”قاتل آن لائن گیمز“

ایک پرائیویٹ کلینک میں گائنی کی لیڈی ڈاکٹر کے پاس ڈیلیوری کا ایک کیس آیا۔خاتون مریضہ کے ساتھ ایک آدمی بھی تھا۔لیڈی ڈاکٹر صاحبہ نے ڈیلیوری کیس کو اچھے طریقے سے ہینڈل کیااور خاتون کے ہاں بچی کی پیدائش ہوگئی۔ڈیلیوری کیس کرنے کے بعدلیڈی ڈاکٹر اپنے کپڑے تبدیل کرنے کے لئے چلی گئی، جبکہ نرس کلینک کے دیگر کاموں میں مصروف ہوگئی۔لیڈی ڈاکٹر جب کپڑے تبدیل کرکے واپس آئی تو دیکھا کمرے میں اکیلی نومولود بچی رو رہی ہے، جبکہ اس کو پیدا کرنے والی ماں اوراس کے ساتھ آنے والا مرد دونوں ہی وہاں موجود نہیں تھے۔ لیڈی ڈاکٹرنے نرس سے دریافت کیا تو اس نے بھی لاعلمی کا اظہار کیا۔ بچی کی ماں اور اس کے ساتھ آنے والا مرداچانک کب،کہاں،کیسے غائب ہوگئے؟ کسی کو پتہ ہی نہ چل سکا۔شائد وہ عورت بچی کو اپنانا نہیں چاہتی تھی، اسی لئے اسے وہاں چھوڑ کررفو چکر ہوگئی تھی۔ لیڈی ڈاکٹر نے کافی انتظار کیا، لیکن بچی کی ماں واپس نہ آئی،ادھر نومولود بچی مسلسل رو رہی تھی، اس کو کیا معلوم تھا کہ اس کو جنم دینے والی سنگدل عورت اپنے گناہ کو چھپانے کی خاطراسے زمانے کے رحم و کرم پر چھوڑ کر جاچکی ہے۔
لیڈی ڈاکٹر ایک نیک دل خاتون تھی،اس نے بچی کو یتیم خانے بھیجنے کی بجائے خود گود لے لیااور اس کا نام جنت فاطمہ رکھ کر اس کی پرورش اسی طرح کرنے لگی جس طرح وہ اپنے دو سگے بیٹوں اور بیٹی کی کررہی تھی۔یہ نیک دل لیڈی ڈاکٹر ناہید سبطین تھی جو لاہور کے علاقے کاہنہ میں رہائش پذیر تھی۔بدقسمتی سے چند روز قبل اس نیک دل لیڈی ڈاکٹر ناہیدسبطین اور اس کے ایک سگے بیٹے،بیٹی اور گود لی ہوئی بچی جنت فاطمہ کو فائرنگ کرکے ہلاک کردیا گیا۔قتل کے اس اندوہناک واقعہ میں لیڈی ڈاکٹر کا پندرہ سالہ بیٹا زین اس وجہ سے محفوظ رہا کہ وہ نچلی منزل میں سویا ہوا تھا۔پولیس نے قتل کی واردات پر تفتیش شروع کردی۔پولیس کو قتل کی یہ واردات ذاتی رنجش یا لین دین کا تنازعہ لگ رہی تھی۔آخر چند روزہ تفتیش کے بعد پولیس نے قاتل کا سراغ لگاہی لیا۔قاتل کوئی اور نہیں، بلکہ لیڈی ڈاکٹر کا زندہ بچ جانے والا بیٹا زین تھا، جس نے دوران تفتیش پولیس کے سامنے اپنے جرم کا عتراف کرتے ہوئے بتایا کہ گھر والے اسے ”پب جی“ گیم کھینے سے منع کرتے تھے جس پر مشتعل ہوکراس نے اپنی ماں، سگے بھائی،بہن اور سوتیلی بہن کو فائرنگ کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا۔میڈیا پر قتل کی اس عجیب واردات کا ڈراپ سین دیکھنے والے حیرت میں گم ہوگئے، کیونکہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ لیڈی ڈاکٹر کا قاتل اس کا اپنا بیٹا ہی نکلے گا۔
”پب جی“ گیم کے باعث ہونے والے قتل اور خود کشی کے یہ واقعات نئے نہیں ہیں،بلکہ اس سے قبل بھی کئی دلخراش واقعات رونما ہوچکے ہیں، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اب یہ گیم ایک تفریحی گیم نہیں رہی، بلکہ ایک قاتل گیم بن چکی ہے، جسے کھیلنے والا گیم کے اینیمیٹڈ کرداروں کو مارتے مارتے اس قدر نفسیاتی وابستگی پیدا کر لیتا ہے کہ حقیقت میں دوسروں کی جان لے کریہ سمجھتا ہے کہ شائدحقیقی زندگی بھی ”پب جی“ گیم کی طرح دوبارہ پھرسے شروع ہوجائے گی۔ماہرین صحت کے مطابق ایکشن،مار دھاڑ پر مبنی آن لائن گیمز بچوں اور نوجوانوں میں بے شمار نفسیاتی و جسمانی تبدیلیاں پیدا کر رہی ہیں۔ان گیمز کی وجہ سے نفسیاتی بیماریاں،قتل اور خود کشی کے واقعات بڑھنے لگے ہیں۔پب جی گیم سے قبل بھی کچھ آن لائن گیمز ایسی آچکی ہیں، جن کو کھیلتے ہوئے دنیا بھر میں ہزاروں ہلاکتیں ہوئیں، جن میں ”پوکی مون گو“ اور”بلیو وہیل“ سر فہرست ہیں، جبکہ آج کل ”فری فائر“ گیم بھی بہت کھیلی جارہی ہے۔ایسے ناخوشگوار واقعات کے باعث پب جی گیم پر کئی مرتبہ عارضی پابندی بھی لگائی گئی، لیکن جب پابندی ختم ہوتی ہے تو بچے پھر سے یہ گیم کھیلنے میں اس قدر مگن ہوجاتے ہیں کہ اگر کوئی انہیں یہ گیم کھیلنے سے منع کرے تو وہ اس کو گیم کے کرداروں کی طرح اپنا دشمن سمجھنے لگتے ہیں۔ پاکستان میں بچوں اور نوجوان نسل کی زندگیوں کو بچانے کے لئے ایسی خطرناک آن لائن گیمز پر فوری پابندی لگنی چاہئے نہیں تو قتل اور خودکشی کے ایسے واقعات رونما ہوتے رہیں گے۔