قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 113
بین الاقوامی اہمیت کے حامل لوگوں کا ذکر تو میں نے کر دیا جو سیاست اور بین الاقوامیت میں اپنا نام رکھتے ہیں ۔ لیکن کچھ نام ایسے بھی ہوتے ہیں جو کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی اپنی ذات کے اندر ایک انجمن ہوتے ہیں۔ اور ان کی کچھ غیر معمولی باتیں ایسی ہوتی ہیں جن کی وجہ سے صفحہ قرطاس پر ان کا نام تادیر باقی رہتا ہے اور وقتاً فوقتاً شہروں شہروں اور محفل محفل ان کا ذکر ماحول کو خوشگوار بنانے کا موجب بنتا ہے ۔ ایسے ناموں میں پنجاب کی ایک شخصیت استاد امام دین کا نام سرفہرست ہے۔وہ جس محفل میں جاتے وہاں میلہ لوٹ لیتے اس لئے بڑے شعرا ایسی محفل میں جانے سے کتراتے تھے ۔
استاد امام دین ایک ایسے شاعر تھے کہ جنہیں اگر آپ فن کے پیمانوں سے ناپیں تو شاید آپ کو مایوسی ہو لیکن جس بے ہنگم انداز سے وہ شعر کہتے تھے وہ سن کے کوئی ہی ایسا شخص ہو گا جو اپنی ہنسی ضبط کر سکے۔ اسی طرح ان کی زندگی کے واقعات کچھ ایسے تھے کہ وہ بس انہی کی زندگی میں رونما ہو سکتے تھے۔ استاد امام دین کا تعلق سرزمین گجرات پنجاب سے تھا۔ وہ ایک کشمیری خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ شکل و صورت بہت عمدہ تھی۔ سرخو سفید رنگ تھا اور اونچا قد۔ شرفائے پنجاب کی طرح ان کا لباس ہوتا تھا اور جب تک وہ خاموش بیٹھے رہیں یا شاعری پر بات نہ کریں تو یوں نظر آتا تھا کہ بہت سمجھدار اور زیرک آدمی ہیں لیکن جس وقت وہ شاعری کی طرف رخ کرتے تھے تو پھر نام بتائے بغیر معلوم ہو جاتا تھا کہ یہ استاد امام دین ہیں۔
قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 112 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ان سے میری بڑی ملاقاتیں دو ہوئیں۔ ایک تو راولپنڈی میں ہوئی ۔ ایک بار یہ وہاں آئے اور ہمیں ان کی آمد کا پتہ چلا تو ہم نے سوچا کہ ہم کتنے ہی بڑے بڑے شاعر وں کا سواگت کر چکے ہیں کیوں نہ انہیں بھی مدعو کیا جائے۔ کیونکہ یہ بھی ایک شہرت یافتہ شاعر ہیں اور پورے ہندوستان میں ان کا طوطی بولتا ہے ۔ چنانچہ ہم سب دوستوں نے مل کر جامع مسجد کے قریب ایک مکان کی چھت پر گیس کی روشنی میں ایک مجلس شعرو سخن کا اہتمام کیا جس کے چیف گیسٹ استاد امام دین تھے۔
ہم نے کہا کہ شعر تو سنیں گے لیکن پہلے ان سے شاعری پر ایک لیکچر کیوں نہ کروا دیا جائے اور دیکھیں کہ شاعری کے سلسلے میں یہ کیسے خیالات رکھتے ہیں۔ اس محفل میں انہوں نے اپنے خطبہ صدارت میں جن خیالات کا اظہار کیا ان میں کام کی باتیں دو تھیں۔ ویسے تو وہ ان کے علاوہ بھی جو جی میں آیا کہتے گئے۔ ان دو باتوں میں سے ایک یہ تھی کہ شاعری ایک ٹارچ ہے اور جہاں اندھیرا ہو وہاں کوئی چیز تلاش کرنی ہو تو ٹارچ اس پر روشنی ڈالتی ہے۔ چنانچہ شعر بھی زندگی کے مختلف مسئلوں پر روشنی ڈالتا ہے ،اس لیے میری نظر میں شعر ایک ٹارچ ہے۔ ان کا یہ مقولہ اس کے بعد مدتوں گونجتا اور کالم نگار مقامی اخبار ات میں یہ مقولہ استعمال کرتے رہے۔ ہمارے دوستوں میں بھی جب کوئی ایسا شعر کہتا تھا جس سے مسائل حاضر پر روشنی پڑتی ہو تو ہم مذاق سے اسے کہتے تھے کہ واقعی آپ کا شعر ٹارچ شعر ہے۔ ٹارچ شعر کا یہ سلسلہ بہت دیر تک چلا۔
پھر انہوں نے ہمیں ایک نظم سنائی جس کا عنوان تھا ’’استاد امام دین دنیا کے ہر رنگ میں‘‘ یہ نظم کچھ یوں تھی:
موٹر نہیں رہا کہ میں سائیکل نہیں رہا
پیڈل نہیں رہا کہ میں ہینڈل نہیں رہا
مجنوں نہیں رہا کہ میں لیلیل نہیں رہا
میں نے سوال کیاکہ آپ نے اس مصرع میں لیلیٰ کو لیلل کیسے بنا دیا۔ تو کہنے لگے کہ برخوردار آپ شاعر کو ایک معمار یا ایک بڑھئی سمجھ لیں۔ جس طرح معمار جب دیوار بنا رہا ہوتا ہے اور کوئی اینٹ اٹھا کر دیوار میں لگاتا ہے اوروہ پوری نہیںآتی تو وہ تیشی لے کے ایک چوتھائی اینٹ کو کاٹ دیتا ہے اور پوری اینٹ کی بجائے تین چوتھائی اینٹ کو لگاکے دیوار کو ٹھیک کر لیتا ہے۔ اسی طرح شاعر کا کام یہ ہے کہ جہاں لفظ فٹ نہ آئے اس لفظ میں سے کوئی حرف نکال دے اور باقی جو لفظ بچے اس سے قافیے کو پورا کرے۔ چنانچہ اس شعر میں لیلیٰ نہیں آتا تھا تو میں نے اسے حسب ضرورت لیلل کر لیا ہے اس طرح شعر کا وزن بھی پورا ہو گیا ہے اور قافیہ بھی ٹھیک آگیا ہے ۔
یہ بات مدتوں ہمارے ذہن میں رہی کہ شاعر معمار یا بڑھئی ہوتا ہے اور اسے بڑھئی کی طرح کے اختیارات بھی ہوتے ہیں۔ اس کے بہت بعد جب بھائی ظفر اقبال کا مجموعہ’’گل آفتاب ‘‘آیا تو انہوں نے لسانی تشکیلات کے نام سے وہی کا م کیا جو استاد امام دین نے کیا تھا۔ اس لیے ہمیں یقین آیا کہ استاد امام دین ٹھیک کہتے تھے۔ وہ کم پڑھے لکھے تھے اس لیے انہوں نے اپنے آپ کو بڑھئی کہہ لیا لیکن ظفر اقبال زیادہ پڑھے لکھے تھے انہوں نے امام دین کے کام کو آگے بڑھا کے پوری ایک کتاب چھاپی اور دیباچے میں بحث کی کہ نئی لسانی تشکیلات آنی چاہئیں ۔ پھر انہوں نے اپنی کتاب میں جو جو کمال دکھائے وہ بھی دیدنی تھے۔ لیکن کہا ں استاد امام دین اور کہاں ظفر اقبال ۔ استاد امام دین میں بے ساختگی تھی جبکہ ظفر اقبال میں ساری تقلید تھی اور ’’گل آفتاب ‘‘ گل ہوکے رہ گیا۔ اور یہ تجربہ آگے نہ بڑھ سکا اور وہ ظفر اقبال جو ’’گل آفتاب ‘‘ سے پہلے ’’آبِ رواں ‘‘ جیسی خوبصورت کتاب دے چکا تھا ایک بار پھر ’’آب رواں ‘‘ کی طرف مڑا لیکن وہ آج تک پھر ’’آب رواں ‘‘ کو پانہیں سکا۔ ہاں استاد امام دین کے مزاج کا کہیں کہیں اس میں ہلکا ہلکا اثر نظر آتا ہے۔
استاد امام دین سے میری دوسری ملاقات مظفر گڑھ کے مشاعرے میں ہوئی۔ یہ مشاعرہ آل پاکستان مشاعرہ تھا۔ اس میں اور بھی مزاحیہ شاعر شریک تھے جن میں مجید لاہوری، سید محمد جعفری ، ظریف جبل پوری اور ضمیر جعفری نمایاں تھے۔ اس کے علاوہ تمام سنجیدہ شعرا، بشمول جناب احمد ندیم قاسمی موجود تھے۔
جب اس مشاعرے میں میں نے استاد امام دین کو دیکھا تو وہ مجھے بہت ہی سنجیدہ نظر آئے۔ حیرت اس بات سے ہوئی کہ انہوں نے قاسمی صاحب کے ایک دو اشعار انہیں سنائے اور کہا کہ مجھے آپ کے یہ اشعار پسند ہیں۔قریب بیٹھے ہوئے سب شاعروں کو استاد صاحب کی یہ بات سن کر حیرانی ہوئی کہ کیا واقعی وہ مطالعہ کے خوگر ہیں۔ اور کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ اوپر سے جو کچھ بنے ہوئے ہیں یہ اندر سے اس کے برعکس ہوں اور ہم انہیں بیوقوف سمجھ رہے ہیں اور یہ ہمیں بیوقوف بنا رہے ہوں۔ چنانچہ اس معاملہ پر استاد صاحب کا کافی دیر ٹیسٹ ہوا اور یہ پتہ چلا کہ وہ باقاعدہ پڑھتے ہیں لیکن عالم یہ تھا کہ جب شعر سناتے تھے تو اس سے یہ تاثر نہیں ملتا تھا ۔ مثال کے طور پر انہوں نے مولانا ظفر علی خان کے ایک مصرع پر تضمین کی۔ ظفر علی خان نے کسی زمانے میں کانگرس اور مسلم لیگ کے اخبارات کے باہمی جھگڑے کے دنوں میں کہا تھا ۔
تو گاندھی جی کی بکری کے لیے بکرا مہیا کر
استاد صاحب نے اس کے ساتھ تین مصرع لگائے:
کچھ تو تو ظاہر کر اورکچھ چھپ چھپا کر
جو بھی تیرے دل میں آئے تو بھیا کر
وہ کلے پر کھڑی ممیاتی اور چلاتی ہے
تو گاندھی جی کی بکری کیلئے بکرا مہیا کر
یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی ان کے یہ شعر سن کر نہ ہنسے۔ وہ جس وثوق اور خود اعتمادی سے اپنا کلام سناتے تھے اس کی وجہ سے انہیں خوب داد ملتی تھی او اس مشاعرے میں بھی سب سے زیادہ داد انہوں نے ہی لی ۔ ان سے پہلے جتنے بھی مزاحیہ شاعر پڑھ چکے تھے وہ ان کا منہ دیکھتے رہ گئے۔ پھر حاضرین کی طرف سے جو فرمائشیں آئیں وہ استاد امام دین کے کلام کے بارے میں ہی تھیں۔ چنانچہ بار بار ان سے کلام سنا گیا ۔ وہاں کسی نے کوئی فرمائش کی تو استاد نے کہا کہ یہ میرے اشعار نہیں ہیں ۔ مجھے یاد آیا کہ اظہر امر تسر ی کبھی کبھی اپنے مزاحیہ کالم میں لکھا کرتے تھے کہ استاد امام دین ایم اے پی ایچ ڈی کی طرف سے کچھ تازہ کلام آیا ہے جس میں یہ اشعار مجھے یاد ہیں۔
تو جنگل کو چھوڑ اور گھر کو چلا آ
تیری ماں نے پکائے مٹر امام دینا
نہ چھیڑو میری پنڈلیوں کو نہ چھیڑو
ان میں ہے درد جگر امام دینا
ڈیلی پاکستان کے یو ٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کیلئے یہاں کلک کریں
اس طرح یہ سب ایک طرح سے الحاق اشعار تھے جو کہ در حقیقت ان کے مجموعہ کلام ’’بانگ دہل ‘‘ میں نہیں ہیں۔ چنانچہ آپ کو جو شعر وزن میں نظر آئے توسمجھ لیجئے کہ کسی اور نے وہ شعر کہہ کے استاد صاحب کے نام میں ڈال دیا ہے ۔ ویسے کبھی کبھی استاد امام دین سے بھی شعروزن میں سرزد ہو جایا کرتے تھے۔
(جاری ہے)