یورپ اور امریکہ نے مسلسل تجربات کرکے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ایک پٹری جتنی زیادہ طویل ہو گی اتنا بہتر ہے، وہاں اب طویل پٹریاں بن رہی ہیں
مصنف:محمدسعیدجاوید
قسط:23
پہلے وقتوں میں جب ریل گاڑیاں نئی نئی آئی تھیں تو ان پٹریوں کو بچھانے کا کام افرادی قوت سے لیا جاتا تھا۔ درجنوں مزدور پٹری کے ایک بھاری بھرکم گارڈر کو رسوں کی مدد سے کاندھوں پر اٹھا کر لاتے اور تنصیب کی جگہ پر پٹخ دیتے۔ وہاں پہلے لکڑی کے سلیپر ایک ترتیب سے رکھے جاتے پھران پر پٹری کو متوازن کرکے سلیپروں کے ساتھ جوڑ کر وہاں نٹ بولٹ کس دئیے جاتے تھے۔ پاکستان میں لگائی گئی ایک براڈ گیج پٹری کے گارڈر کی اوسط لمبائی کوئی40 فٹ ہوتی ہے جو پچھلے ڈیڑھ سو برس سے ہی چلی آ رہی ہے۔ لیکن یورپ اور امریکہ والوں نے مسلسل تجربات کرکے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ایک پٹری جتنی زیادہ طویل ہو گی اتنا ہی بہتر ہے۔ وہاں اب بہت طویل پٹریاں بن رہی ہیں، حال ہی میں دْنیا کی جو سب سے طویل پٹری ڈالی گئی ہے اس کے گارڈر کی طوالت کوئی 400 فٹ سے زیادہ ہے یعنی ہماری پٹری سے10 گنا طویل۔ نتیجتاً جہاں ایک جوڑ 5سیکنڈ بعد آتا ہے وہاں طویل پٹری پر وہ 50سیکنڈ بعد آئے گا۔ جس سے ظاہر ہے جوڑ پر سے آنے والی آواز کا وقفہ بھی زیادہ ہوگا۔
دور جدید میں تو پٹری کی تعمیر کے لیے ایسی ایسی خودکار مشینیں میدان آگئی ہیں کہ ان کو کام کرتا دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ یہ مشین بذات خود ایک لمبی سی ریل گاڑی کی شکل میں ہوتی ہے۔ مقام تنصیب پر آتے وقت یہ گاڑی تعمیر میں استعمال ہونے والا سارا ضروری ساز و سامان اور آلات ساتھ لے کر ہی فیکٹری سے نکلتی ہے حتٰی کہ مشین کے آپریٹروں کا کھانا اور پانی بھی۔ اس میں درجنوں کے حساب سے پٹریوں اور سلیپروں کے مکمل اور تیار سیٹ ایک لمبی ٹرالی میں ترتیب کے ساتھ اوپر نیچے رکھے ہوتے ہیں۔ مجوزہ مقام پر پہنچتے ہی وہ پٹری کا ایک بنا بنایا مکمل سیٹ، جس میں گارڈر اور سلیپر پہلے سے ہی نصب کیے ہوئے ہوتے ہیں، ایک خود کار طریقے سے اپنے اوپر سے اتار کر ہموار جگہ پر انتہائی نفاست اور ترتیب سے رکھتی جاتی ہے کمپیوٹر خود ہی اس کی نوک پلک درست کرتا ہے، پھرکمپیوٹر کی ہی مدد سے مشین طے شدہ فاصلے پر زمین میں سوراخ کرکے سلیپروں کی تنصیب کر دیتی ہے۔، خودکار مشینوں سے ہی نٹ بولٹ کسے جاتے ہیں اور پھراسی مشین کے ساتھ چلتے ہوئے ایک ڈبے میں سے دھڑ ا دھڑ سیکڑوں ٹن چھوٹے چھوٹے پتھر نکل کر پٹریوں کے بیچ اور اس کے ارد گرد بکھر جاتے ہیں۔اور ایک خود کار نظام کے تحت ان پتھروں کو سلیپروں کے نیچے دھکیل دیا جاتا ہے اور پٹری کے اندر باہرپھیلا دیا جاتا ہے۔ ان پتھروں کا بوجھ ہی اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ وہ پٹری کے گارڈروں اور سلیپروں پر اپنا دباؤ بنائے رکھتے ہیں اور اسے اپنی جگہ سے ہلنے نہیں دیتے۔
پٹری کا ایک حصہ جب مکمل طور پر نصب ہو جاتا ہے تو اسی نئی بچھائی ہوئی پٹری پر یہ مشین آگے بڑھتی جاتی ہے اور اس طرح خود بخود پٹری بچھتی چلی جاتی ہے۔ یہ مشین ایک دن میں کوئی 10کلومیٹر پٹری بڑے آرام سے بچھا لیتی ہے۔ جب کہ روایتی طریقے یعنی افرادی قوت سے ایک دن میں محض 100میٹر پٹری ہی بمشکل بچھائی جا سکتی ہے۔ گویا یہ خودکار مشین سو گنا زیادہ تیزی کے ساتھ یہ کام مکمل کر لیتی ہے۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔