محبت و امن کا پیغام عام کریں
خیبرپختونخوا کے ضلع کُرم میں امن معاہدہ ہو گیا، وہاں قریباً چھ ماہ سے حالات کشیدہ تھے، سڑکیں بند تھیں، خوارک کی قلت تھی اور لوگ شدید مشکلات کا شکار تھے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق عید سے دو روز قبل فریقین نے آٹھ ماہ کے لئے اَمن معاہدے پر اتفاق کرلیا ہے جس کے بعد ٹل سے پاراچنار مرکزی شاہراہ اور پاک افغان شاہراہ کھولنے سمیت قیامِ اَمن کے لئے لائحہ عمل تیار کیا جا رہا ہے۔ جرگے کے فیصلے کے مطابق جو بھی فریق معاہدے کی خلاف ورزی کرے گا اُس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ اَمن معاہدے کے لئے ہونے والے جرگے میں فریقین کے عمائدین، ضلعی انتظامیہ اور دیگر حکام شریک ہوئے۔ڈپٹی کمشنر ضلع کُرم کا کہنا تھاکہ قبائلی عمائدین قیامِ اَمن میں بھی حکومت کے ساتھ تعاون کریں تاکہ جلد دیرپا اَمن قائم ہو سکے۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ فریقین میں اَمن معاہدہ ہونے سے عید کی خوشیاں دو بالا ہو گئیں۔ خیال رہے کہ ضلع کُرم میں فائرنگ کے واقعات اور جھڑپوں کے باعث لگ بھگ چھ ماہ شاہراہیں بند رہنے کی وجہ سے لوگوں کو اشیائے خوردونوش، ادویات اور دیگر روزمرہ استعمال کی اشیاء کی قلت کا سامنا رہا۔ ویسے تو یہ تنازعہ ایک صدی سے بھی زائد عرصے سے جاری ہے تاہم حالیہ کشیدگی اور اس کے بعد ہونے والی جھڑپوں کے دوران دونوں اطراف کے تقریباً 130 افراد مارے گئے۔ عید الفطر سے قبل معاہدہ ہو جانا اِس بات کا عکاس ہے کہ مسلمان چاہے کسی بھی فرقے سے تعلق رکھتا ہو وہ مقدس ایام، مسجد جیسی مقدس جگہوں اور عید جیسے مذہبی تہواروں پر ہر صورت اَمن اور آشتی چاہتا ہے۔اسلام کا تو بنیادی پیغام ہی امن، محبت اور دوستی کا ہے،ایک طرف امن معاہدہ طے پا رہا ہے لیکن دوسری طرف ملک میں شرپسندی پھیلانے والے عناصر ہیں جن سے لوگوں کو محفوظ رکھنے کے لئے سکیورٹی فورسز کے لاکھوں اہلکار ڈیوٹی پر موجود رہیں گے۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی انتظامیہ کے ساتھ ساتھ چاروں وزرائے اعلیٰ اپنے اپنے صوبوں میں اَمن و امان قائم رکھنے کے لئے فول پروف سکیورٹی انتظامات کے احکامات جاری کر چکے ہیں۔ سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں،جوانوں اور افسروں کے علاوہ متعلقہ وزراء اور وزیراعظم کے علاوہ ملک کی تمام تر ذمہ دار قیادت دن رات اَمن و امان کو یقینی بنانے میں لگے ہوئے ہیں،اربوں روپے کے وسائل استعمال ہو رہے ہیں۔ افسوس اِس بات کا ہے کہ دہشت گرد مذہب کی آڑ لے کر فساد برپا کرتے ہیں،درحقیقت اِن دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا،ان کے لئے مسجدیں محترم ہیں نہ مدرسے، گرجا گھر مقدس ہے اور نہ ہی کوئی اور عبادت گاہ۔ملک بھر میں یکم جنوری سے 16 مارچ تک کم از کم 1141 افراد ہلاک یا زخمی ہو گئے تھے جبکہ گزشتہ سال یعنی 2024ء دہشت گردی کے واقعات میں 45 فیصد اضافہ ہوا اور پاکستان عالمی دہشت گردی انڈیکس 2025ء میں دوسرے نمبر پر آ گیا تھا۔ گزشتہ سال ملک میں دہشت گردی کے 1,099 حملے ہوئے جو 2023ء میں 517 تھے اور اِن میں ہلاکتوں کی تعداد 1,081 تک جا پہنچی تھی۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) ملک میں تیزی سے بڑھنے والی سب سے خطرناک دہشت گرد تنظیم کے طور پر سامنے آئی جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ 52 فیصد ہلاکتوں کی ذمہ دار ہے۔ گزشتہ سال ٹی ٹی پی نے 482 حملے کیے جن میں 558 افراد جاں بحق ہوئے جو 2023ء کی نسبت 91 فیصد زیادہ تھے جبکہ کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) جیسی تنظیموں کے حملے 116 سے بڑھ کر 504 ہو گئے اور اِن حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد بھی چار گنا بڑھ کر 388 تک جا پہنچی۔ رواں سال بھی دہشت گردی کے سب سے زیادہ واقعات بلوچستان میں ہوئے جہاں دہشت گردوں نے جعفر ایکسپریس پر حملہ کر کے سینکڑوں مسافروں کو یرغمال بناتے ہوئے کئی افراد شہید کر دیئے، جس کے بعد سکیورٹی فورسز نے جوابی کارروائی میں تمام 33 دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا۔اِس سانحے کے بعد دہشت گردی روکنے کے لئے قومی اتفاقِ رائے اور سیاسی اتحاد پر زور دیا جا رہا ہے، یہی اِس زہر کا تِریاق ہے۔ چند روز قبل وزیراعظم شہباز شریف کے زیر صدارت ہونے والے عسکری اور سول قیادت کے اجلاس میں دوٹوک فیصلہ کیا گیا کہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت قومی بیانیے کو مضبوط اور ملک دشمن مہم کا روایتی اور ڈیجیٹل طریقے سے منہ توڑ جواب دیا جائے گا جبکہ جعفر ایکسپریس کے حملہ آوروں کو دنیا کے سامنے بے نقاب کرنے میں کوئی کسرنہیں چھوڑی جائے گی۔اِس اجلاس کے جاری کیے گئے اعلامیے کے مطابق دہشت گردی کے خلاف حکومت کے واضح اور دو ٹوک موقف پر گزشتہ روز وزیراعظم ہاؤس میں اجلاس ہوا جس میں عسکری اور سول قیادت کے علاوہ چاروں صوبوں بشمول آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سے بھی نمائندے شریک ہوئے۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ دہشت گردوں اور شرپسندوں کے سد ِباب کے لئے موثر اور سرگرم بیانیہ بنانے کی ہدایات دی جائیں گی، قومی بیانیے اور ملک کی سلامتی کے خلاف کسی بھی قسم کے مواد کا سد ِباب کیا جائے گا، لیکن اِس عزم کو پورا کرنے کے لئے سب کا متحد ہونا ضروری ہے،تمامتر اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ملکی مفاد کی خاطر آگے بڑھنا ضروری ہے۔ ملک کے روشن مستقبل کے لئے امن ناگزیر ہے، سرمایہ کاری کے لئے سازگار ماحول فراہم کرنا لازم ہے۔اِس عید پر تمام اہل ِ سیاست کو یہ عہد کرنا چاہئے کہ وہ اِس وقت ملک کو درپیش سب سے بڑے خطرے سے نبٹنے کے لئے مل کر کام کریں گے،ہر صورت دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے،دہشت گردی کے حوالے سے تو کوئی دو رائے ہو ہی نہیں سکتیں۔کُرم ایجنسی میں معاہدہ ہو گیا ہے، اب اِس پر مکمل طور پر عملدرآمد بھی ہو، لڑائی جھگڑا کسی صورت فائدہ مند نہیں بلکہ اِس سے عوام کے لئے تو مسائل ہی کھڑے ہوتے ہیں۔دُعا ہے کہ اِس عید پر کسی قسم کا کوئی ناخوشگور واقعہ پیش نہ آئے،دنیا بھر کے مسلمانوں خصوصاً پاکستانیوں کے لئے خیر و برکت کا باعث ہو۔آئیں اِس عیدالفطر پر عہد کریں کہ محبت و امن کا پیغام عام کریں گے اور ملکی ترقی کی راہ میں آڑے آنے والی ہر رکاوٹ کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔