فراڈ کی نئی شکل آن لائن شاپنگ
ایک دولہا بیوٹی پارلر گیا اور وہاں اپنی نئی نویلی دلہن کا میک اپ کرنے والے شخص کو تحفے میں بیش قیمت موبائل دیا ،بیوٹی پارلر والے نے خوشی خوشی اتنے قیمتی موبائل کے ڈبے کو کھولا تو اُس میں سے جو موبائل نکلا وہ انتہائی سستا تھا ، پارلر والے نے حیرت اور پریشانی کے ملے جلے جذبات کے ساتھ دولہا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ جناب عالی یہ کیا مذاق ہے ؟ ڈبہ اتنے مہنگے موبائل کا اور اندر سستا موبائل ؟ دولہا نرم لہجے میں سمجھاتے ہوئے بولا ، بھائی آپ نے بھی تو میرے ساتھ یہی مذاق کیا تھا میں نے بھی جب دلہن کا گھونگٹ اُٹھایا تومجھے بھی آپ جیسی حیرانی ہوئی تھی۔
کچھ عرصہ قبل کہ جب سوشل میڈیا کا دور نہیں تھا توشادی کرانے والے دفاتر میں لڑکے والوں کو خوبصورت لڑکی کی تصویر دکھا کر شادی کسی اور سے کروا دی جاتی تھی ، حجلہ عروسی میں جب دولہا اپنی دلہن کا گھونگٹ اٹھاتا تو اصل حقائق کا علم ہوتا لیکن تب نکاح اور شادی پر اخراجات بھی ہو چکے ہوتے تھے اس لئے صبر شکر کرکے اُس دلہن کو قبول کر لیا جاتا اور ساری عمر پھر اُسی دلہن کے ساتھ گزار دی جاتی ۔ یہی عمل کئی بار لڑکی والوں کے ساتھ بھی ہوا اور لڑکے کی نوجوانی کی تصویر دکھا کر کئی بوڑھے افراد کا بیاہ رچا دیا گیا ۔چاہیئے تو یہ تھا کہ موجودہ اور ترقی یافتہ دور میں میڈیا اور سوشل میڈیا مل کر اس طرح کے فراڈ یا دھوکہ دہی کا سد باب کرنے میں اپنا کردار ادا کرتے مگر افسوس کہ سب اُلٹ ہو گیا سوشل میڈیا نے اس فراڈ اور دھوکہ دہی کو لوگوں پر آشکار کرنے کی بجائے اسے مزید تقویت دینا شروع کر دی ۔ویسے تو سوشل میڈیا میں کئی قباحتیں ہیں لیکن ایک معاملے کا موجد ہونے کا اعزازسوشل میڈیا کو ہی جاتا ہے ،
وہ یہ کہ پہلے پہل اگر کسی مرد کو نسوانی حرکات کی وجہ سے چیک اپ کے دوران ڈاکٹر بتا دیتے کہ آپ میں ایک عورت کے ہارمونز زیادہ ہیں آپ کی جنس تبدیل ہو رہی ہے لہذا فوری آپریشن کرکے آپ کو مرد سے عورت بنایا جائے گا جس پر بہت سے اخراجات ہوں گے ، ایسے بیسیوں واقعات ہیں جن میں مرد آپریشن کے بعد عورت اور کئی عورتیں مرد بن چکی ہیں ، لیکن اب آپریشن کی ضرورت ہی نہیں پڑتی کیونکہ فیس بک ، وٹس ایپ ، میسنجر اور دوسرے زرائع پیغام رسانی میں کئی مرد از خود عورت بن جاتے ہیں اور عورتیں مرد بن کر بات چیت کر نے میں مزہ محسوس کرتی ہیں ۔آئی ڈی پر صنف مخالف کی تصویر لگانے سے ہی جنس تبدیل کر لی جاتی ہے ، پھر بات چیت شروع ہوتی ہے اور فراڈ کی ایک نئی کہانی جنم لے لیتی ہے ، اس کہانی کا پہلا باب مختلف بہانوں سے تحفے کے طور پر رقم منگوانا یا بھیجنا ، موبائل فون میں کریڈٹ کے لئے پیسے منگوانا یا بھیجنا ، سالگرہ کے لئے تحفہ ، بہن یا بھائی کی شادی پر تحفہ ،
تعلیمی نمبروں کے ذریعے پوزیشن لینے پر مبارکبادی اور تحفہ ، محلے میں کسی غریب بیوہ کی بیٹی کی شادی میں مدد کی مد میں پیسوں کی وصولی ، اپنے آپ کو نیک ثابت کرتے ہوئے محلے میں بننے والی مسجد ، مدرسہ ، یتیم بچوں کا سکول یا اس طرح کا کوئی تدریسی ادارہ بنانے میں حسب توفیق مدد لینا اور اس طرح کے بہت سے موضوعات شامل ہیں جس سے از خود تبدیلی جنس والے لوگ ایک دوسرے سے پیسے بٹورتے ہیں ، لہذا یہ سب کچھ سوشل میڈیا کے مرہوں منت ہونا کہنا غلط نہ ہوگا ، یہاں تک رہتا تو شائد ٹھیک رہتا لیکن آج کل سوشل میڈیا پر سادہ لوح لوگوں کو لوٹنے کا ایک نیا طریقہ ایجاد ہو چکا ہے ، مختلف فراڈیئے اور دھوکہ باز سوشل میڈیا کے میدان میں لوگوں کو لوٹنے کا مذموم دھندہ کر رہے ہیں ، یہ گروہ پاکستانی عوام کو مختلف طریقوں سے لوٹ رہا ہے ، ایف آئی اے ، پولیس ،
انتظامی امور کے ادارے یا کوئی بھی ایسا ادارہ جو پاکستانی عوام کو تحفظ دینے کا پابند ہوتا ہے وہ لوگوں کو لوٹنے والے ان افراد کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لے رہا ۔اپنے موبائل کے آگے ڈی ایس ایل آر کیمرے جیسا رزلٹ لینے کے لئے لینز لگائیں وہ لینز 13سو سے 15سو روپے کا آپ کے گھر ڈیلیور کیا جائے گا ، سمارٹ ہونے کی دوائی لیں ، چہرہ خوبصورت بنانے کی کریم ، امپورٹڈ جوگر ، ٹی شرٹ ، پینٹ اور روز مرہ زندگی میں استعمال ہونے والی اشیاء سوشل میڈیا کے زریعے بیچی جا رہی ہیں ،لیکن جب آرڈرز کی ہوئی وہ چیزیںآپ کے پاس پہنچتی ہیں آپ پیکٹ کھولتے ہیں تو اُس وقت ڈاک دینے والا بھی جا چکا ہوتا ہے اور پھر آپ کسی کو چیز کے جعلی ہونے کا ’’ کلیم ‘‘ بھی نہیں کر سکتے ۔جب متعلقہ فون نمبر پر رابطہ کیا جاتا ہے تو وہ چیز کے جعلی ہونے کا کلیم مانتے ہی نہیں ہیں ،
پاکستان میں اب ہر’’ موبائل سم ‘‘کسی کمپنی کے نام یا کسی شخص کو بائیو میٹرک سسٹم کے زریعے دی جاتی ہے یعنی جس نمبر سے فون آتا ہے اُن فراڈ کرنے والی ایجنسیوں یا فرد واحد تک ہمارے سیکیورٹی ادارے فوری طور پر پہنچ سکتے ہیں لیکن اسکے باوجود ایسا دھندہ کرنے والوں کے خلاف کوئی ایکشن کیوں نہیں لیا جاتا سمجھ سے بالا تر ہے ؟کیا یہ سمجھا جائے کہ ہمارے انتظامی ادارے دھوکہ دہی کرنے والوں کی پشت پناہی کرتے ہیں یا وہ اُن سے خوف زدہ ہیں ؟ کچھ بھی ہو سوشل میڈیا پر ایسا فراڈ کرنے والوں کا قلع قمع کرنا بہت ضروری ہے تاکہ سادہ لوح پاکستانی عوام اپنے پیسوں کے ضیاع سے بچ سکیں ،اس کالم میں ایک نشاندہی کرنا چاہتا ہوں فراڈ اور دھوکہ دہی کرنے کے مرتکب افراد کے حوالے سے یہ لوگ فون نمبر 03111555306سے رابطہ کرتے ہیں
اور یہ نمبر راڈو واچ آن لائن شاپنگ کے نام پر رجسٹرڈ ہے یہ گروہ موبائل کے آگے لگانے کے لئے ٹیلی لینز 1299میں فروخت کر رہا ہے جو سراسر فراڈ ہے ، دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کا کون سا جرات مند محکمہ اس گروہ کے خلاف ایکشن لے کر انہیں کیفر کردار تک پہنچاتا ہے ۔ پاکستانی عوام آئی جی صاحبان ، ایف آئی اے کے ڈی جی صاحبان اور صوبوں کے انتظامی امور کے مختلف محکموں کے نمائندگان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان لوٹنے والے گروہوں کے خلاف فوری کاروائی کرکے انہیں گرفتارکریں اور ان پیشہ ور دھوکے بازوں کو قرار واقعی سزا دلانے کے لئے انہیں کٹہرے میں لا کھڑا کریں ۔