انگریز اور برٹش آرمی (3)
میرے ذہن میں کئی بار یہ سوال ابھرا ہے کہ انگریز کے پاس وہ کون سی ایسی ”ادا“ تھی جس پر دنیا کی ساری اقوام مرمٹی تھیں۔ برصغیر ہی کی بات نہیں اس نے تو صدہا برس تک ایشیائی، افریقی اور آسٹریلوی اقوام کو زیرِ نگیں رکھا۔ میرے ذہن میں خواجہ الطاف حسین حالی کی مسدس کا وہ شعر گونجنے لگا جو یہ تھا:
شریعت کے پیمان ہم نے جو توڑے
وہ لے جا کے سب اہلِ مغرب نے جوڑے
مزید غور کیا تو شریعت کے پیمان مندرجہ ذیل معلوم ہوئے:
1۔ عسکری برتری
2۔ عدل و انصاف
3۔ ذوقِ شہادت
یہ بڑے سادہ سے تین اوصاف ہیں جو مسلمانوں نے آنحضورؐ سے سیکھے۔ عسکری برتری کا سوال آیا تو مدینہ کی مکہ پر فتح کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ جب تک مکہ فتح نہیں ہوا تب تک مسلمانوں کی کفار پر برتری حاصل نہیں کی جا سکی۔
دوسرا سوال عدل وانصاف کا ہے۔جب عسکری برتری حاصل ہوجائے تو مفتوح پر زور زبردستی نہیں بلکہ صلہ رحمی، شفقت، عنائت اور مساوات کا چلن عام کرنا ضرورت بن جاتی ہے۔ مسلمانوں نے 800برس تک اس چلن کو اپنایا اور دنیا کے بیشتر حصے پر حکومت کی۔
تیسرا سوال ”ذوقِ شہادت“ کا ہے۔ شہادت صرف مسلمانوں کے ساتھ خاص نہیں۔ برطانیہ کی تاریخ نکال کر پڑھیں۔ انہوں نے اپنے مفتوحین کو چارۂ جنگ نہیں بنایا بلکہ ان کو ہر چھوٹے بڑے جنگی معرکے میں Lead کیا۔ اس ”راہبری“ میں ان کو بار بار موت (شہادت) کا سامنا ہوا لیکن وہ لوگ موت سے نہیں گھبرائے۔ اقبال نے اسی موت (شہادت) کو ”مطلوب و مقصودِ مومن“ قرار دیا تھا، مالِ غنیمت اور کشورکشائی اس ”ذوقِ مرگ“ کے جلو میں آتی ہے۔
اس میں مسلم اور غیر مسلم کی تمیز نہیں۔ ہماری نمازیں اور دیگر عبادات، ذوقِ شہادت سے زیادہ اہم اور بڑی نہیں۔ ”ملا کی اذاں اور مجاہد کی اذاں اور“ کا مفہوم جن اقوام نے بھی اپنایا ان میں انگریز پیش پیش تھے اور آج بھی پیش پیش ہیں۔ ہم آج خوفِ مرگ کے اسیر ہیں۔ جب تک موت کا خوف سر پرسوار رہتا ہے، کوئی فتح حاصل نہیں کی جا سکتی، کوئی ٹیکنالوجیکل بریک تھرو ہاتھ نہیں آتا اور کوئی دولت، دولتِ مرگ سے زیادہ برتر نہیں۔ انگریز کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو اس کو کافر نہ سمجھیں، انسان سمجھیں۔ وہ 1600ء سے لے کر 14اگست 1947ء تک برصغیر پر قابض رہا۔ داخلی اور مقامی جنگوں میں اس نے بارہا جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ آج بھی پاکستان (اور انڈیا) میں گورا قبرستان ہر بڑے شہر میں موجود ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ ایک ”گوری قبر“ کے مقابلے میں سینکڑوں ”بھوری اور کالی قبریں“ بھی موجود ہیں۔
عربوں نے جب روم،شام، عراق و فارس اور سندھ و ہند کو فتح کیا تھا تو جانوں کی پروا نہیں کی تھی۔ اگست 1947ء تک برٹش انڈین آرمی میں بیشتر بٹالین کمانڈرز گورے تھے اور ”کالے“ خال خال تھے۔ یہ گورے اپنی پلٹن کے آگے آگے ہوتے تھے، زخمی ہوتے تھے،مر جاتے تھے لیکن خوفِ مرگ سے بے نیاز رہتے تھے۔ پاک آرمی نے گوروں کی آرمی سے بہت کچھ سیکھا اور اگر آج پاکستان باقی ہے تو صرف اس وجہ سے کہ اس کی افواج نے ”عسکری برتری“ کا اہتمام کر رکھا ہے۔ یہ عسکری برتری افسوس کہ علاقائی ہے اور بین الاقوامی نہیں لیکن ہم نے جوہری قوت کے حصول کے بعد اس کے دیگر لوازمات پر کبھی غور نہیں کیا۔ بس جوہری خول میں بند ہو کر بیٹھ گئے ہیں۔ اللہ کریم ہمیں اس سے باہر نکل کر مشرق و مغرب کی سرحدوں کے پار دیکھنے کی توفیق عطا فرمائے…… آمین……
ہم 1947ء میں قیامِ پاکستان کے فوراً بعد ان اوصاف کاذکر کررہے تھے جس کو اس پاک آرمی نے اس ورثے میں پایا جو ”گورے“ کی آرمی کہلاتی تھی۔ بعد میں ہم نے خواہ مخواہ اس روش کو مطعون قرار دیا…… اس سلسلے میں چند مزید امثال و واقعات قابلِ غور ہیں:
مسٹر صفت اللہ SD-7، جنرل ہیڈکوارٹرز دہلی میں ایک سویلین گزیٹڈ آفیسر تھا۔ اس کی رہائش دریا گنج میں تھی جو لال قلعہ سے ایک میل کے فاصلے پر ہے۔ اس کے تمام ہمسائے غیر مسلم تھے۔ جب فسادات نے دہلی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تو صفت اللہ کے ہمسایوں نے اس کے گھر کی حفاظت میں باری باری ڈیوٹیاں دیں۔
اگست 1947ء میں صفت اللہ کو فیروزشاہ کوٹلہ آفیسرز میس (Mess) میں پہنچا دیا گیا۔ اس نے اپنے ساتھ ایک شاٹ گن، ایک ریوالور اور ایک کمبل لیا اور میس میں منتقل ہو گیا۔ صفت اللہ کا فلیٹ اپنے پورے سامان کے ساتھ ایک ہندو ہمسائے کے سپرد کر دیا گیا جس کا نام کرم چند تھا۔ اس نے صفت کو کہا: ”بھائی صاحب! کسی چیز کی فکرنہ کرنا۔ تمہاری ایک ایک چیز تمہیں مل جائے گی“۔
میجر نثار قریشی شملہ میں ہسٹاریکل سیکشن میں کام کررہا تھا۔ 31اگست 1947ء کو اسے پاکستان آرمی کا اسسٹنٹ ملٹری سیکرٹری پوسٹ کیا گیا۔ اسے کہا گیا کہ وہ دہلی میں بریگیڈیئر ناصر علی کو رپورٹ کرے۔ بریگیڈیئر ناصر علی کو پاکستان آرمی کا ملٹری سیکرٹری مقرر کیا گیا تھا۔
میجر نثار نے اپنی فیملی گرینڈ ہوٹل شملہ میں چھوڑی اور خود شملہ سے ایک سٹاف کار کے ذریعے انبالہ روانہ ہوا۔ انبالہ سے دہلی پہنچنے کے لئے اسے فیلڈ مارشل آکنلک کے جہاز میں ایک سیٹ مل گئی۔
دہلی میں میجر نثار کی ملاقات لیفٹیننٹ کرنل لطیف سے ہوئی جو سیکرٹری پارٹیشن کونسل تھا۔ لطیف نے نثار کو کہا کہ اپنی فیملی کو انبالہ منگوائے جہاں سے اسے بذریعہ ہوائی جہاز پاکستان بھیجا جائے گا۔ نثار نے اپنے ایک ہم جلیس کو شملہ فون کیا۔ اسے بتایا گیاکہ اس کی فیملی ایک سپیشل کانوائے کے ساتھ انبالہ بھیج دی گئی ہے۔اس کے بعد نثار نے ایک سابق دوست، سکواڈرن لیڈر مہرہ کو انبالہ میں فون کیا۔ اس کی فیملی نے وہ شب مہرہ کے ہاں گزاری۔ اگلے روزان کو دہلی جانے والے ایک جہاز میں سوار کر دیا گیا۔ دہلی میں وہ لوگ میجر جے۔ ایل کاما (J.L.Kama) کے ہاں ٹھہرے۔11ستمبر 1947ء کو میجر نثار اور اس کی فیملی کو جنرل میسروی کے جہاز میں راولپنڈی پہنچا دیا گیا۔
یکم ستمبر 1947ء کو 3/10بلوچ سیالکوٹ میں مقیم تھی۔ میجر افتخارجنجوعہ اس کا قائم مقام کمانڈانٹ تھا۔ سیالکوٹ میں بعض مقامات پر فسادات ہوئے تھے جن پر افتخار نے بڑی خوش اسلوبی سے قابو پا لیا تھا۔
ایک روز ایک لوکل لیڈر نے افتخار سے ملاقات کی اور دورانِ ملاقات بتایا”سر! ہم بعض مکانوں کی تلاشی لے رہے ہیں۔ براہ مہربانی آپ مداخلت نہ کریں“۔افتخار نے اس لیڈر کو فوراً وہاں سے نکل جانے کا حکم دیا اور وارننگ دی کہ: ”جس کسی نے بھی قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کی اسے گولی مار دی جائے گی!“
اوائل اگست 1947ء میں میجر بختیار رانا 2/18 گڑھوال رائفلز کا سیکنڈ ان کمانڈ تھا۔ 11اگست کو بٹالین امرتسر پہنچی تاکہ ان قافلوں کی حفاظت کرے جو دونوں ملکوں کے درمیان آ جا رہے تھے۔ گڑھوال کے جوانوں نے اپنے مشن کی پاسداری میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا۔
اکتوبر 1947ء میں 2/15پنجاب کو ہاٹ میں تھی۔ بٹالین کو حکم ملا کہ ایک سو کے قریب غیر مسلم خاندانوں کو پارا چنار سے نکال کے لانا ہے۔ میجر سردار سیکنڈ ان کمانڈ تھا، اس نے ایک کمپنی ہمراہ لی اور ان خاندانوں کو پاراچنار سے کوہاٹ لے آیا جہاں شب بسری کے لئے ان کو ایک کیمپ میں رکھا گیا۔
کیمپ کے چاروں طرف مسلمان محافظوں کا پہرا لگا دیا گیا۔ ایک رات میجر مظفر الدین کیمپ کا راؤنڈ لگا رہا تھا۔ اسے معلوم ہوا کہ کوئی شخص چھپ کے کیمپ کی طرف بڑھ رہا ہے۔ مظفر الدین نے بلند آواز میں للکارا: ”جو بھی ہے سامنے آ جائے ورنہ……“ معلوم ہوا یونٹ ہی کا ایک جوان ہے۔ مظفر الدین نے پوچھا: ”یہاں کیا کر رہے ہو؟“…… اس مشتبہ شخص کے ہاتھ میں ایک بالٹی تھی جو دودھ سے بھری ہوئی تھی۔ اس نے جواب دیا: ”سر! کیمپ میں موجود ان پناہ گزینوں کے ننھے بچے رو رہے تھے۔ مجھے یقین ہے ان کو دودھ کی ضرورت ہو گی“۔(جاری ہے)