”نیویارک ٹائمز“ کا سچ
بالآخر ”نیویارک ٹائمز“ نے بھی سچ اُگل دیا کہ خطے میں امریکی موجودگی ہی ہزاروں پاکستانیوں کے قتل کی وجہ ہے۔اخبار کا یہ کہنا ہے کہ 12سال سے امریکہ کا فوکس افغانستان نہیں،پاکستان رہا ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں زیادہ نقصان پاکستان کا ہوا ہے۔حسنِ اتفاق سے یہ خبر بھی خود ایسوسی ایٹڈ پریس آف امریکہ کی ہے،جسے ”نیویارک ٹائمز“ نے جلی حروف میں شائع کیا ہے۔پاکستان کی بدقسمتی دیکھئے کہ نائن الیون کے واقعہ میں ایک بھی پاکستانی ملوث نہ ہونے کے باوجوددرگت پاکستان کی بنی ہے، اس کا ازالہ ممکن نہیں ہے۔پاکستان کے پچاس ہزار کے لگ بھگ شہری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور چار ہزار فوجی جوانوں اور افسروں نے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے اپنی جانوں کے نذرانے دیئے۔پاکستان کے اندر جس طرح سے یکایک خودکش دھماکے ہونے لگے اور دہشت گردی کے حملے بڑھ گئے، کوئی یقین نہیں کرسکتا کہ صرف کوئی ایک پاکستان دشمن فورس اس کے پیچھے تھی۔اس میں یقینا وہ قومیں بھی تھیں، جو بظاہر پاکستان کے ساتھ دوستی کا دم بھرتی ہیں، لیکن اندر کھاتے ہر اس سازش کا حصہ ہوتی ہیں ،جو پاکستان اور پاکستانیوں کو نقصان پہنچانے کے لئے تیار کی جاتی ہے۔
بھارت کی بھی اس عرصے میں چاندی ہوگئی اور وہ کراچی اور بلوچستان میں خوب کھل کھیلا، بلکہ پورے پاکستان میں اسے جہاں کہیں اور جب کہیں موقع ملتا، وہ تخریبی عناصر کی پشت پناہی کرتا رہا ہے۔لائن آف کنٹرول پر بھی فائر بندی توڑنے میں پہل کرنا اس کا شیوہ بنتا جارہا ہے۔بھارت کو ایک بات کی سمجھ نہیں آ رہی کہ پڑوسی ممالک کے ساتھ رہنے کے کچھ اسلوب اور روایات ہوتی ہیں، اگر وہ امن کی آشا کا راگ الاپتا ہے تو پھر اسے ان اوچھے ہتھکنڈوں سے اجتناب کرنا چاہیے، جن کو بنیاد بنا کر وہ پاکستان کے وجود کو گزند پہنچانا چاہتا ہے۔بھارت دوستی چاہتا بھی ہے تو بڑی رعونت اور تفاخر کے ساتھ،حالانکہ پاکستان اور پاکستانیوں کے خمیر میں ہے کہ اگر ان سے کوئی دوستی چاہے بھی تو صرف برابری کی بنیاد پر دوستی ہوسکتی ہے اور بھارت کے حوالے سے تو قوم ویسے بھی بہت حساس ہے ۔
برصغیر میں ہزاروں سال تک مسلمان حکمران رہے ہیں، لہٰذا بھارت کی یہ خواہش کبھی پوری نہیں ہو سکتی کہ پاکستان کو دباکر بھی رکھے اور دوستی کا ڈھونگ بھی رچاتا رہے۔دوسری جانب بھارت نے کرزئی حکومت کو ہاتھ میں کیا ہوا ہے اور وہاں اپنے لئے کسی ”رول“ کی تلاش میں ہے۔بھارت کو ایک بات کا ادراک یقیناً ہوگا کہ افغانستان میں اس کا رول اس وقت تک ہی ہو سکتا ہے ،جب تک امریکہ افغانستان میں موجود ہے۔امریکہ جیسے ہی وہاں سے نکلنا شروع کرے گا،بھارت کے لئے افغانستان ایسی اسلامی ریاست میں پاﺅں ٹکانے مشکل ہو جائیں گے۔بہر کیف دہشت گردی کے خلاف جنگ کے گزشتہ بارہ سال میں پاکستان کو سب سے زیادہ نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔نقصان یقینا نیٹو فورسز کا بھی ہوا ہے، لیکن ان کے زیادہ تر فوجی تو پیمپرباندھ کر لڑائیاں لڑنے میں مصروف رہے ہیں، جن کے باعث وہ بہت سی ندامتوں سے بچے رہے، لیکن ایک ندامت ان لوگوں کو ہمیشہ رہے گی کہ وہ ایک پُرسکون ملک میں فوجیں لے کر آ گئے اور شدت پسندی کے نام پر معصوم لوگوں کی جانوں سے کھیلتے رہے۔
ادھر پاکستان کے گلے خودکش دھماکے اور دہشت گردی کی جنگ ڈال دی گئی تو دوسری جانب وہ خود افغانستان میں بیٹھ کر شدت پسندوں کی سرپرستی کرتے رہے ،جو وقتاً فوقتاً پاکستان کی سرحدوں کے اندر گھس کر حملے کرکے پاکستانی شہریوں کے لئے جانی و مالی نقصان کا باعث بنے۔بین الاقوامی طاقتوں کو پاکستان کے اندر ڈرون گرانے کے لئے اپنا ہدف تلاش کرنے میں کبھی مشکل پیش نہیں آئی،لیکن انہیں افغانستان میں بیٹھے ہوئے وہ دہشت گرد دکھائی نہیں دیتے جو پاکستان پر حملے کرکے اس کے لئے پریشانی کا باعث بنتے ہیں۔
اب جو ”نیویارک ٹائمز“ نے خبر دی ہے تو اس سے اس تھیوری کو اور بھی ہوا ملتی ہے کہ بین الاقوامی طاقتوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا گھناﺅنا کھیل صرف پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لئے رچایا تھا۔پاکستان کی اس وقت کی حکومت پرویز مشرف کی قیادت میں پاکستان کو ترکی بنانے کے خواب دیکھ رہی تھی۔پاکستان کو پھلتا پھولتا دیکھنا بھلا پاکستان دشمنوں سے کہاں برداشت ہوسکتا تھا۔پاکستان کو جس دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حلیف بنایا گیا، وہی جنگ پاکستان پر مسلط کردی گئی۔اب پاکستان جن اندرونی اور بیرونی مسائل سے دوچار ہے، اس سے نکلنے کے لئے پوری قوم کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا اور ایسی حکمت عملی وضع کرنا ہوگی جس سے پاکستان اس عفریت سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چھٹکارا حاصل کر پائے۔ ٭