پارہ چنار میں حالات بدستور کشیدہ، مزید ہلاکتوں کی اطلاعات
پارہ چنار (ویب ڈیسک) ضلع کرم کے ہیڈ کوارٹر پاڑہ چنار اور اردگرد کے علاقوں میں ایک ہفتہ قبل شروع ہونے والی پرتشدد جھڑپوں میں کمی نہیں آ سکی ہے اور گزشتہ روز بھی کچھ ہلاکتیں ہونے کی اطلاعات ہیں، علاقے میں فائرنگ اور بے چینی کی وجہ سے بچے اور خواتین خوف کے عالم میں ہیں، انٹرنیٹ سروس بھی معطل ہے۔طبی ذرائع کے مطابق چند روز سے جاری ان جھڑپوں میں اب تک درجن سے زائد افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہیں جن میں سے کچھ لوگ اب بھی زیرعلاج ہیں۔علاقے میں پائی جانیوالی بے چینی کیخلاف طلبا نے بھی احتجاج ریکارڈ کروایا۔
غیرملکی میڈیا کے مطابق صوبہ خیبر پختونخوا کی نگران حکومت کے وزیرِ اطلاعات فیروز جمال کاکا خیل نے دعویٰ کیا ہے کہ ضلع کرم اور پارہ چنار میں حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے پولیس اور دیگر سکیورٹی حکام کو تعینات کیا گیا تھا، حالات قابو میں آنے پر موبائل اور انٹرنیٹ سروسز بحال کر دی جائیں گی تاہم میڈیا سیکرٹری انجمن فاروقیہ پارہ چنار عطاء اللہ نے بتایا لوئر کرم اور پارہ چنار میں جرگے کے باوجود ابھی تک لڑائی ختم نہیں ہوئی اور اتوار کی شب اور پیر کی صبح بھی متحارب گروپوں نے ایک دوسرے پر حملے کیے ہیں’لوگ محصور ہیں جبکہ خواتین، بچے اور بزرگ بہت زیادہ متاثر ہیں۔ کچھ علاقوں میں اشیائے خوردونوش کی قلت پیدا ہوچکی ہے جبکہ لڑائی میں زخمی ہونے والوں کو بھی ابتدائی طبی امداد ملنا مشکل ہو رہا ہے۔‘
مقامی لوگوں کے مطابق زمین کی ملکیت سے شروع ہونے والا جھگڑا اب بظاہر فرقہ وارانہ تصادم میں تبدیل ہو چکا ہے ، بتایاگیا ہے کہ حالیہ جھڑپوں کے بعد ضلع کرم کے داخلی اور خارجی راستے بند ہیں، علاقے میں نیم فوجی دستوں کے اہلکار فرائض انجام دے رہے ہیں جبکہ انٹرنیٹ اور موبائل سروس بھی بند ہے۔
یادرہے کہ ضلع کرم میں تین مہینے پہلے بھی مختلف قبائل کے درمیان جھڑپیں ہوئی تھیں جس میں جانی نقصانات ہوئے تھے اور ہھر امن کمیٹیوں کے ذریعے امن قائم کر دیا گیا تھا۔
پاڑہ چنار میں موجود ایک متاثرہ شخص کے حوالےسے بی بی سی اردو نے بتایا کہ سارے علاقے میں فائرنگ اور دھماکوں کی آوازیں آ رہی ہیں۔ایک شہری نے بتایا کہمیرے بزرگ والد کی ادوایات ختم ہو چکی ہیں اور ہم باہر جا کر وہ بھی نہیں لاسکتے ہیں۔ کرفیو کا اعلان تو نہیں ہوا ہے مگر ہم باہر نہیں نکل سکتے ہیں۔ تمام مارکیٹیں اور دکانیں بند ہیں۔‘ایک اور شخص کا کہناتھاکہ علاقے کے لوگوں کے زیادہ تر زمینوں کے تنازعات ہیں جو ایسے سانحات کا سبب بنتے ہیں، مقامی لوگ یہ مسائل اور تنازعات حل کرنا بھی چاہتے ہیں لیکن انتظامیہ اور حکومتی مشینری کی طرف سے تعاون نہیں ہوتا، روایتی لیت و لعل سے کام لیا جاتا ہے۔