مایوس ہو کر اچھے مستقبل کے خواب دیکھنا نہ چھوڑیں، زندگی میں جو کچھ بھی دستیاب ہے اسی میں سے آگے بڑھنے کے راستے اور خوبصورت خوابوں کی تعبیر پا لیں

مصنف:محمد اسلم مغل
تزیئین و ترتیب: محمد سعید جاوید
قسط:1
میں نہ تو کوئی مشہور شخصیت ہوں اور نہ ہی اصحابِ ثروت میں شمار ہوتا ہوں۔ کوئی لیڈر بھی نہیں اور نہ ہی کسی بھی قسم کا اہم عہدہ دار۔ بلکہ ایک عام سا انسان ہوں۔ پھر یونہی میں خود ہی سے سوال کرتا ہوں کہ آخر کیا سوچ کر میں نے اپنی یہ خودنوِشت لکھنے کی جرأت کی۔ بہت دیر تک غور کرنے کے بعد میرے ہاتھ یہ جواز آیا کہ شاید میری کامیاب زندگی کی اس داستان کو پڑھ کر لاکھوں نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کے دلوں میں بھی اْمید کی ایک جوت جاگ جائے،خصوصاً دیہاتی علاقوں سے تعلق رکھنے والے جو یہ سوچ کر دل برداشتہ ہو جاتے ہیں کہ وہ بڑے شہروں کے مہنگے اور انگلش میڈیم سکولوں سے پڑھ کر آئے ہوئے بچوں کے ساتھ مسابقت نہیں کر سکیں گے۔ میں چاہتا تھا کہ میں اْنھیں اپنی زندگی کے ایسے ہی تجربات اور مراحل میں حصے دار بناؤں، اْنھیں بتاؤں کہ مایوس ہو کر اچھے مستقبل کے خواب دیکھنا نہ چھوڑیں، اور زندگی میں جو کچھ بھی دستیاب ہے اسی میں سے اپنے آگے بڑھنے کے راستے تلاش کر کے اور اپنے خوبصورت خوابوں کی تعبیر کو پا لیں۔ میں اْنھیں یہ بھی سمجھانا چاہتا ہوں کہ سخت محنت، لگن، ایمانداری اور اللہ پر بھروسہ رکھو اور یہی راستہ آپ کو منزل کی طرف لے جائے گا اور یہ کہ ان میں سے کوئی بھی ایسی چیز نہیں جس کے لیے آپ کو کسی قسم کے مادی وسائل کی ضرورت ہو۔میرایہ کتاب لکھنے کا دوسرا بڑا مقصد تھا کہ میں اپنی اگلی نسل کے بچوں، خصوصاً اپنے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کو یہ بتانا چاہتا تھا کہ میں اس مقام تک کیسے پہنچا۔ میرا خیال ہے کہ اْنھیں یہ سب کچھ جان کر مسرت ہوگی اور اس میں سے وہ یقیناً کچھ اچھا سبق سیکھ سکیں گے۔ میری نیک تمنائیں اور دعائیں ہمیشہ ان کے ساتھ رہیں گی۔
میری یہ کہانی 70 سال کی جگہ جگہ بکھری ہوئی یاد داشتوں پر مشتمل ہے۔ مجھے کبھی بھی ڈائری لکھنے کا خیال نہیں آیا اور نہ ہی میں نے کبھی کسی قسم کے کوئی نوٹ محفوظ کئے۔ اس لیے کتاب کی تحریر کے دوران درجنوں ایسے واقعات کی تفصیل اور تاریخ کی تصدیق کے لیے مجھے ان دوستوں یا کرداروں سے رابطہ کرنا پڑا جن کا ذکر اس کتاب میں آیا ہے۔ میں نے اس کتاب میں اپنی ذاتی زندگی اور خاندانی معاملات کے علاوہ پیشہ وارانہ مصروفیات کا ذکر بھی کیا ہے جس میں وہ بڑے منصوبے بھی شامل ہیں جو میری نگرانی میں یا پیشہ وارانہ شراکت سے پایہ تکمیل کو پہنچے۔لیکن میں نے اکثر منصوبوں کا ذکر اس خدشے کے تحت اس کتاب میں نہیں کیا کہ کہیں یہ عام قارئین کی طبیعت پر بوجھل اور گراں نہ گزرے۔ پیشہ ورانہ کام کے بارے میں میرا یہ اختصار منصوبہ بندی سے منسلک نوجوانوں کے لیے تشنگی کا باعث ہو گا۔ مجھے اس کا احساس ہے۔چنانچہ میرا ارادہ ہے کہ میں ایسے تمام منصوبوں کے بارے میں تکنیکی معلومات اپنے اس شعبے،یعنی شہری منصوبہ بندی، اربن ڈیویلپمنٹ اور ہاؤسنگ پلاننگ،سے منسلک پیشہ ور دوستوں کے لیے ایک علیٰحدہ کتاب کی صورت میں جلد ہی سامنے لاؤں گا۔جس پر کام شروع ہو چکا ہے۔
میں اپنے والدین کا کبھی بھی شکریہ ادا نہیں کر سکتا اور نہ ان کا احسان بھول سکتا ہوں، جنھوں نے مجھے بہت لاڈ پیار سے پالا اور ایک منظم اور باوقار زندگی گزارنے کا حوصلہ دیا۔ اپنے محدود وسائل کے باوجود اعلیٰ تعلیم دلوائی، میرے لیے وہ روشنی کا مینار اور ایک زندہ مثال ہیں، جن سے میں نے سخت مشقت، قربانی، ہمدردی اور عاجزی کے اسباق سیکھے۔ یہی وہ اصول تھے جن پر عمل کرکے میں نے ایک کامیاب زندگی گزاری ہے۔ میں اپنے دادا جان کے پرخلوص پیار اور محبت کو کبھی نہیں بھول سکتا جنہوں نے قدم قدم پر میری حوصلہ افزائی کی اور میری ہر چھوٹی بڑی کامیابی پر کشادہ دلی سے میری حوصلہ افزائی کی۔ میں اپنی دونوں شریک حیات وسیمہ اور سامعہ کا بھی ممنون ہوں، اپنے بچوں عائشہ، سمیہ، مدیحہ، عمر،ان سب کے جیون ساتھیوں فواد، زبیر،بلال اور رابعہ کے ساتھ ساتھ اپنے پوتے، پوتی، اور نواسے نواسیوں کا بھی شکر گزار ہوں جنھوں نے مجھے اپنی یہ یادداشتیں حیطہ تحریر میں لانے کے لیے میری حوصلہ افزائی کی۔
میں جناب الطاف حسن قریشی اور ڈاکٹر محمد امجد ثاقب کابے حد احسان مند ہوں کہ انھوں نے اپنا قیمتی وقت نکال کر میری اس کتاب پر مشفقانہ اور مخلصانہ اظہارِ خیال کر کے میری اس کاوش کو اعتبار بخشا۔میں کمپوزر، آرٹسٹ اور پبلشرز کا بھی بے حدممنون ہوں۔
واضح رہے کہ یہ کتاب میری انگریزی میں لکھی گئی کتاب ڈسکہ سے اقوام متحدہ (Daska to United Nations) کا اردوایڈیشن ہے جس کے اردو پراہن کی تیاری میں ہمدم دیرینہ جناب محمد سعید جاوید کی اخلاص سے بھرپور مہارت اور پْرلگن محنت میرے بہت کام آئی۔ میں یہ اعتراف کرتا ہوں کہ اس اردو ترجمے کی تمام تزئین و تہذیب اور ترتیب انہی کی مرہونِ منت ہے۔
انھوں نے میری درخواست پر میری انگریزی میں لکھی ہوئی کتاب کا ترجمہ نہیں بلکہ دلنشیں انداز میں اسے خوبصورت قالب میں ڈھالنے کی ذمہ داری قبول کی اور اسے انتہائی احسن طریقے سے انجام دیا۔ گویا تکمیل مقصد میں ان کی معاونت شاملِ حال ہے یقینا میرا اظہارِ تشکر اْن کا حق ہے۔ اْن کی اس معاونت کی وجہ سے میری کتاب ان شاء اللہ پاکستان کے دور دراز دیہاتی اور شہری علاقوں کے لاکھوں بچوں تک پہنچ جائے گی اور اْنھیں امید اور جدوجہد کی روشنی سے ہمکنار کرے گی۔ اس کے علاوہ انھوں نے اْردو اور انگریزی ایڈیشن کی اشاعت کے سلسلے میں قدم قدم پر رہنمائی فرمائی جس کے لیے میں اْن کا بے حد ممنون ہوں۔
محمد اسلم مغل
لاہور 14اگست 2023ء
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔