قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 98

قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 98
قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 98

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ایک دوسری شخصیت جسے فلم اور ادب دونوں کی شخصیت کہا جا سکتا ہے وہ راجندر سنگھ بیدی ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ یہ لاہور سے ترک وطن کر کے ممبئی گئے تھے اور جب یہاں تھے تو وہ افسانہ نگاری میں اپنا نام پیدا کر چکے تھے اور ان کا مجموعہ ’’دانہ و دام ‘‘ کے نام سے چھپ چکا تھا۔ انہوں نے اپنی ملازمت کا آغاز پوسٹل کلرک کی حیثیت سے کیا تھا۔ اسی پیشے میں رہ کر انہوں نے شروع میں جو افسانے لکھے ان میں ان کے پیشے کی جھلک دکھائی دیتی تھی۔
اس زمانے میں ان کا ایک افسانہ میں نے بھی پڑھا تھا۔ اس میں انہوں نے ایک میاں بیوی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ یہ پوری فیملی ایک چھوٹے سے گھر میں رہتی تھی۔ میاں بیوی کو اپنی باتیں کرنے کا موقع نہیں ملتا تھا۔ ایک دن ان کی سالی، بچہ اور ایک دوسرا آدمی جو گھر میں رہتے تھے وہاں موجود نہیں تھے تو ان میاں بیوی کو موقع ملا اور اس کی تشبیہ انہوں نے اس طرح دی کہ لکھا کہ اس بابو نے اپنی بیوی کو بوسہ یوں لیا جیسے پوسٹل کلرک نے لفافے پر مہر لگا دی ہو ۔ ان کی یہ تشبیہ حقیقت کے بہت قریب تھی اس لیے اس زمانے میں بہت مشہور ئی تھی۔

قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 97 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
جب تک بیدی صاحب لاہور میں تھے تو ان سے میری ملاقات نہ ہوئی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میں جب لاہور شفٹ ہوا تھا تو وہ یہاں سے ترک وطن کر کے انڈیا جا چکے تھے۔ بعد میں جب میں 1950 ء کے لگ بھگ انڈیا گیا تو دہلی میں ایفروایشن کانفرنس ہو رہی تھی۔ میں ممبئی کے ایک مشاعر ے میں شرکت کے لیے گیا ہوا تھا اور مجھے وہاں سے واپس دہلی آکر اس کانفرنس میں شریک ہونا تھا۔ اتفاق سے ٹرین میں میری اور بیدی صاحب کی ریزرویشن ایک ہی ڈبے میں ہوئی۔ یہ ہمارا پہلا ساتھ تھا۔
میں نے اس سے پہلے ان کے بارے میں داستانیں سن رکھی تھیں۔ لیکن ایک قول ہے کہ کسی کی دوستی کا معیار پرکھنا ہو تو یا تو اس کے ساتھ جیل میں رہے یا اس کے ساتھ سفر کیجئے۔ یہ ہمارا پہلا سفر تھا میں نے دیکھا کہ وہ بہت متوازن آدمی ہیں، دوسرے کا ذرا ذرا کام اپنے ذمے لے لیتے ہیں۔ اور خوش گفتار ، بذلہ سخ ، فقرہ باز اور ہنس مکھ ہیں۔ اگر کوئی غم کی بات بھی کرنی ہے تو شگفتہ انداز میں کریں گے لیکن جذباتی بات جب بھی آتی تھی تو باتیں کرتے کرتے ان کی آنکھوں میں لمحاتی طور پر آنسو آجاتے تھے۔ وہ آنسو پونچھ کر پھر بات کو آگے بڑھا دیتے تھے۔ آنکھوں میں آنسو آجانے والی ان کی کیفیت شروع سے تھی۔
ممبئی سے دہلی تک کا سفر تقریباً چھتیس گھنٹے کا تھا۔ اس دوران ہم کھانے کیلئے ڈائننگ کار میں چلے جاتے تھے۔ اس خرچ سمیت سفر کے دوران کا تمام خرچ انہوں نے برداشت کیا۔ اور افسانہ تو اچھا لکھتے ہی تھے لیکن افسانے پر گفتگو کمال کی کرتے تھے۔ میں نے ڈائیلاگ نگاری کے بارے میں باکمال امروہی صاحب کی باتیں سنی تھیں یا پھر افسانے پر بیدی صاحب سے باتیں سنی تھیں۔ انہوں نے افسانے کی تکنیک کے ایک ایک پہلو پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ افسانہ کیا ہے۔ اور اچھے اور عام افسانے میں فرق کیا ہے۔ پھر انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ خود کیسے افسانے لکھ رہے ہیں۔ اس میں کوئی بڑائی کی بات نہیں تھی کیونکہ وہ اپنے کمزور اور کامیاب دونوں طرح کے افسانوں کا حوالہ دیتے تھے۔ اس طرح سے ان کے ساتھ میری بے تکلفی ہوئی۔
پاکستان اور ہندوستان کے درمیان جنگو ں کا سلسلہ نکلا تو اٹھارہ سال تک میرا انڈیا جانا نہ ہوا۔ 1971 ء کی جنگ میں بیدی صاحب نے ادھر سے بنگلہ دیش کے حق میں بات کی۔ ہمیں اس زمانے میں یہاں یہ باور کروا دیا گیا تھا کہ بنگلہ دیش نام کی کوئی چیز نہیں ہے ۔ بلکہ یہ صرف ایک پروپیگنڈا ہے ۔ ہمیں تو اپنوں کی بات پر ہی یقین کرنا تھا۔
ادھر ’’میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے ‘‘ کے نام سے ادیبوں کیلئے ایک پروگرام شروع ہوا۔ میں نے اس میں جو مضمون پڑھا وہ بیدی صاحب کے نام تھا۔ میں نے انہیں کہا تھا کہ آپ تو بہت شریف اور بھلے آدمی ہیں آپ بھی حکومت کی باتوں میں آکر بنگلہ دیش کی حقیقت کہہ رہے ہیں اور اپیلیں کر رہے ہیں کہ مفاہمت سے کام لیا جائے اور لڑائی لڑنے کی بجائے مطالبات تسلیم کر لیے جائیں میں نے آخر میں کہا تھا کہ بیدی صاحب !جب یہ جنگ ختم ہو گی تو آپ دیکھیں گے کہ بنگلہ دیش سوائے کاغذ کے ایک نقشے کے اور کچھ بھی نہیں ہے ۔ میں نے جو مضمون ان کے نام لکھ کر براڈ کاسٹ کروایا وہ اس دعوے کی وجہ سے تھا جو ہمارے درمیان تعلق خاطر تھا ۔ لیکن ہماری بدقسمتی کہ جنگ ختم ہوئی تو ہمارا وہ حصہ واقعی بنگلہ دیش بن چکا تھا۔ اور بیدی صاحب کی باتیں سچی نکلیں۔
پتہ نہیں بیدی صاحب نے میری تقریر سنی یا نہیں سنی کیونکہ میں نے بھی ان کی تقریر براہ راست نہیں سنی تھی بلکہ مجھے ان کی تقریر کا سکرپٹ مہیا کیا گیا تھا ۔ اور ریڈیو والوں نے کہا تھا کہ آپ اس کا جواب دیں۔ یہ تو خیر جنگوں میں ہوتا ہے اور ہر شخص اپنے اپنے ملک کی حمایت کرتا ہے ۔ مجھے جب کہا گیا کہ ساحر اچھا مسلمان ہے کہ جنگ کے زمانے میں اس نے پاکستان کے خلاف نظم کہی ہے تو میں نے کہا کہ اگر اس نے ایک نظم کہہ دی ہے ۔ تو کیا ہوا میں نے پاکستان میں بیٹھ کر ہندوستان کے خلاف چار نظمیں کہی ہیں۔ دراصل نہ میں نے ہندوستان کے خلاف نظم کہی نہ ساحر نے پاکستان کے خلاف۔ بلکہ ہوا یوں کہ ہم دونوں نے اپنے اپنے ملکوں کے حق میں نظم کہی اور تمام شاعروں نے اس طرح نظمیں کہیں کیونکہ جنگوں میں ہم سب اجتماعی طور پر اپنے اپنے ملکوں کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ بالکل فطری بات ہے اور ایسا کرنا بھی چاہیے۔ لیکن جب صلح ہو جاتی ہے تو افراد کی دوستیاں اسی طرح چلتی ہیں۔ بلکہ افراد کی دوستیاں تو اس زمانے میں بھی متاثر نہیں ہوتیں بلکہ اسی طرح ہی چلتی رہتی ہیں۔
جب شملہ معاہدہ ہو چکا تھا تو اس کے بعد مجھے یہاں پتہ چلا کہ بیدی صاحب کو فالج ہو گیا ہے ۔ اور ساحر بھی بیمار ہے اور اس کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے۔ ساحر تو خیر میر اجان و جگر تھا اور ہم دونوں ہمراز تھے۔ لیکن بیدی صاحب سے بھی ٹرین کے اس سفر میں میں بہت متاثر ہو چکا تھا اور انہوں نے میرا دل موہ لیا تھا۔ چنانچہ میں نے انڈیا جانے کیلئے یہاں N.O.C. کی درخواست دی اور اس میں لکھا کہ مجھے ساحر اور بیدی صاحب کی عیادت کیلئے انڈیا جانے کی اجازت دی جائے۔ مجھے بتایا گیا کہ اگر خونی رشتہ ہے تو صرف تب ہی وہاں جانے کی اجازت مل سکتی ہے۔ اس کے جواب میں میں نے حکومت سے اپنی خط و کتابت میں کہا کہ خونی رشتے سے آگے ایک روح کا رشتہ بھی ہوتا ہے۔ میں نے مزید لکھا کہ خونی رشتہ تو بہت سے لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے لیکن روح کا رشتہ تو بہت کم لوگوں میں ہوتا ہے۔ میرا ان دونوں سے روح کا رشتہ ہے۔ اب آپ بتائیے کہ خون کا رشتہ بڑا ہے یا روح کا رشتہ بڑا ہے۔ اگر روح کار شتہ بڑا ہے تو مجھے این ۔او۔سی دیا جائے۔ بالآخر مجھے این ۔او۔سی دے دیا گیا ۔ آگے کوئی سمجھدار آدمی بیٹھا ہوا تھا۔ وہ کوئی کلرک نہیں تھا۔
جب میں ممبئی پہنچا تو ساحر اپنے ماموں کے پاس الہٰ آباد گئے ہوئے تھے اور انہیں سات آٹھ دن گزر چکے تھے۔ جب بیدی صاحب کی طرف گیا تو وہ بھی اس وقت گھر پر نہیں تھے۔ میں ان کے ہاں رقعہ لکھ کر چھوڑ آیا اور اس میں اپنا ایڈریس اور ٹیلیفون نمبر بھی لکھ آیا۔ سارا دن گھومنے کے بعد جب میں شام کو وہاں پہنچا جہاں میں ٹھہرا ہوا تھا تو مجھے واپسی پر ایک رقعہ ملا۔ یہ کانپتے ہاتھوں سے لکھا ہوا تھا اور اس میں تحریر تھا کہ مجھے افسوس ہے کہ آپ میرے گھر آئے تو میں موجود نہیں تھا۔ اور اب میں آیا ہوں تو آپ موجود نہیں ہیں۔ جس وقت آئیں مجھے فون کریں میں دوبارہ آؤں گا۔ پھر پتہ چلا کہ وہ فالج کی حالت میں آئے تھے۔
میں نے ان کا رقعہ پڑھ کر روپڑا۔ خلوص کی یہ حد دیکھئے کہ وہ کس حالت میں مجھ سے ملنے کیلئے آئے ۔ میں پھر اسی وقت ان کی طرف چلا گیا۔ ملے تو ان کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے۔ اس ملاقات سے پہلے لاہور میں عصمت چغتائی آئی تھیں۔ جب بھی کوئی یہاں آتا تھا تو میں اس سے کرشن چندر، بیدی ، خواجہ صاحب اور دوسروں کے بارے میں پوچھتا تھا۔ وہ بڑی کریکٹر کی عورت ہیں۔ ان کے بارے میں کبھی کوئی گری ہوئی بات نہیں سنی بلکہ وہ ایک حد تک مرد عورت ہیں لیکن بہت منہ پھٹ ہیں۔ اور بات بڑی کھلی کرتی ہیں۔ جیسے وہ اپنے افسانوں میں بات کرتی رہیں اسی طرح نجی زندگی میں بھی بات کرتی ہیں۔
میں نے ان سے پوچھا تھا کہ بیدی صاحب کا کیا حال ہے تو انہوں نے جواب میں کہا تھا کہ سالے کو فالج ہو جائے گا۔ میں نے پوچھا کہ کیوں؟ تو کہنے لگیں کہ ایک جوان لڑکی ہے ۔اس کے ساتھ معاشقہ کر رکھا ہے اور کشتے کھاتا رہتا ہے۔ اس لیے فالج ہو جائے گا ۔ یہی ہوا اور کچھ عرصے بعد خبر آگئی تھی کہ انہیں فالج ہو گیا ہے ۔ دراصل وہ گھریلو طور پر غیر مطمئن آدمی تھے۔ بیوی سے نہیں بنی تھی اور زندگی میں جب کوئی خلا آتا ہے تو اسے پر کرنے کیلئے آدمی حیلے بہانے تلاش کرتا ہے لیکن یہ ایک عذر لنگ ہی ہوتا ہے کہ آدمی اپنارومانی خلا پر کرے۔ اور یہ کسی عمر میں بھی اچھا نہیں لگتا البتہ جوانی میں پھر اس کا تھوڑا بہت جواز ہوتا ہے ۔ (جاری ہے )

قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 99 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں