اسلام آباد میں تباہی پر از خود نوٹس تو بنتا ہے

اسلام آباد میں تباہی پر از خود نوٹس تو بنتا ہے
اسلام آباد میں تباہی پر از خود نوٹس تو بنتا ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


اسلام آباد میں بارش کے بعد سیلابی ریلوں سے ہونے والی تباہی نے کراچی کی یاد تازہ کر دی ہے۔لوگ سوشل میڈیا پر وزیراعظم عمران خان کا وہ وڈیو کلپ وائرل کرتے رہے، جس میں وہ بلاول بھٹو زرداری کی اس بات کا تمسخر اڑاتے ہیں کہ زیادہ بارش آتی ہے تو زیادہ پانی آتا ہے۔اسلام آباد جیسے شہر کا ای الیون سیکٹر جس تباہی سے دوچار ہوا اور ایک ماں بیٹا بھی گھر میں داخل ہونے والے پانی میں ڈوب کر جاں بحق ہوگئے،اس نے خطرے کا الارم بجا دیا ہے۔ اس حوالے سے جو تلخ حقیقت سامنے آئی وہ یہ تھی کہ سی ڈی اے افسران کی نااہلی اور کرپشن کے باعث برساتی نالوں کی گذر گاہیں بھی بیچ دی گئیں۔ اسلام آباد انتظامیہ اور سی ڈی اے کی ملی بھگت سے پرائیویٹ ہاؤسنگ سوسائٹیز نے ان پر بڑے بڑے پلازے کھڑے کر دیئے، جبکہ نکاسی  آب کا کوئی بندوبست نہیں۔ای سیکٹر کے مکینوں نے بتایا تھوڑی سی بارش بھی ہو جائے تو یہ علاقہ ندی نالوں کا منظر پیش کرنے لگتا ہے۔

28جولائی کو چونکہ بہت تیز بارش ہوئی اس لئے بڑی تباہی کا باعث بن گئی۔ گاڑیاں پانی میں بہہ گئیں، پانی گھروں اور دکانوں میں داخل ہو گیا، بیسمنٹ والے گھر اور پلازے سب سے زیادہ متاثر ہوئے، اس تباہی کے بعد سی ڈی اے کے حکام جاگے اور انہوں نے گونگلوؤں سے مٹی جھاڑتے ہوئے اعلان کیا،جن نجی سوسائٹیز نے نالوں پر تعمیرات کی ہیں اُن کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ یہ تو کراچی جیسی صورتِ حال ہے جہاں سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ایسی عمارتوں کی منظوری دیتی رہی،جو چائنا کٹنگ اور غیر قانونی زمینوں پر تعمیر کی جا رہی تھیں، جب کراچی ڈوبنے لگا تو ان کی کرپشن کا پول کھل گیا، جس پر سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیا۔گجر نالے پر بنی تعمیرات گرانے کا حکم دیا اور بعدازاں بڑے بڑے پلازے، شادی ہالز اور ٹاور گرا دیئے گئے۔کیا یہ کراچی سے ملتا جلتا کیس نہیں ہے،جس پر یکساں احکامات جاری کرنے کی ضرورت ہے۔


اسلام آباد تو ایک بہت منظم شہر ہے، اس کا باقاعدہ ایک ماسٹر پلان موجود ہے۔ دعویٰ یہ کیا جاتا ہے ماسٹر پلان کے برعکس کوئی تعمیر نہیں ہو سکتی،پھر یہ کرپشن کی گنگا کیسے بہتی رہی، کیسے ماسٹر پلان سے ہٹ کر ہاؤسنگ کالونیاں بنانے کی اجازت دی جاتی رہی۔اسلام آباد میں زمین سونے کے بھاؤ بکتی ہے،برساتی راستوں پر قبضے کر کے اربوں روپے لوگوں سے بٹورنے والے مافیا میں کون کون لوگ شامل ہیں، صرف سی ڈی اے کے حکام ہی نہیں،اسلام آباد کی بلدیہ بھی اس کی ذمہ دار ہے۔ بارش نے اس کرپشن کا پول کھول دیا ہے، تاہم چونکہ مافیا کے ہاتھ بہت لمبے ہیں، اِس لئے وہ اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرے گا۔سی ڈی اے اپنا گند خود صاف کیسے کر سکتا ہے،جیسے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور کے ایم سی نے سارے غیر قانونی کام کئے اور پھر اُن پر پہرہ دیتی رہیں۔اگر سپریم کورٹ ازخود نوٹس نہ لیتی تو چائنا کٹنگ کا پتہ چلنا تھا اور نہ یہ راز کھلنا تھا کہ گجر نالے کو بھی بیچ دیا گیا ہے۔ اس لئے یہ ضروری ہو گیا ہے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اسلام آباد کی صورتِ حال کا ازخود نوٹس لیں۔آج ای الیون سیکٹر ڈوبا ہے، کل کوئی دوسرا علاقہ ڈوب سکتا ہے، جب تک سپریم کورٹ ماسٹر پلان کے مطابق اسلام آباد سے ناجائز تعمیرات ختم کرنے کا حکم نہیں دیتی اور برساتی نالوں کی گذر گاہوں کو دوبارہ اصل حالت میں بحال کرنے کا فیصلہ نہیں کرتی، اُس وقت تک اسلام آباد پر سیلابی ریلوں کی تلوار لٹکتی رہے گی اور لوگوں کی اربوں روپے کی جائیدادیں تباہ ہونے کی خطرات منڈلاتے رہیں گے۔


ایک زمانہ تھا اسلام آباد کی خوبصورتی دُنیا میں ایک مثال بنی ہوئی تھی، یہ خوبصورتی اب بھی موجود ہے،لیکن صرف چند سیکٹر تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ باقی شہر کا وہی حال ہوتا جا رہا ہے،جو کسی بھی غیر منظم شہر کا ہوتا ہے،حالانکہ یہ شہر ایک ماسٹر پلان کے تحت بسایا گیا تھا،مگر حکومتوں کی آشیر باد اور سیاسی دباؤ پر ماسٹر پلان کی خلاف ورزی ہوتی رہی، سب سے کرپٹ محکمہ خود سی ڈی اے ثابت ہوا،جس نے غیر قانونی ہاؤسنگ کالونیوں کی اجازت دی، بر لب سڑک پلازے تعمیر کروائے، سرکاری زمینوں کو بیچا حتیٰ کہ بارش کے پانی سے پیدا ہونے والی سیلابی صورتِ حال سے نمٹنے کے لئے جو برساتی نالے ماسٹر پلان میں رکھے گئے تھے، انہیں بھی بیچ کھایا، آج اسلام آباد کے بعض سیکٹرز گندگی، بڑھتی ہوئی آبادی اور پھیلتے ہوئے جرائم کی وجہ سے اس شہر کے لئے دردِ سر بن گئے ہیں۔ بعض علاقوں میں جرائم کی شرح ناقابل ِ بیان ہے اور سٹریٹ کرائمز معمول بن گئے ہیں۔گزشتہ چند ہفتوں سے اسلام آباد کا ذکر ایسے سنگین جرائم کے حوالے سے ہو رہا ہے، جن کا عام حالات میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ عثمان مرزا اور نور مقدم کیسز اس کی سب سے بڑی مثال ہیں، سوچنے کی بات ہے ایک ایسے شہر میں یہ سب کچھ کیسے ہوتا رہا،جہاں اقتدار کے ایوان بھی ہیں اور ملک کی سب سے بڑی عدالت بھی، جہاں ایک سے بڑھ کر ایک بڑا افسر موجود ہے،مگر اس کے باوجود یہاں زمینوں کی لوٹ سیل لگائی گئی اور اس کے ماسٹر پلان کی دھجیاں اڑائی جاتی رہیں۔


ابھی تو بارش نے صرف ایک سیکٹر کے حالات کا بھانڈا پھوڑا ہے،نہ جانے باقی سیکٹروں کا کیا حال ہے،اس پر تو ابھی پردہ ہی پڑا ہوا ہے۔یہ پردہ سپریم کورٹ ہی ہٹا سکتی ہے تاکہ یہ حقیقت سامنے آئے، اس خوبصورت شہر کے ساتھ ہوا کیا ہے اور ہو کیا رہا ہے۔اسلام آباد ایک شہر ہی نہیں ملک کا دارالخلافہ بھی ہے۔اس کے حوالے سے بری خبریں عالمی سطح پر پورے ملک کی بدنامی کا باعث بنتی ہیں۔ ای الیون سیکٹر میں جو کچھ ہوا اُسے پوری دنیا کے میڈیا نے دکھایا۔وائس آف امریکہ، بی بی سی، سی این این اور دیگر بڑے بڑے چینلوں پر تباہی کے مناظر دکھائے گئے، حالانکہ یہ اسلام آباد کے صرف ایک سیکٹر میں ہوا، لیکن میڈیا نے تاثر یہ دیا جیسے پاکستان کا دارالخلافہ ڈوب گیا ہے،ابھی تو برسات شروع ہوئی ہے، آگے نہ جانے کیا ہوتا ہے۔ اگر پورے اسلام آباد میں برساتی نالوں کی صفائی نہ کی گئی، اُن پر تعمیر ہونے والی عمارتیں نہ گرائی گئیں اور پانی گزرنے کے راستے مسدود رہے تو سیلابی ریلے پھر طوفان مچا سکتے ہیں۔سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد اگر اس کا ازخود نوٹس لیں تو شاید اسلام آباد مزید تباہی سے بچ جائے،وگرنہ کرپٹ مافیا کی نظریں تو اس پر ہمیشہ سے گڑی ہوئی ہیں۔

مزید :

رائے -کالم -