جمہوریت کی قسمت کھوٹی نہ کریں

جمہوریت کی قسمت کھوٹی نہ کریں
جمہوریت کی قسمت کھوٹی نہ کریں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

یہ افسوسناک حقیقت ہے کہ ملکی سیاست میں قومی ایشوز پر سنجیدگی سے غور و فکر کرنے، مسائل کا باریک بینی سے منطقی اور غیر جذباتی انداز میں جائزہ لینے اور اتفاق رائے کے جمہوری طریقہ کار پر اپنے پختہ یقین کو ثابت کرنے میں سیاسی جماعتوں نے قوم کو خوشیوں سے کم ہی نوازا ہے، حالیہ مردم شماری اور حلقہ بندیوں کے ایشوزکو لے لیں، پاکستان میں 20 سال سے مردم شماری نہیں ہوئی تھی، آخری مردم شماری 1998 میں میاں نواز شریف کی حکومت نے کرائی تھی۔اب ایک بار پھرسپریم کورٹ کے حکم پر میاں نوازشریف کی حکومت میں پاک فوج کی زیر نگرانی ملک بھر میں مردم شماری کروائی گئی ہے۔

نئی مردم شماری کے بعدنئی حلقہ بندیوں کے بغیر 2018 کے انتخابات آئینی طور پرممکن نہیں ۔


الیکشن کمیشن کے مطابق نئی حلقہ بندیوں کے لئے آئینی ترمیم ضروری ہے،اس لئے ووٹرلسٹوں اور حلقہ بندیوں کا کام بھی رکا ہوا ہے،ایک ایک دن کی تاخیر بروقت انتخابات کے التواکا خدشہ پیدا کررہی ہے۔ الیکشن کمیشن کو انتخابات سے چار ماہ پہلے اپنی تیاریوں سے آگاہ کرنا ہوتا ہے۔

الیکشن کمیشن بڑے عرصے سے شماریات ڈویژن اور وزارت قانون کو آئینی ترمیم کے سلسلے میں بار بار ا پنا موقف دیتا رہا ہے کہ ہمیں اس کی جلد ضرورت ہے ،کیونکہ تمام تیاریاں اسی سے منسلک ہیں۔ 28اکتوبر کو چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں سیکرٹری شماریات ڈویژن اور سیکرٹری لاء اینڈ جسٹس نے یقین دہانی بھی کرائی تھی، جبکہ الیکشن کمیشن نے ان کو 7دن کا وقت دیا تھاکہ حلقہ بندیوں کے لئے مطلوبہ آئینی ترمیم اور شماریات سے مطلوبہ نقشہ جات اور ڈیٹا فراہم کریں۔ الیکشن کمیشن نے ان کو 10نومبر تک کا وقت دیا تھا تاکہ وہ اپنا کام شروع کرسکے۔ الیکشن کمیشن کی مطلوبہ تیاریاں مکمل ہیں، مگر ان دونوں کاموں کی وجہ سے کام رکا ہوا ہے۔


حکومت نے انتہائی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے نے نئی حلقہ بندیوں کے لئے قومی اسمبلی میں آئینی ترمیم کا بل پیش کیا، لیکن اپوزیشن کی مخالفت کے باعث نمبر گیم پورے نہ ہونے پر منظوری حاصل کرنے میں ناکام رہی،کیونکہ بل کی منظوری کے لئے دو تہائی اکثریت یعنی 228 ارکان موجود نہیں تھے،جس کے بعد سپیکر نے آئینی ترمیم کے بل پر اتفاق رائے کے لئے تمام جماعتوں کے پارلیمانی رہنماؤں کا اجلاس طلب کیا تو تمام جماعتوں کے پارلیمانی رہنماؤں نے سپیکر کی موجودگی میں بل پر اتفاق کیا۔

اورایک روز بعد قومی اسمبلی کا اجلاس ہواتو وزیر قانون نے جب دوسری بارآئینی بل ایوان میں پیش کیا تو اپوزیشن نے پھربل پر اعتراضات اٹھادیئے ۔سپیکر کی زیر صدارت پارلیمانی لیڈرز کانفرنس میں مسودے کی حمایت کرنے والی اپوزیشن جماعتوں نے ایوان میں بل کی مخالفت کرتے ہوئے واک آؤٹ کردیا جس پر اجلاس ملتوی کرنا پڑا،کیونکہ بل کی منظوری کے لئے مطلوبہ ارکان ایوان میں موجود نہیں تھے۔


افسوس اس بات پر ہے کہ تمام جماعتوں کے پارلیمانی رہنماؤں نے سپیکر کی موجودگی میں بل پر اتفاق کیا، لیکن ایوان میں جا کر مخالفت کردی۔دلچسپ بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کی رکن شیریں مزاری نے کہا کہ ان کی جماعت نے پارلیمانی رہنماؤں کے اجلاس میں آئینی ترمیم کی حمایت کی، لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ حکومت دیگر سیاسی جماعتوں کے تحفظات نظرانداز کرے۔

جب کہ ایم کیوایم پاکستان کے ڈاکٹر فاروق ستار کا موقف تھا کہ مردم شماری کے ملک میں نتائج کو تسلیم نہیں کیا گیا، کراچی کی آبادی کو کم ظاہر کیا گیا ہے، اس لئے ایم کیو ایم پاکستان کسی صورت بل کی حمایت نہیں کرے گی۔ پیپلزپارٹی کے پارلیمانی لیڈر سید نوید قمر نے یہ منطق پیش کی کہ بل کے لئے قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے، اسے عجلت میں نہ لایا جائے، بلکہ پہلے مشترکہ مفادات کونسل سے منظور کرایا جائے۔

جس پر وزیراعظم نے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس طلب کرکے تمام صوبوں کے وزرائے اعلی سے مشاورت کی اور اتفاق رائے کے بعد بل تیسری با رقومی اسمبلی میں پیش ہوا اور بھاری کثریت سے منظور کرلیا گیا۔اب بل کی سینیٹ سے منظوری درکار ہے، لیکن اپوزیشن خاص طور پر پیپلز پارٹی کی طرف سے ٹال مٹول کا مظاہرہ کیا جارہاہے۔


بات یہ ہے کہ حکومت نے یہ ترمیمی بل سب کی مشاورت سے پیش کیا تھا، اگرکسی جماعت کو ’’اوپر‘‘ سے ہدایات آئی ہیں، یا کوئی مجبوری ہے تووہ حکومت کو بتا دیں، وعدے سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہئے۔

کل تک سب کا آئینی ترمیم پر اتفاق تھا، اب اچانک ایک پارٹی کو اعتراض ہوگیا۔ اراکین کی مجموعی آرا کو پیش نظر رکھا جائے تو اس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ پنجاب کو چھوڑ کر باقی تینوں صوبوں میں مردم شماری پر تحفظات ہیں، گویا ملک گیر مردم شماری جعل سازی، ڈھونگ اور مختلف شہروں میں آبادیاں کم ظاہر کرنے کی کوئی منظم منصوبہ بندی تھی، اس انداز فکر میں خیر کا ساماں بھی نہیں، اس طرز فغاں کا کیا علاج کیا جائے۔ آخر ہماری جمہوریت پسند سیاسی جماعتیں قومی امور پر کب سنجیدہ اتفاق رائے کی قومی روایت ڈالیں گی، یا مسائل ہمیشہ بات کا بتنگڑ بناکر جمہوری ڈھول تماشے میڈیا کی زینت بنتے رہیں گے۔


وقت کا تقاضہ ہے کہ الزام تراشی، بلاجواز محاذ آرائی، رعونت آمیز سیاسی طرز عمل، دانستہ آئینی، قانونی اور تکنیکی معاملات کو متنازعہ بنانے سے بہتر ہے کہ قانونی طریقوں اور جمہوری اسپرٹ کے ساتھ مردم شماری اور حلقہ بندیوں کا معاملہ طے کیا جائے۔

لہٰذا حالیہ ملک گیر مردم شماری کی تکمیل، آئندہ انتخابی حلقوں کی از سر نو تشکیل اور شفاف و منصفانہ الیکشن کے انعقاد کی واضح جمہوری کمٹمنٹ تو یہ ہونی چاہیے کہ مردم شماری نتائج پر اتفاق رائے کا پارلیمنٹ کی طرف سے اپنی غیر مشروط بالادستی کا مثبت پیغام قوم تک جاتا، سیاسی قائدین شفاف الیکشن کے مشترکہ ایجنڈے پر یکسوئی سے سوچ بچار کرکے الیکشن کمیشن حکام کی اس تشویش کا ازالہ کرتے جو انھوں نے10 نومبر تک حلقہ بندیوں کی منظوری نہ ہونے سے نئی مردم شماری کے تحت الیکشن کی تیاری سے معذرت کا انتباہ کیا تھا،لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوسکا۔

لگتا ہے سیاستدان جمہوریت کی قسمت کھوٹی کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔اگر ہم چھٹی مردم و خانہ شماری کو یکسر مسترد کرتے ہیں تو ہم پھر 1998ء میں واپس چلے جائیں گے۔ اورمردم شماری کا سارا عمل اسکریپ ہوجائیگا۔

مزید :

کالم -