”کاش،اگر، مگر، چاہیے“ کی تعداد اس قدر زیادہ ہے کہ مکمل کتاب ترتیب دی جا سکتی ہے،اکثر لوگ ناکامی کیلیے دوسروں کو موردالزام ٹھہراتے ہیں
مصنف:ڈاکٹر وائن ڈبلیو ڈائر
ترجمہ:ریاض محمود انجم
قسط:124
”کاش، اگر، مگر اور چاہیے“ پر مشتمل عمومی روئیے
”کاش،اگر، مگر اور چاہیے“ اور ان سے ملتے جلتے رویوں کی تعداد اس قدر زیادہ ہے کہ ایک مکمل کتاب ترتیب دی جا سکتی ہے۔ بہرحال ذیل میں کچھ مثالیں پیش کی جا رہی ہیں:
اس امرکا یقین کر لینا کہ ہر چیز کے لیے ایک جگہ موجود ہے اور ہر چیز اپنے اپنے مقام پر ہی ہونی چاہیے۔ اس تنظیمی منصوبے سے مراد یہ ہے کہ اگرہر چیزاپنی مقررہ جگہ پر موجود نہ ہو تو آپ کی زندگی میں مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔
آپ باقاعدگی سے یہی پوچھتے رہتے ہیں کہ ”مجھے کون سا لباس پہننا چاہیے؟“ کیا ہلکا رنگ صرف موسم گرما ہی میں پہننا چاہیے؟ دوسروں کے روئیے کا دباؤ آپ کی زندگی سے خارج ہو جانا چاہیے۔ آپ مختلف قسم کے بیرونی عوامل مثلاً موسم، لباس پہننے کے انداز، کپڑوں کی اقسام، لباس سینے کے مختلف طریقوں کے غلام ہو جاتے ہیں اور لباس استعمال کرنے کے ضمن میں آپ معاشرے میں مروج طور طریقے ہی استعمال کرتے ہیں۔
آپ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ مخصوص کھانوں کے ساتھ مخصوص مشروبات کا استعمال لازمی ہے۔ مچھلی کے ساتھ ہاضم مشروب اور دیگر کھانوں کے ساتھ چائے استعمال کرنی چاہیے۔ خورونوش کے معاملے میں بھی آپ دوسروں کے مرتب کردہ اصول وقوانین پر عمل کرتے ہیں۔
اکثر لوگ اپنی ذمہ داری میں ناکامی کے لیے دوسروں کو موردالزام ٹھہراتے ہیں مثلاً ”یہ تو واقعی ا س کا قصو رہے، اس کی وجہ سے ہمیں تاخیر ہوئی۔“ یا ”مجھے الزام نہ دیجیے“ یہ تو اس کا قصور ہے۔“
اگر آپ کا دل نہیں چاہ رہا یا آپ کے پاس وقت نہیں ہے تو پھر بھی آپ کو شادی میں ضرور شرکت کرنا چاہیے اورتحفہ بھی دینا لازمی ہے ورنہ خاندان میں ناک کٹ جائے گی۔ آپ ان بیشمار دعوتوں کو نظرانداز نہیں کرتے یا نہیں کر سکتے جن میں آپ کی دلچسپی کا کوئی سامان موجود نہیں۔ آپ کے پاس تحفہ خریدنے کے لیے رقم نہیں ہے یا آپ تحفے تحائف کا لین دین پسند نہیں کرتے لیکن پھر بھی آپ کو تحفہ بھجوانا پڑتا ہے۔ آپ کو ایسی محافل میں بھی زبردستی شرکت کرنی پڑتی ہے جہاں آپ مصنوعی طورپر اس محفل کی ضرورت کے مطابق جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔
مختلف مذہبی مجالس میں شرکت کے لیے آپ کو مجبور کر دیا جاتا ہے حالانکہ آپ کئی وجوہا ت کی بناء پر ان میں شرکت نہیں کرنا چاہیے لیکن معاشرتی روایات اور اقدار کے مطابق آپ کا ان مجالس میں شرکت کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
جو لوگ مختلف شعبوں میں آپ کو خدمات مہیا کرتے ہیں۔ انہیں خود سے بلند تر سمجھتے ہوئے آپ مختلف القابات سے نوازتے ہیں۔ آپ اپنے دندان ساز کو کیا کہیں گے، آپ اپنے معالج کو کیا کہیں گے، آپ انہیں دندان ساز اور ڈاکٹر کہتے ہیں تو پھر آپ جوتے مرمت کرنے والے کو بھی جفت ساز…… فلاں کہیں گے، پلمبر…… فلاں کہیں گے، بڑھی…… فلاں …… کہیں گے، حالانکہ یہ تمام افراد اپنی خدمات کے عوض آپ سے رقم لیتے ہیں تو پھر بھی معاشری روایات اور اقدار کے باعث آپ انہیں مختلف القابات کے ذریعے پکارتے ہیں۔
آپ ایک مقررہ وقت پر بستر میں چلے جاتے ہیں کیونکہ آپ نے اسے اپنی ایک عادت بنا رکھا ہے حالانکہ اس وقت نہ آپ تھکے ہوتے ہیں اور نہ ہی آپ کو نیند آ رہی ہوتی ہے۔ آپ محض مقررہ وقت پر بستر میں چلے جاتے ہیں کہ آپ نے خود کے لیے یہ فرض کر لیا ہوتا ہے کہ آپ کو اپنے مخصوص وقت پر بستر پر ہونا چاہیے۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔