ ہم ان کے ساتھیوں کی فہرست ٹھیک سے نہیں بنا سکتے۔ آپ بنائیے اور باقی آپ جانیں اور آپ کا کام۔ اس کے علاوہ وہ باقی جو لوگ بھی آئیں گے وہ بھی آپ ہی کے قبیلے سے ہوں گے۔ مجھے تو فیض صاحب کو بلانے کا بہانہ چاہیے تھا۔ وہ پہلے بھی میرے ہاں آتے رہتے تھے۔ لیکن اس شکل میں انہیں بلانے کی مجھے خوشی ہوئی۔
مین نے اس موقع پر ان کے لیفٹ کے دوستوں کے علاوہ رائٹ کے کچھ لوگوں کو بھی بلا لیا۔تاکہ دونوں طرف سے سوالات آئیں اور فیض صاحب ان کا جواب دیں۔ چنانچہ یہ انٹرویو ہوا اور بڑے ٹھاٹھ کا ہوا۔ اس میں عبداللہ ملک، صفدر میر ، حمید اختر، اور دوسرے لوگ موجود تھے۔ اس زمانے میں ایران عراق کی جنگ ہو رہی تھی۔ شہنشاہ ایران کو وہاں سے نکالنا تو ان لوگوں کا کارنامہ تھا ہی مگر اب ایران چونکہ عراق کے خلاف بھی اپنے مﺅقف پر جما ہوا تھا اور امریکہ کو بھی اپنے یرغمالی چھڑانے کے سلسلے میں ایران کے ہاتھوں ہزیمت اٹھانی پڑ چکی تھی۔ اب فیض صاحب مذہبی آدمی قطعاً نہیں تھے ان کا تعلق تو سیاست سے تھا یا ادب سے تھا ۔ جنگ کے حسن رضوی بھی وہاں موجود تھے ۔ وہ صحافی تھے اور اس کے علاوہ ان کا تعلق اہل تشیع سے ہے اور وہ اس زاویے سے بھی فیض صاحب سے بات کرنا چاہتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے کہا کہ فیض صاحب ! انقلاب ایران کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ۔ لوگوں نے سوچا کہ چونکہ ایران میں مذہبی حکومت قائم ہو چکی ہے اس لیے فیض صاحب دوسری طرح بات کریں گے۔ لیکن فیض صاحب نے کہا کہ انقلاب فرانس کے بعد سب سے بڑا انقلاب یہی ہے ۔ اور اگر اس کا رخ غلط طرف نہ موڑ دیا گیا تو یہ بہت بڑا انقلاب ثابت ہو گا۔ اس جواب نے لوگوں کو حیرت میں ڈال دیا۔
یہ انٹرویو چھپاتو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا، لوگ یہ شمارہ ایک دوسرے سے مانگ کر پڑھتے رہے۔ جنگ اور نوائے وقت میں مسابقت تو تھی۔ اس لیے ایک اور محفل میں عطاءالحق قاسمی صاحب نے مجھے کہا کہ آپ فیض صاحب سے کہئے کہ وہ نوائے وقت کے لیے انٹرویو دیں۔ ان کا خیال تھا کہ چونکہ نوائے وقت ہمیشہ ان کی مخالفت کرتا رہا ہے اس لیے فیض صاحب کو انٹرویو کے لیے آمادہ کرنے کے لیے بہت محنت اور منت کرنی پڑے گی۔ لیکن میرا خیال اس کے برعکس تھا کیونکہ فیض صاحب کے منہ سے نہ تو ہوتی ہی نہیں ہے۔ اس لیے میں نے عطاءصاحب سے کہا کہ فیض صاحب اس محفل میں وہ سامنے بیٹھے ہیں آپ جا کر خود ان سے بات کریں وہ مان جائیں گے ۔ اگر وہ نہ مانے تو آپ مجھے بتائیں ۔ میں دونوں کو دیکھتا رہا اور میں نے اندازہ کر لیا کہ فیض صاحب نے ہاں کر د ی ہے۔ یہ واپس آئے اور کہنے لگے کہ فیض صاحب مان گئے ہیں۔ میں نے کہا کہ آپ فیض صاحب کو جانتے ہی نہیں ہیں۔ ان میں بہت بڑے لوگوں والی خصلت ہے۔
خیر وہاں انٹرویو ہوا اور فیض صاحب کو بہت گھیرے میں لیا گیا۔ لیکن فیض آخر فیض ہے ۔ وہاں پر فیض صاحب کو پچھاڑنے کی بہت کوشش کی گئی لیکن انہوں نے بہت متوازن اور معتدل جواب دیئے اور وہ جوابات دیئے جو ان کے مسلک سے ہٹ کر نہیں تھے ۔ ان کا مسلک کبھی بھی متشد د نہیں تھا۔ دیکھا جائے تو ایک شکل میں فلسطین مسلمانوں کی تحریک ہے مگر وہ اس کی بہت حمایت کرتے تھے ۔ اب فیض صاحب پر الزام آتا ہے کہ وہ کمیونسٹ ہیں مگر اس سے قطع نظر انہوں نے ہمیشہ حق و انصاف کی بات کی ۔ انہوں نے جتنی خدمت فلسطین کی کی، پاکستان کا کوئی بڑے سے بڑا مولوی بھی اتنی خدمت کا دعویٰ نہیں کرسکتا ۔
قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 111
فیض صاحب باقاعدہ بیروت میں رہے۔ وہاں یہ ”لوٹس “ پرچے کے ایڈیٹر بنے اور یاسر عرفات کے دوست اور دست رات کے طور پر انہوں نے سالہا سال کام کیا۔ انہوں نے اپنے پرچہ کے ذریعے اسرائیل کی دھجیاں بکھیر یں اور مختلف کانفرنسوں میں فلسطین کی نمائندگی کی۔ ایک ایسا آدمی ظاہر ہے کہ انصاف پسند ہی کہلاسکتا ہے ۔ اور ”دل بدست آور کہ حجِ اکبر است “ والی بات دیکھیں تو وہ کبھی دل آزاد ی کسی کی نہیں کرتے تھے بلکہ اس کے دل میں اترنے کی کوشش کرتے تھے ۔ چنانچہ یہ واقعہ بھی سب لوگ جانتے ہیں کہ وہ وفات سے پہلے اپنے گاﺅں گئے اور ان کے والد نے وہاں پر جو مسجد بنائی تھی اسے دیکھا اور جب نماز کا وقت ہوا تو لوگوں نے کہا کہ فیض صاحب ہم چاہتے ہیں کہ آپ اس کی امامت کریں چنانچہ انہوں نے جماعت کی امامت کر کے لوگوں کو حیرت میں ڈال دیا اور تبصرے ہونے لگے کہ یہ منافقت ہے۔ کچھ اور لوگ کہنے لگے کہ وہ صوفی ہیں۔ حالانکہ وہ طبقاتی معاملہ ہے۔ وہ ایک پسے ہوئے طبقے کے حامی اور ظالم طبقے کے مخالف تھے۔ انہیں کسی مذہب سے کوئی بیر نہیں تھا ۔ وہ مسلمان تھے اور قدم قدم پر مسلمان تھے ۔ بلکہ ایک بار تو اشفاق احمد صاحب سے میری ملاقات ہوئی اور انہوں نے کہا کہ جتنا فیض مجھے مسلمان نظر آتا ہے اتنا کوئی اور مجھے یہاں مسلمان نظر نہیں آتا ۔ کہنے لگے کہ میں نے اندر جھانک کر اور قریب سے اسے دیکھا ہے اور کمیونسٹ تو ہو گا لیکن مجھے تو وہ مسلمان ہی نظر آیا۔ میں نے کہا کہ آپ انہیں ان معنوں میں مسلمان نہ لیں جن معنوں میں مولوی سمجھتے ہیں کہ جب کوئی شخص تعصب میں ڈوب کر بات کرے تو ہی وہ سچا مسلمان ہے ۔وہ کہنے لگے کہ میرا بھی یہ مطلب نہیں ہے۔ میرے نزدیک تو مسلمان ایک سونا اور پارس ہوتا ہے اور وہ سب کا احترام کرتا ہے۔ میں نے کہا کہ بالکل ٹھیک ہے۔(جاری ہے)
قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 113 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں