درندوں کے شکاری کی سرگزشت...قسط نمبر 46
چیخوں کی آوازیں لمحہ بہ لمحہ بلند ہوتی جارہی تھیں۔ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے یہ آوازیں جہنم کے اندر سے اٹھ رہی ہیں۔میں سن رہا تھا لیکن خوف سے بدن سن ہو چکا تا اور ہلنے جلنے کی قوت بھی باقی نہ رہی تھی۔کچھ یاد نہیں یہ آوازیں کتنی دیر سنائی دیں اور کب بند ہوئی۔غالباً اسی دوران میں بے ہوش ہو گیا تھا۔ ہوش آیا تو میرے اردگرد وہی بیکراں سناٹا طاری تھا اور مچان پر ٹہنیوں کو مضبوطی سے پکڑے بیٹھا تھا۔گھڑی کی سوئیوں پر نگاہ گئی تو تین بج رہے تھے۔کچھ دیر اسی عالم میں گزری تھی کہ کسی نادیدہ حیوان کے دم گھٹنے کی سی گڑگڑاہٹ سنائی دی۔ پھر یہ آواز سیٹی نما سسکیوں میں بدل گئی،جیسے کوئی درندہ ہانپ رہا ہو۔آواز شروع میں بہت مدھم، اتنی کہ نہ ہونے کے برابر، پھر دبی دبی سی جو مسلسل گھٹتی بڑھتی اور تیز ہوتی رہی مگر کچھ بے تکے انداز میں۔۔۔چند لمحے بعد جب میرا ذہن سوچنے سمجھنے کے قابل ہوا تو پتا چلا کہ یہ آواز مچان کے سامنے تقریباً پچاس یا ساٹھ گز کے فاصلے سے آرہی ہے۔
درندوں کے شکاری کی سرگزشت...قسط نمبر 45 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
دس منٹ گزر گئے۔میرے کان اسی سمت میں لگے ہوئے تھے۔آہستہ آہستہ یہ آواز کچھ مانوس محسوس ہونے لگی مگر یقینی طور پر اب بھی کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکا۔کبھی سر کو جھٹکے دیتا، کبھی کانوں میں انگلیاں ڈالتا۔یہ نرم مدھم آوازمیرے سرپرآرے کی مانند چل رہی تھی۔یکایک میرے دماغ میں ایک نئے تصور نے جنم لیا۔اُف خدایا، آخر یہ کیسے ممکن ہے؟میں نے دل میں سوچا۔نہیں،یہ میرا وہم ہے۔۔۔مگر آواز۔۔۔کوئی چپکے چپکے کہہ رہا تھا کہ جنگل کی خاموشی فضا میں گونجنے والی یہ آواز کسی بے کس بچے کی سسکیاں ہیں۔کیا یہ ممکن ہے کوئی بچہ رات کے تین بجے اس بھیانک جنگل میں یوں چیخے چلائے اور سسکیاں بھرے؟ذہن یہ بات قبول کرنے پر کسی طرح آمادہ نہ تھا۔ضرور اس میں کوئی فریب یا دھوکا ہے۔خیال آیا، مچان سے اتروں اور وہاں جاکر دیکھوں کہ کیا معاملہ ہے مگر گارے کے قریب وجوار میں شیر کی نقل و حرکت پیش نظر رکھتے ہوئے ایسا کرنا حماقت ہی ہوتی ہے۔میں نے اپنی ہتھیلیاں کٹورے کی شکل میں منہ کے قریب لاکر پھیپھڑوں کی پوری قوت سے پکار کرکہا:
’’کون ہے؟‘‘
جواب میں گھٹی گھٹی سی چیخ سنائی دی۔پھر دھیمی آواز میں بے ترتیب الفاظ کی تکرار ہوئی، جیسے کوئی ناک میں بولتا ہے۔مجھے یقین ہو گیا کہ یہ آوازیں انسانی ہیں۔اب میں نے اور زور سے آواز دے کر پوچھا:
’’کون ہے؟‘‘ اس بار میں نے صاف پہچان لیا کہ کوئی ستم رسیدہ اور مبتلائے مصیبت آدمی ہے۔تمام احتیاطوں کو بلائے طاق رکھ کر میں چپکے سے ا ترا اور ٹارچ روشن کرکے آواز کی طرف بڑھنے لگا۔
ٹارچ کی روشنی بکھرے ہوئے خشک پتوں پر ایک روشن پگڈنڈی بنا رہی تھی۔ سسکیوں کی آواز گھنی خاردار جھاڑیوں میں گھرے ہوئے ایک سایہ دار اور بلند و بالا درخت کے عقب سے آرہی تھی۔ روشنی کی سفید لکیر اس پار گھومی اور پھر میں نے اسے لمبی گھاس میں دبکے ہوئے دیکھ لیا۔ دہشت سے اس کے معصوم چہرے کا رنگ ہلدی کی طرح زرد تھا اور رخساروں پر آنسوؤں کی لکیروں کے نشان نمایاں تھے اور آنکھیں رو رو کر سوج چکی تھی۔بارہ تیرہ برس کا ایک صحت مند لڑکا پھٹی پرانی قیمض پہنے سردی اور خوف کی وجہ سے بری طرح لرز رہا تھا۔میں نے دو زانو بیٹھ کر ٹارچ کی روشنی اس پر ڈالی اور جہاں تک میری نگاہ نے کام کیا۔وہ زخمی نہ تھا۔ میں نے اسے سہارا دے کر کھڑا کیا اور گود میں اٹھانے کا ارادہ کیا تھا کہ اس نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا:
’’میں اپنے پیروں پر چلوں گا۔‘‘
ہم دونوں مچان پر واپس آئے اور میں نے اس کے گرد کمبل لپیٹ کر پینے کے لیے چائے دی۔جب وہ چائے پی چکا تو میں نے اسے دلا سا دیا اور پوچھا:
’’تم رات کے وقت جنگل میں کیوں آئے؟تمہیں خبر نہیں،یہاں شیر، چیتے اور سانپ پھرتے رہتے ہیں۔اگر شیر تمہیں کھا جاتا تو؟‘‘
وہ پھر سسکیاں بھرنے لگا اور ٹوٹے پھوٹے بے ربط جملوں میں اپنی آپ بیتی سنائی۔اس کا نام ’’بلی‘‘ تھا اور گاؤں کے ان دوشریر لڑکوں میں سے ایک تھا جن کے بارے میں مکھیا نے بتایا تھا کہ وہ مردہ گائے کو دیکھنے کے لیے مویشیوں سمیت جنگل میں گئے تھے اور بعدازاں اپنی نانی کے گھر بھاگ گئے ہوں گے۔بلی نے بتایا کہ مویشیوں میں جب بھگدڑ مچی تو وہ ریوڑ کے بیچوں بیچ کھڑا تھا کہ ریوڑ کے ایک سانڈ کا دھکا لگنے سے گرزا اور بے ہوش ہو گیا۔ اسے یاد نہیں کہ کتنی دیر بے ہوش پڑا رہا۔ آنکھ کھلی تو جنگل میں اندھیرا پھیل رہاتھا۔اسے اپنے اردگرد کوئی مویشی دکھائی نہ دیا اور نہ دوسرے لڑکے کا کہیں پتا تھا وہ بمشکل اٹھا اور گاؤں کی طرف بھاگنے لگا مگر فوراً شیر کی آواز سن کر ڈر گیا۔شیر کی آواز نے اسے اس درجے مفلوج کیا کہ وہ نہ تو حرکت کر سکتا تھا اور نہ حلق سے کسی قسم کی آواز نکالنے پر قادر تھا مگر اس کے چلنے پھرنے کی آواز ضرور سنی تھی۔
’’میں نے سوچا، شیر نے دیکھ لیا تو مجھے ہڑپ کر جائے گا، اس لیے میں جلدی سے جھاڑیوں میں چھپ گیا اور دیر تک وہاں چھپا رہا۔ پھر میں نے سنا کہ شیر بچھڑے کی لاش گھسیٹ کرلارہا ہے۔‘‘
یہ سن کر میں بے اختیار ہنس پڑا،کیونکہ معصوم بچہ جسے شیر سمجھ رہا تھا، وہ دراصل میں خود تھا۔ اگر وہ جھاڑی سے نکل کر دیکھنے کی کوشش کرتاتو شیر کی بجائے مجھے پاتا۔میں نے اسے بتایا:
’’واہ بھئی واہ،تم بھی بڑے ڈرپوک ہو،وہ تو میں تھا۔‘‘
’’نہیں جی،میں نے خود شیر کی آواز سنی تھی۔‘‘لڑکے نے سختی سے کہا:’’شیر جھاڑیوں کے آس پاس پھر رہا تھا۔اس کے ہانپنے کی آواز میرے کانوں میں آرہی تھی، وہ تو مجھے تلاش کررہا تھا، اس لیے میں چپ چاپ جھاڑیوں کے اندر بیٹھا رہا۔کئی دفعہ وہ بالکل میرے قریب سے گزرا۔‘‘
’’جب اس نے تمہیں نہیں دیکھا تو پھر تم چیخے کیوں؟‘‘
’’اس نے تھوڑی دیر بعد مجھے دیکھ لیا اور چپکے سے میرے پیچھے آن کھڑا ہوا۔‘‘بلی نے بتایا اور یہ الفاظ کہتے ہوئے خوف سے اس کی گھگھی بندھ گئی:’’میں اسے دیکھتے ہی چیخنے لگا تو شیر الٹے پاؤں واپس چلا گیا۔ جناب، جب تک میں چیختا رہا، وہ مجھ سے دور رہا لیکن جونہی میں چپ ہوا، وہ دوبارہ میری طرف آیا۔ میں چیخنے لگا، آخر وہ مجھے چھوڑ کر کسی اور طرف چلا گیا۔‘‘
ڈیلی پاکستان کے یو ٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کیلئے یہاں کلک کریں
میں لڑکے کی خوش قسمتی پر عش عش کرنے لگا۔ اس نے جو کہانی سنائی تھی، اس کا حرف حرف صحیح تھا، کیونکہ جنگلی دیہاتوں اور گاؤں کے بچے جھوٹ بولنا اور فریب دینا نہیں جانتے۔میں حیران تھا کہ بھوکا اور غضب ناک ہونے کے باوجود شیر نے ’’جنگل کا بادشاہ‘‘ ہونے کا ثبوت دیا اور اس معصوم بچے کے گوشت اور خون سے پیٹ نہیں بھرا۔شیر کی شرافت اور بہادری کا میں پہلے ہی سے قائل تھا۔ بلی کی داستان سن کر شیر کی ان صفات پر میرا اعتقاد اور پختہ ہو گیا۔(جاری ہے)
درندوں کے شکاری کی سرگزشت...قسط نمبر 47 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں