وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر55
دربار لگتا تو حکم ملتے ہی میراں کوئی راگ شروع کر دیتی۔ میراں کا اصل نام امیر بیگم تھا۔ وہ ایک قبول صورت اور باوقار عورت تھی۔ اس کی بڑی بڑی سُرمگیں آنکھوں پر جھکی ہوئی لمبی پلکیں یوں لگتی تھیں جیسے پھولوں کی شاخیں جھیل کے پانی میں اپنا عکس ڈال رہی ہوں۔ جب وہ اپنے لمبے سیاہ اور چمکیلے بال کھولتی تو ایسا معلوم ہوتا جیسے شام کے دھندلکے میں آبشار گر رہی ہو۔ وہ سفید ساڑھی پہنے حویلی کے صحن میں چہل قدمی کرتی تو یوں محسوس ہوتا جیسے راج محل کے تالاب میں راج ہنس تیر رہا ہو۔
حسن صورت کے علاوہ قدرت نے اسے حسن اخلاق سے بھی نوازا تھا۔ وہ کنول کے اس پھول کی سی تھی جو گدلے پانی میں رہ رہ کر بھی اپنے آپ کو صاف شفاف رکھتا ہے۔ وہ اس تحریک سے بھی متاثر تھی جو اس کے بھائی مجیب بی اے علیگ نے چلا رکھی تھی۔ مجیب کا کہنا تھا انسان اشرف المخلوقات ہے۔ اس کا مقصد حیات بہت اعلٰی ہے۔ لہٰذا ہمیں اپنے طور طریقے بدلنا ہوں گے۔ یہ انداز اور ڈھنگ جو ایک مدت سے چلے آ رہے ہیں، انہیں خیرباد کہنا ہو گا۔ انہیں ترک کرنا ہی ہمارا حاصل زندگی ہونا چاہئے۔
وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر54 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
چھڑکاؤ کرنیوالی گاڑی کو گزرے کافی دیر ہو چکی تھی۔ سڑک کے دونوں طرف کچی زمین سے سوندھی سوندھی خوشبو یوں اٹھ رہی تھی جیسے برسات کا پہلا چھینٹا پڑنے پر پیاسی زمین مہک اٹھتی ہے۔ بہار کی سہانی شام تاریکی میں ڈوب رہی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے بجلی کے بلب روشن ہو گئے۔ حویلیوں کے جھلمل کرتے پردوں سے روشنی چھن چھن کے باہر آنے لگی۔ تکیہ کرم شاہ کے اس طرف کی دکانیں جگمگا اٹھیں۔ پورے بازار میں زندگی کی لہر یوں دوڑ گئی جیسے الہڑ جوانی انگڑائی لے کر اٹھ کھڑی ہوئی ہو۔ ایسے میں چھم سے مہاراجہ کی سواری لال حویلی کے سامنے آ کر رکی۔ آگے مہاراجہ کی فلیگ والی رولز رائس، اس کے پیچھے سفری گاڑیاں تھیں۔
مہاراجہ شکار کھیل کر شکاری پارٹی کے ساتھ اپنے محل لیلابھون جا رہے تھے کہ اچانک ادھر رخ کر لیا۔ وہ بڑی تمکنت کے ساتھ اپنے مصاحبین کے پہرہ میں حویلی میں داخل ہوئے اور غلام گردش میں سے ہوتے ہوئے اپنے کمرے خاص میں تشریف لے گئے۔ سب نے بڑے ادب و احترام سے ان کا استقبال کیا۔ مہاراجہ اپنی زرنگار کرسی پر رونق افروز ہو گئے۔ خادم مورچھل جھلنے لگے اور جب دربار لگ چکا تو میراں کو گانا سنانے کا حکم ملا۔
سازندوں نے فوراً میراں کی طرف دیکھا کہ وہ کوئی راگ شروع کرے مگر وہ خاموش رہی۔ اب انہوں نے خود ہی ایک دھن بنائی اور ساز چھیڑ دئیے۔ میراں پھر بھی خاموش رہی۔ ساز ایسے ہی بجتے رہے۔ سب لوگ سہمے ہوئے مہاراجہ کو پہلو بدلتے ہوئے دیکھتے رہے۔
میراں سازندوں کو راگ بتانے والی تھی کہ مہاراجہ ایک دم گرجے۔ ’’یہ کیسا ساز ہے جو بے آواز ہے‘‘۔ پھر میراں کی طرف مخاطب ہو کر زور دار آواز سے بولے ’’گاؤ میراں گاؤ‘‘۔
آج یہ پہلا موقع تھا کہ میراں مہاراجہ کے سامنے گاتے ہوئے جھجھک رہی تھی۔ اس وقت وہ سخت اضطرابی کیفیت سے دوچار تھی۔ اس کے دل و دماغ میں جنگ جاری تھی جس میں آخر دل کی جیت ہوئی۔ اس نے سازندوں کو راگ ‘‘تلنگ‘‘ بجانے کیلئے کہا۔ ساز چھڑا اور ساتھ ہی میراں کے لب حرکت میں آئے۔
’’رب اپنے جنابوں دیوے تے بندے کولوں کی منگناں‘‘۔
ابھی ساز اور آواز ہم آہنگ بھی نہیں ہوئے تھے کہ مہاراجہ غضب ناک ہو کر بولے۔ ’’یہ کیا پھیکا اور بے کیف گانا شروع کیا ہے۔ بند کرو اسے‘‘۔
یہ کہہ کر غصے سے اٹھے اور پاؤں پٹختے ہوئے حویلی سے باہر نکل گئے۔ حویلی والوں پر جیسے سکتہ طاری ہو گیا۔ وہ سب کے سب میراں پر برس پڑے۔ مگر اس نے ان کی باتوں کا کوئی نوٹس نہ لیا۔ اپنی جگہ پر بالکل مطمئن بیٹھی رہی۔ اسے کسی قسم کی پیشمانی نہیں تھی۔ جب سے اس نے خواب دیکھا تھا۔ اس کی مزاجی کیفیت ہی بدل گئی تھی۔ خواب میں اس نے خود کو ایک بڑی جلسہ گاہ میں دیکھا جہاں تقسیم اسناد ہو رہی تھی اور اسناد حاصل کرنیوالوں میں اس کا نام بھی لکھا جا چکا تھا۔ جونہی تمام لوگ اسناد لے چکے تو اس کا نام پکارا گیا۔ جونہی وہ اسناد لینے سٹیج کی طرف بڑھی، یہ اعلان کر دیا گیا کہ میراں کی اسناد گم ہو گئی ہیں۔ لہٰذا وہ اگلے جلسہ تک انتظار کرے۔ میراں نے یہ خواب مسلسل تین چار بار دیکھا۔ وہ پریشان سی رہنے لگی کہ میرا اگر اعزازات میں نام ہے تو مجھے نوازا کیوں نہیں جا رہا۔ وہ دلی کیفیت کے ابتلا کو دور کرنے کیلئے جعفر شاہ کے مزار پر بھی گئی مگر اسے قرار نہ آیا۔
دنوں پر دن گزرتے گئے۔ محل والوں کو مہاراجہ کے عتاب کی فکر کچوکے لگاتی رہی۔ بالاخر وہ دن بھی آ پہنچا۔ بہار کے کیف آور موسم میں مہاراجہ کی سواری نے ایک بار پھر ادھر کا رخ کر لیا تھا۔ موتی محل سے لیلابھون تک سجاوٹ کے نئے نظارے دیکھنے کو مل رہے تھے۔ ادھر حویلی والوں کے تو پاؤں زمین پر نہیں لگ رہے تھے۔ خوف و مسرت کی ملی جلی کیفیت میں ایک بھاگم بھاگ مچی تھی۔ مہاراجہ تمکنت کے ساتھ اپنے مخصوص کمرے میں گئے۔ وہ اپنی زرنگار کرسی پر بیٹھنے کی بجائے زری گاؤں تکیہ کے سہارے بیٹھ گئے۔ میراں مجرا بجالائی۔ اس کی آنکھوں میں نہ شرمندگی تھی نہ خوشی۔ بس خاموش نگاہوں سے مہاراجہ سے کچھ فاصلے پر سازندوں کے درمیان بیٹھ گئی۔
پھر جونہی میراں نے سازندوں کو ایک غزل چھیڑنے کا حکم دیا، مہاراجہ بول اٹھے۔
’’نہیں میراں آج پھر وہی گاؤ۔ رب اپنی جنابوں دیوے تے بندے کولوں کی منگنا‘‘۔
میراں نے گھبرا کر بھاری پلکیں اٹھائیں اور اس کے لب استفہامیہ انداز میں کھل گئے۔
’’ہاں میراں! ہم تم سے وہی سننے آئے ہیں۔ جو ایک بار سننے سے انکار کر چکے ہیں‘‘۔
میراں نے حکم کی تعمیل کی۔ مہاراجہ سر جھکائے سنتا رہا۔ جب ساز اور آواز تھمے تو مہاراجہ کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر چکی تھیں۔ ان کا لہجہ گلوگیر تھا۔
’’میراں تو نے ہماری کایاپلٹ دی ہے۔ بتاؤ تمہاری کیا سزا ہے‘‘۔
میراں نے سر جھکا دیا۔ ’’جو حضور بہتر خیال کرتے ہیں۔ میراں ہر سزا بخوشی قبول کرے گی‘‘۔
مہاراجہ لمحہ بھر خاموش رہے پھر کہا۔ ’’تو پھر تمہاری سزا یہ ہے کہ کل سے تم ہماری لیلابھون میں چکی بھرو گی‘‘۔
’’سبحان، سبحان۔۔۔ کیا سزا فرمائی ہے حضور؟‘‘ درباریوں نے مہاراجہ کو تحسین پیش کی۔
میراں اٹھی اور مہاراجہ کو کورنش بجالائی۔ ’’حضور کی بندہ پروری ہے کہ کنیز کو اس اعزاز سے نواز رہے ہیں‘‘۔
’’میراں یہ تمہارا فن تھا‘‘۔ مہاراجہ نے کہا۔ ’’کل ہماری گاڑی تمہیں لینے آئے گی‘‘۔
میراں کی اداس طبیعت ہشاش بشاش ہو گئی۔ معاً اسے خواب یاد آ گیا۔
’’میراں! انعام تو طے ہو گیا ہے مگر کیا معلوم ملے بھی یا کہ ناں‘‘۔ میراں نے سوچا۔ ’’مہاراجہ حضور کا کیا پتہ، یہ اعزاز واپس لے لیں‘‘۔
وہ اسی سوچ و بچار میں گم رہی۔ چکی بھرنا سزا نہیں ایک بیش قیمت اعزاز تھا جو گائیک کو مہاراجہ کی طرف سے دیا جاتا تھا۔ لیلابھون میں صبح دم ڈیوڑھیوں میں خدا کی حمد و ثناء اور بھجن گانے کو چکی بھرنا کہتے تھے۔ مہاراجہ نے میراں کو اس کام کیلئے پانچ سو روپے ماہوار وظیفہ دینے کا بھی اعلان کیا۔
’’راج محل والوں نے ساری رات آنکھوں میں کاٹی۔ صبح ہوئی تو مہاراجہ کی گاڑی میراں کو لینے آ گئی۔ میراں سادگی کا مرقع بنی سفید ساڑھی میں جب لیلابھون پہنچی تو اس کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ اب میراں ہے اور لیلابھون کی صبح و دم تازہ فضا۔ وہ جب حمد و ثناء کیلئے اپنے لب کھولتی ہے تو پورا بھون سرشاری اور بے خودی سے جھومنے لگتا ہے۔‘‘
بھولو نے نور خاں صفی سے میراں کی کہانی بڑی دلچسپی سے سنی تو کہا۔ ’’نور بھائی، کیا میں میراں کو دیکھ سکتا ہوں‘‘۔
نور خاں صفی نے گہری سانس بھری۔ ’’بھولو جی اگر یہ ممکن ہوتا تو آج میں اس پرسوز آواز کا دیدار ضرور کر چکا ہوتا‘‘۔
بھولو نے استفہامیہ انداز میں دیکھا۔ ’’بھلا ایسی کون سی بات ہے‘‘۔
’’مہاراجہ حضور نے میراں کو مکمل آزادی دے رکھی ہے کہ وہ اپنی مرضی سے جس کو درشن کرانا چاہے کرائے۔ اس پر کوئی پابندی نہیں۔ حتٰی کہ میراں اگر نہ چاہے تو مہاراجہ حضور بھی اس سے نہیں مل سکتے۔ مہاراجہ میراں کی بڑی عزت کرتے ہیں۔ وہ بھی اللہ کی بندی ہر وقت اللہ کے گیت گاتی رہتی ہے‘‘۔
پہلوانوں کی ریاضت کا سمے ہو چلا تھا۔امام بخش، بھولو، اچھا اور دوسرے جوانوں کو اٹھا کر لیلابھون کے اکھاڑے میں لے گئے۔ مہاراجہ نے یہ اکھاڑہ چند روز قبل ہی کھدوایا تھا اور گاماں سے کہا تھا کہ وہ جب تک یہاں ہیں بھولو کو اسی اکھاڑے میں زور کرائیں۔ویسے تو پٹیالہ میں گاماں کی اپنی بھی حویلی تھی جو مہاراجہ نے انہیں بخشی ہوئی تھی۔ رات کے دو بجے تمام جوان اکھاڑے میں اپنی ریاضت کر رہے تھے۔ تین گھنٹے کے بعد جب تمام پہلوان ریاضت مکمل کر چکے تو واپس اپنے اپنے سکونت خانے میں چل دئیے۔ یہی وقت تھا جب میراں خدا کی حمد و ثناء میں مشغول ہو جاتی تھی اور لیلابھون میں اللہ کا نام گونجنے لگتا تھا۔ بھولو اس وقت بڑی راہداری سے گزر رہا تھا جب بھجن گانے والوں نے اپنے اپنے سازوں کو چھیڑا۔ تھوڑے وقفے بعد وہی مانوس آواز گونجنے لگی۔ بھولو کو درودیوار جھومتے دکھائی دینے لگے۔ اس کا دل ایسا تو نہ تھا مگر نہ جانے کیا ہوا کہ اس کے سراپے کو دیکھنے کیلئے مچل اٹھا۔
بھولو نے لیلابھون کے چوباروں کا رخ کیا۔ آواز میں سوز بڑھتا ہی چلا جا رہا تھا۔ بھولو کو اپنا دل گرفت سے نکلتا محسوس ہونے لگا۔ اسے یوں لگ رہا تھا جیسے کوئی انجانی طاقت اسے اپنی طرف کھینچ رہی ہے اور بھولو بے بسی سے کھینچتا چلا جا رہا ہے۔
تھوڑی دیر بعد بھولو چوبارے کی سیڑھیوں کے پاس کھڑا تھا۔ محافظ ننگی تلواریں لئے پہرہ دے رہے تھے۔ انہوں نے بھولو پہلوان کو دیکھا تو ادب سے کھڑے ہو گئے۔ دونوں ہندو تھے۔ آگے بڑھے اور بھولو کے چرن چھو کر بولے۔ ’’آج تو بڑا کرم ہوا ہے۔ بھگوان کے درشن ہو گئے ہیں‘‘۔
بھولو نے ان کی سنی ان سنی کی اور بے خودی سے اوپر چوبارے کی طرف دیکھنے لگا۔ اس کے قدم چوبارے کی اوپری طرف اٹھ گئے۔ محافظ بھولو کے عقیدت مند تھے۔ وہ اسے روک نہ سکے۔ بھولو جب چوبارے کے اس مقام پر پہنچا جہاں سفید ساڑھی میں لپٹی میراں مغرب کی طرف چہرہ کئے خدا کے گن گا رہی تھی، نہ کوئی ساز تھا مگر آواز پھر بھی سوز سے بھرپور اور گونجدار تھی۔ بھولو مکمل یکسوئی سے ماحول کے ترانے میں گم تھا۔ پھر جیسے ہی اسے ہوش آ گیا۔ وہ الٹے قدموں نیچے اترا۔ ابھی وہ آخری سیڑھی پر تھا جب آواز تھم گئی۔ (جاری ہے )
وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر56 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں