سکوائش کھیلنے کے شوق نے ہی ماڈل ٹاؤن کلب کی بنیاد رکھی چندہ جمع کرکے پہلا سکوائش کورٹ تعمیر کیا، بانو قدسیہ نے 5 روپے چندہ دیکر کہا 500 سمجھنا

مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:66
ماڈل ٹاؤن کلب کی کہانی بھی بڑی inspiring ہے۔ نہ جانے کہاں سے ہمیں سکوائش کھیلنے کا جنون اتر آیا تھا۔ ہوا یوں کہ جم خانہ کرکٹ کلب باغ جناح میں کرکٹ میچ میں اُس دور کے دنیا ئے کرکٹ کے نامور بلے باز ماجد خاں (پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیف بھی رہے۔عمران خاں اور جاوید برکی کے کزن۔ یہ دونوں بھی پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان رہے جبکہ عمران خاں پاکستان کے وزیر اعظم بھی۔) نے بتایا کہ سٹیمنا اور فٹ نس کے لئے سکوائش کھیلا کرو۔ بس ہمارے پسندیدہ کھلاڑی کی بات ہمارے دماغ میں سما گئی۔ ابرار بھائی کی وساطت سے ہم(خرم، شاہد یوشف، اکبر پوری، ابرار بھائی، عارف بھائی اور میں)سکوائش کھیلنے پیکیجزز سکوائش کورٹ جانے لگے۔چند ہی دنوں میں ہی ہم سبھی اچھی سکوائش کھیلنے لگے تھے اور 1977ء میں مارشل لاء لگا تو پکیجزز میں فوجی بھائی آ گئے اور ہماری سکوائش بھی بند ہو گئی۔ سکوائش کھیلنے کے شوق نے ہی ماڈل ٹاؤن کلب کی بنیاد رکھی اور چندہ جمع کرکے پہلا سکوائش کورٹ تعمیر کیا۔اس حوالے سے دو باتیں میں کبھی بھی نہیں بھولا۔پہلی؛ آپا بانو قدسیہ نے 5 روپے چندہ دیتے کہا تھا؛”بیٹا! اسے 500 سمجھنا۔“ واقعی وہ 500 ہی بن گئے تھے کہ اس کے بعد ڈونیشنز کا سلسلے شروع ہوا تھا۔ دوسری؛ سکوائش کورٹ تعمیر ہوا تو افتتاح کے لئے نواز شریف کو بطور مہمان خصوصی دعوت دی۔ اُس دور میں یہ پنجاب کے غالباً وزیر خزانہ تھے۔ یہ آئے اور 25 ہزار کا چیک بھی دیا۔ افسوس وہ چیک آج تک بھی کیش نہ ہوا۔ بڑے لوگوں کی چھوٹی باتیں۔بڑے دنوں تک وہ چیک ہمارے سینوں پر مونگ دلتا رہا تھا اور آج بھی اس میں کمی نہیں ہوئی۔ انہیں بلانا حماقت ہی تھی۔
صوفی ارشد (میں انہیں چا چا کی کہتا تھا کہ یہ میرے دوست اور ہمسائے عظیم کے چچا تھے۔) بھی اس کلب کے صدر بننے کے خواہشمند ہوئے۔25 رکنی منیجنگ کمیٹی کے بارہ بارہ رکن دونوں کے ساتھ تھے۔ فیصلہ میرے ووٹ نے کرنا تھا اور چچا جی ارشد جانتے تھے کہ میں ابرار بھائی کا پکا ووٹ ہوں۔ لہٰذا انہوں نے میرے دوست عظیم سے پہلے میری والدہ سے ووٹ کے لئے سفارش کی ان کے انکار پر انہوں بھاری رقم کے عوض میرا ووٹ خریدنا چاہا لیکن پیسے سے کہیں زیادہ مجھے وہ رشتہ عزیز تھا جو ابرار بھائی اور عارف بھائی کے ساتھ تھا۔ یہ آج بھی اتنا ہی محترم ہے جتنا اُس وقت تھا۔
ابرار بھائی کلب کے پہلے صدر جبکہ عارف بھائی پہلے سیکرٹری تھے۔ شہزاد اور عمران دفتر کے اسسٹنٹ اور اکاؤنٹنٹ تھے۔ بعد میں یہاں ٹینس کورٹس کا اضافہ ہوا۔ پاکستان کے نمبر ایک کھلاڑی اعصام الحق اسی کلب کے ممبر تھے جبکہ پاکستان کا ایک اور سابق ٹینس چمپئین خالد محمود چیف کوچ۔اعصام الحق کی والدہ نو شین افتخار بھی عرصہ تک خواتین کی ٹینس چمپئین یہیں کھیلا کرتی تھیں۔ عارف بھائی امریکہ چلے گئے تو میں بارہ(12) سال تک اس کلب کا اعزازی سیکرٹری رہا۔ سپورٹس کی ساری سرگرمیاں میں دیکھتا تھا جبکہ انتظامی معاملات ابرار بھائی۔ سپورٹس کے لئے بھی بہت کام کیا اور بڑی نامی گرامی شخصیات سے ملاقات کا شرف بھی ملا۔ جن میں منیر نیازی، منوں بھائی، جاوید اقبال کارٹونسٹ، حسن نثار بھائی، اطہر عباس، شعیب بن عزیز، اطہر اقبال، جیسی قد آور اور شاندار شخصیات شامل تھیں۔ یہ سب کسی نہ کسی شام کلب کی سرسبز لان میں بیٹھ کر ادبی گفتگو کرتے، کبھی تاریخ موضوع ہوتا اور کبھی ماضی کی یادیں۔اپنے اپنے دور کے یہ سبھی بڑے لوگ خود میں تاریخ ہی تھے۔ اب ماڈل ٹاؤن کی انتظامیہ نے یہاں ایک شاندار کلب تعمیر کیا ہے جس کا موازنہ لاہور کے کسی بھی کلب سے کیا جا سکتا ہے۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔