مشہور ازبیک مصورہ وادیبہ منیرا رمضانوا سے یادگار مکالمہ

مشہور ازبیک مصورہ وادیبہ منیرا رمضانوا سے یادگار مکالمہ
مشہور ازبیک مصورہ وادیبہ منیرا رمضانوا سے یادگار مکالمہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

بخارا جیسے تاریخ ساز قدیمی صوبے کے شہر کوگن میں پیدا ہونے والی منیرا رمضانووا نہایت منجھی ہوئی خاتون صحافی اور مشہور مصورہ ہیں۔انہوں نے اپنی تعلیم کمال الدین بہزاد نامی قومی مصوری اور ڈیزائن یونیورسٹی سے ’’آرٹ پر تنقید‘‘نامی فیکلی سے ماسٹر ڈگری حاصل کی۔وہ تصویریں بھی بناتی اور مضامین بھی لکھتیں،مشہور ازبیک شاعروں مصوروں اور ادیبوں سے انٹرویو بھی کرتی ہیں۔انکے مضامین ازبیکستان کے مختلف اخبارات و جرائد میں ازبیک زبان میں شائع ہوتے ہیں۔چندروزہ پہلے ان سے ملاقات ہوئی تو ہم نے ازبیک خواتین میں پیدا ہونے والی تبدیلی روایات اور فکری رجحانات جاننے کے گفتگو کی ۔وہ پاکستان آنے کی خواہشمند ہیں اور وسیع المطالعہ خاتون ہیں ۔انہوں نے اپنے بارے میں بتایا
’’میرا خاندان ایک بڑا خاندان ہے۔میری ماں نرس ہے۔میرے والد استاد ہیں۔بڑی بہن بھی نرس ہے۔بڑا بھائی انجینئر ہے۔میراچھوٹا بھائی کچھ نہیں کرتا، وہ میرے ساتھ رہتا ہے اور گھریلو کاموں میں میری مدد کرتا ہے۔میرے خاوند آرکی ٹیکچر ڈیزائنر ہیں۔میرے والدین وہاں کوگن میں رہتے ہیں۔میں تاشقند میں اپنی بچی اور بھائی کے ساتھ رہتی ہوں جبکہ میرے خاوند ماسکو میں روزگار کے سلسلے میں قیام پذیر ہیں اور ہاں میرا ایک دوسرا چھوٹا بھائی ٹورازم میں کام کررہا ہے‘‘

س:ازبیک روایات کے مطابق کیا آپ سسرال کے ساتھ رہتی ہی۔آپ نے ان کا ذکر نہیں کیا؟
ج:میں چونکہ بخارا سے ہوں لیکن تعلیم تاشقند میں حاصل کررہی تھی۔اب جب شادی تاشقند میں ہوئی تو فیصلہ ہوا کہ یہیں رہنا چاہیے۔میں ذرا جدید دور کی نسل سے تعلق رکھتی ہوں۔اور اپنے ادبی علم سے اضافے کی خواہش کے ساتھ ساتھ ایک بہتر ماحول میں زندگی گزارنا چاہتی ہوں۔اس لئے ہم نے فیصلہ کیا کہ ہمارا گھر سسرال کے نزدیک لیکن علیحدہ ہونا چاہیے۔ازبیک روایات کے مطابق دولہا گھر کا بندوبست کرتا ہے جبکہ دلہن گھر کا سامان لاتی ہے۔ہمارے معاملے میں میرے والدین نے میرے سسرال کے ہمسائے میں ہی مجھے ایک علیحدہ گھر خرید کر دے دیا تاہم فیصلہ ہوا کہ میرے خاوند قسطوں میں اسکی ادائیگی کر دیں گے۔یوں میں سسرال کے نزدیک بھی ہوں اور علیحدہ بھی۔ میری ساس بڑی اچھی خاتون ہے اور میری بچی کی پرورش میں میری مدد بھی کرتی ہے۔
س:کیا آپ کی بچی بہت چھوٹی ہے؟
ج:نہیں جی میری بیٹی کا نام مدینہ ہے اور وہ پانچ سال کی ہے۔وہ کنڈرگارڈن جاتی ہے۔میں صبح سویرے اسے ناشتہ کراتی ہوں پھر کنڈگارڈن چھوڑ کر خود ازبیک انجمن مصنفین کے دفتر چلی جاتی ہوں۔وہاں بطور سیکرٹری انجمن کام کرتی ہوں۔پھر وہاں کے نوجوانوں کے شعبہ کی انچارج بھی ہوں۔ہم لوگ نوجوان طلباء و طالبات کو ادب و شاعری و نظم نثر پر لیکچر دیتے ہیں۔ان کو ازبیک قومی روایات سے آگاہ کرتے ہیں۔ہم ان کو نظم و نثر فنی طور پر سکھاتے ہیں لیکن صرف فنی طور پر لکھنا آجانا ہی کافی نہیں ہوتا۔ایک شخص کو اسکے ساتھ ساتھ اپنے قوم و ملک اور معاشرے کے سامنے ذمہ دایوں کا بھی احساس ہونا چاہیے۔آجکل انٹرنیٹ پر سوشل میڈیا پر ہر نوجوان بطور لکھاری سامنے آنے کی کوشش کرتا ہے۔لیکن اس کوشش میں وہ اپنی ذمہ داریوں کو بھول کر فضول قسم کی رونا پینا،تنقید نگاری، مادر پدر آزادی کے نعرے لگانا شروع کر دیتا ہے۔میں سمجھتی ہوں کہ ادب کا کام ایک زیادہ مہذب شخص ایک زیادہ ذمہ دار شخص اور ملک و قوم کی ترقی کے لئے تربیت یافتہ شخص تیار کرنا ہوتا ہے۔آج زندگی اور اسکی ترقی کی رفتار بہت تیز ہو گئی ہے۔آج فضول تنقید کرکے کام کو روکنا یا آنسو بہا کر ایک زندہ مردے کا رول ادا کرنے والے کے لئے معاشرے میں کوئی جگہ نہیں۔جو ایسے کردار ہیں وہ نہ صرف خود بلکہ وہ اپنے اردگرد والوں اوراپنی قوم کی ترقی کی رفتار کو منجمد کر دیتے ہیں ۔ہماری نوجوان نسل کو قوم و وطن سے محبت، انسانیت کی خدمت اور تیز رفتار ترقی کرنے کے لئے مثبت سوچوں والی نسل کاکردار ادا کرنا ہے اور موجودہ نسل کی مثبت تیاری ہی ہمارا فرض ہے۔
س:تو آپ نے لکھنا کیسے شروع کیا؟
ج:سب سے پہلے تو چونکہ خود میں مصورہ تھی۔تعلیم بھی یہی حاصل کی تھی۔ لہٰذا یہ خواہش ہوتی کہ اپنے اس میدان کے اسرارورموز اور نئی باریکیوں کو جان سکوں۔لہٰذا میں مشہور ازبیک مصورو ں کے انٹرویو کرنے لگی۔مثلاً میں نے ازبیکستان کے مشہور روسی فلاسفر مصور یانس سالپن کیدی،تاریخی تصویریں بنانے والے مصوتوروکریازوف اور حقیقتوں کو تصویروں کا رنگ دینے والے مصور آرتی کالی قزاقوف کے انٹرویک کیے۔تب میں شاعروں اور نثر نگاروں کی کی طرف متوجہ ہوئی ۔یہ انٹرویو مجھے مدد کرتے تھے کہ میں ازبیک شاعری و نثر کی باریکیوں اور اس کے مجموعی معاشرتی کردار سے واقف ہو سکتی تب میں نے اگلا قدم اٹھایا خود قومی موضوعات پر قلم اٹھانے لگی۔ خاص مقصد تھا کہ ان تمام موضوعات کے وہ رخ پیش کیے جائیں جو کہ موجودہ نسل کی قومی تربیت کے لئے لازمی ہیں۔
س:کون سے ازبیک شاعروں نے آپ کو متاثر کیا؟
ج:ایرکن واحد وف جنہوں نے آپ کے بارے میں بھی ایک نظم لکھی تھی۔اقبال مرزا، بخارا کے شاعر چار شنب روزیایف بچوں کیلئے لکھنے والے شاعر تورسن بائیف ،انور عابد جان،ایرکن سمندر،میرپولات مرزا، نوجوانوں کا شاعر دلشاد رجب، سراج الدین روف، شاعرہ منورہ عثمانودا اور علیمہ احمد دوا۔
س:آپ اپنی تصویروں میں کیا پیش کرتی ہیں؟
ج:میں ازبیکستان کی عجیب و غریب سرزمین کی حسین قدرت کو پیش کرتی ہوں۔
س:اور تحریروں میں؟
ج:اپنی تحریروں میں میں اپنے وطن ،اسکے عوام، تارخ، ادب کو پیش کرتی ہوں۔میں نئی نسل کے لئے کی جانی والی ترقی اور اس کے استعمال کے بارے میں لکھتی ہوں۔میں اپنے وطن کے شہروں، دیہاتوں اور پہاڑوں و دریاؤں کی سیر کرتی ہوں اوراپنے احساسات پیش کرتی ہوں۔اپنے عوام سے ملتی ہوں۔ان کی روایات، دستکاری ،اٹھنے بیٹھنے اور رہنے سہنے کو پیش کرتی ہوں اور ہاں میں نئی نئی کتابیں پڑھتی ہوں اور ان کے بارے میں اپنے خیالات لکھتی ہوں۔

س:آپ کا پسندیدہ مصور کونسا ہے؟
ج:میری پسندیدہ مصورہ ہیں:دل آرام محمدودا،انکا کام بہت متاثر کن ہے۔خاص طور پر ان کی تصویریں:QUYOSH BOTISHIغروب آفتاب، Tong Otishiصبح سویرے طلوع آفتاب میں انکو گھنٹوں دیکھتی رہتی ہوں اوران میں گم ہو جاتی ہوں۔
س:تو گھر کا کام کاج کب کرتی ہیں؟
ج:ہمارے ہاں رسم ہے کہ شادی کے لئے منگیتر کافیصلہ والدین کرتے ہیں۔پہلے تو لڑکے کے والدین لڑکی کا کھوج لگاتے ہیں، ادھرادھر سے معلومات حاصل کرتے ہیں۔مطمئن ہو کر وہ رشتہ کے لئے آتے ہیں ۔تب لڑکی کے والدین یہ جاسوسی بھرا کام کرتے ہیں۔مطمئن ہونے کے بعد لڑکے لڑکی کی ملاقات کرائی جاتی ہے۔ یہ ملاقات کسی باغ یا کیفے میں ہوتی ہے۔دونوں ایک دوسرے سے سوال کرتے ہیں اور جب راضی ہو جاتے ہیں تو والدین کو سگنل دے دیتے ہیں۔تب اگلے مراحل طے کیے جاتے ہیں۔میرے معاملے میں ہم دونوں کا غفور غلام پارک میں ملنا ٹھہرایا گیا۔میں اپنے کیرئیر اور شوق کو آگے بڑھانا چاہتی تھی۔میں نے فوراً کہا۔’’میں اپنی تعلیم مکمل کرنا چاہتی ہوں،میں کھانا پکانا اور جاڑو دینا وغیرہ نہ کروں گی۔میں تصویریں بنانا اور کتابیں پڑھنا چاہتی ہوں‘‘۔میرا خیال تھا میرا ہونے والا خاوند انکار کر دے گا۔لیکن وہ عجیب لڑکا راضی ہو گیا۔تب میں نے کہا’’میں علیحدہ رہنا چاہتی ہوں اور ہاں میں تاشقند کا جدید لباس پہننے والی لڑکی ہوں‘‘وہ بے چارہ اس پر بھی راضی ہو گیا۔
س:تو اب کیا ہوتا ہے؟
ج:اب میں سب کچھ کرتی ہوں۔میرا خاوند ماسکو میں کام کرتا ہے۔میں تاشقند میں اپنی بیٹی اور بھائی کے ساتھ رہتی ہوں۔سب کچھ کرتی ہوں۔بھائی بھی مدد کرتا ہے۔ساس بھی مدد کرتی ہے کیونکہ میں واقعی بہت مصروف رہتی ہوں۔کبھی کبھی تو رات دیر تک پڑھنا لکھنا بھی ہوتا ہے۔بیٹی کی تربیت بھی اور فون پر خاوند سے بھی بات کرنا ہوتی ہے۔لیکن میری زندگی بھرپور زندگی ہے۔میں سیکھنے کے مرحلے میں ہوں اور شاید ساری زندگی ایسے ہی گزرے۔
س:آپ کا وطن بخارا ہے؟
ج:جی میرا وطن تو ا زبیکستان ہے۔تاہم بخارا صوبہ میرا صوبہ ہے۔یہ ایک تاریخی شہرہے۔شاہراہ ریشم کے قدیم ترین مراکز میں سے ہے۔یہاں650تاریخی عمارتیں ہیں۔یہاں دنیا بھر سے ٹورسٹ آتے ہیں۔میں آپ کو کیا بتاؤں آپ تو خود شاید مجھ سے زیادہ بخارا کے بارے میں جانتے ہوں۔یہاں حضرت خواجہ بہاؤالدین نقشبندی کا مزار اقدس ہے۔اور8سلسلوں تک ان کے اساتذہ کے مزارات ہیں۔یہاں مدرسہ میر عرب ہے جہاں علما نے اسلام کی تعلیم و تربیت کی جاتی ہے۔یہاں امیر بخارا جو کہ سوویت اقتدار کے قیام سے پہلے یہاں کے حاکم تھے ان کا محل اور قلعہ ہے۔یہاں مشہور قدیم تجارتی مرکزب لب حوض واقع ہے۔گبندوں ،میناروں،مزاروں اور بازاروں کا شہر بخارا جو ایک دفعہ یہاں کا چکر لگا لے وہ ہمیشہ یہاں آنے کے خواب دیکھتا ہے۔
س:آئیے ذرا آپ کے جاب پر دوبارہ نظر ڈالتے ہیں۔ذرا انجمن مصنفین ازبیکستان کی تفصیل بیان کیجئے؟
ج:ہماری تنظیم کا نام ہے،’’ازبیک مصنفین کی قومی انجمن‘‘ پچھتر سالہ مشہور لکھاری احمد وف محمد علی سکے چیئرمین ہیں۔وہ عوامی مصنف کا اعزاز رکھتے ہیں اور پچھلے بارہ سال سے یہ ذمہ داری ادا کررہے ہیں۔ہمارے ہاں ایک نوجوانوں کا شعبہ ہے اس بارے میں میں پہلے بتا چکی ہوں۔مجھے فخر ہے کہ وصولا پردابائیوا، حسن اسپانتوف، غزل مت ایقوبوفا،شوکت عادل جان اور یقورجیسے بچوں کی بطور لکھاری یا شاعرمیں نے تربیت کی ہے۔مجھے یقین ہے وہ مستقبل کے مشہور ادیب ہوں گے۔ہماری انجمن ازبیک قومی لکھاریوں اور شاعروں کی کتابیں چھپاتی ہے۔ان کے متراجم کرتی ہے اور بیرون ملک ازبیک سفارتخانوں کو بھیجتی ہے۔ہم غیر ملکی ادیبوں وشاعروں کی کتابوں کے متراجم بھی کرتے ہیں اور ہم اپنی ساری کتابیں تاشقند شرق شناس انسٹیٹیوٹ اور جہان طلاء اداروں کو بھی دیتے ہیں۔غیر ملکی ادب کے شعبے کے انچارج اطہان بیک عالم بیک ہیں۔وہ روسی،ازبیک ،ترکی اور فارسی زبان کے ماہر ہیں۔
س:آپ پاکستان کے بارے میں کیا جانتی ہیں؟
ج:میں بچپن سے ہی ہندوستانی فلمیں دیکھنا پسند کرتی ہوں۔ہندوستانی اداکاروں کے نام مجھے ازبر ہیں۔لیکن میں لاہوری اقبال سے بہت متاثر ہوں۔ان کی شاعری کا ترجمہ ہمارے شرقیاتی انسٹیوٹ کے ریکٹر نے کیا ہے۔اس کے علاوہ ہمارے حلقوں میں فیض احمد فیض،احمد ندیم قاسمی، احمد فراز، نصیر احمد ناصر، محمد اسحاق خاں فرزی، حبیب جالب کو بھی جانا جاتا ہے۔میں شکرگزار ہوں کہ آپ اپنی کتابوں میں ہماری تاریخی خوبصورت دھرتی کے بارے میں لکھتے ہیں۔آپ کے افسانے ’’کتا آدمی‘‘ ’’کہانی ایک رات‘‘ اور’’مقدس طوائف‘‘ مجھے بہت پسند آئے۔ہم آپ کے اس لئے بھی شکر گزار ہیں کہ آپ نے ازبیکستان کے بانی پہلے صدر اسلام کریموف کی کتاب’’ ازبیکستان، تعمیر نو اور ترقی کا اپنا راستہ‘‘کا اردو میں ترجمہ کیا اور پاکستانیوں کو ہمارے منصوبوں سے روشناس کرایا۔
س:کیا آپ نے پاکستانی فلموں یا ڈراموں کے بارے میں نہیں سنا؟
ج:جی میں بچی تھی کہ تاشقند میں ہر دو سال بعد عالمی فلم فیسٹیول ہوتا تھا۔ اس زمانے میں چند فلمیں یہاں دکھائی گئیں۔پھر جب ہماری آزادی کی پہلی دھائی میں آپ کے انٹرویو اور ان کے ساتھ پاکستانی گانے وغیرہ دکھانا یاد ہے۔البتہ آجکل ایک پاکستانی ڈرامہ دکھایا جارہا ہے۔اور ہمیں یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ ہم سب گھر والے اکٹھے بیٹھ کر یہ ڈرامہ دلچسپی سے دیکھ سکتے ہیں۔آجکل اس ڈرامے کا ہر جگہ چرچا ہے دراصل آجکل کی جدید بھارتی فلموں کو ہمارے ہاں ساری فیملی اکٹھے بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتی۔ کہ انہوں نے کھلے کی انتہا کردی ہے۔


س:آپ کا پاکستانیوں کے لئے پیغام؟
ج:میں نے پاکستان کے شہروں لاہور،کراچی، اسلام آباد،حیدر آباد و فیصل آباد کے بارے میں سنا ہے۔مجھے بتایا گیا ہے کہ لاہور اور سمر قند جبکہ کراچی و تاشقند سسٹر سٹی ہیں۔میں آپ کے عوام میں،انکی روایات،رسومات میں دلچسپی رکھتی ہوں۔آپ کی قدرت بہت حسین ہے۔میں پاکستانیوں سے ملنا چاہتی ہوں۔میری خواہش ہے کہ ہم کار میں بیٹھ کر اسلام آباد جا سکیں اور اسلام آباد والے کارمیں تاشقند آسکیں۔لیکن اس کے لئے علاقے میں امن ضروری ہے۔میں پاکستانی فلمیں اور ڈرامے دیکھنا چاہتی ہوں۔میں اردوکتابیں پڑھنا چاہتی ہوں۔میں آپ کے شاعروں،لکھاریوں،ادویبوں، مصوروں سے ملنا چاہتی ہوں میں کے ٹو اور دوسری بلند چوٹیوں کی تصویریں بنانا چاہتی ہوں۔آئیے ایک دوسرے کو قریب سے جانیں۔میں چاہتی ہوں کہ پاکستان و ازبیکستان کے عوام جب چاہیں ایک دوسرے کے ہاں مہمان بنکر آیا کریں جایا کریں۔میں اپنے علاقے کے لئے پرامن ترقی کی دعا کرتی ہوں۔

۔

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -