وزیر داخلہ احسن اقبال پر قاتلانہ حملہ


وزیر داخلہ احسن اقبال قاتلانہ حملے میں زخمی ہوگئے، اب وہ سروسز ہسپتال (لاہور) میں رو بصحت ہیں اور ان کی حالت خطرے سے باہر بیان کی گئی ہے، ان پر شکر گڑھ کے نواحی علاقے میں ایک تقریب کے دوران فائرنگ کی گئی، گرفتار نوجوان کارنر میٹنگ کے دوران اگلی قطار میں بیٹھا تھا جس کے اختتام پر اس نے وزیر داخلہ پر فائرنگ کی، گولی ان کے دائیں بازو کو لگی اور وہاں سے پیٹ میں پیوست ہوگئی، ان کے بازو کی ہڈی ٹوٹ گئی، ہسپتال میں آپریشن کرکے ان کے پیٹ سے گولی نکال دی گئی ہے، احسن اقبال شکر گڑھ کے نواحی علاقے کنجروڑ میں مسیحی برادری کی ایک تقریب میں شریک تھے، موقع پر موجود سکیورٹی اہلکاروں نے حملہ آور کو دبوچ کر پستول قبضے میں لے لیا جس میں مزید گولیاں بھی موجود تھیں، پنجاب پولیس کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) کیپٹن (ر) عارف نواز کا کہنا ہے کہ ملزم نے گولی چلانے کا اعتراف کیا اور اس کی وجہ ختم نبوت کا معاملہ بتایا، پولیس یہ معلوم کرنے کی کوشش کررہی ہے کہ کیا ملزم کے ساتھ کوئی سہولت کار بھی تھا۔
احسن اقبال پر کوئی دو ماہ پہلے ایک تقریب میں جوتا پھینکا گیا تھا، اسی طرح خواجہ محمد آصف پر سیاہی پھینکی گئی تھی، ان واقعات کے تھوڑے عرصے بعد لاہور میں جامعہ نعیمیہ کی ایک تقریب میں مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد نواز شریف پر بھی جوتا پھینکا گیا تھا۔ ان تمام واقعات کے ملزم گرفتار ہوگئے تھے اور غالباً وہ سب عدالتوں سے ضمانتوں پر رہا بھی ہوچکے ہیں لیکن بات اب جوتے اور سیاہی پھینکنے سے فائرنگ تک پہنچ گئی ہے، احسن اقبال کو قریب سے گولی ماری گئی، اس سے ملزم کا ارادہ تو صاف ظاہر ہے اس نے قتل کی نیت سے ہی فائرنگ کی تھی اور اگر سکیورٹی اہل کار اسے قابو نہ کرلیتے تو ممکن تھا وہ مزید گولیاں بھی چلاتا کیونکہ وہ تقریب کے دوران اگر اگلی صف میں بیٹھا تھا اور موقع ملتے ہی فائرنگ کردی تو اس کے ارادے کے بارے میں بظاہر کوئی شبہ نہیں رہ جاتا۔
پاکستانی سیاست میں بعض نو وارد سیاستدانوں یا سیاستدان کہلانے کے شوقین عناصر کی اشتعال انگیز تقریروں کی وجہ سے جو صورتِ حال پیدا ہوگئی ہے اور الزامات سے لتھڑی ہوئی اور گالم گلوچ سے لبریز مشتعل کردینے والی جوشیلی تقریروں کے نتیجے میں جو ذہن متاثر ہوتے ہیں وہ کبھی جوتا پھینکتے، کبھی چہرے پر سیاہی کی پچکاری مارتے اور زیادہ اشتعال کی حالت میں فائرنگ پر بھی اتر آتے ہیں، گذشتہ چندبرس میں سیاست کے نام پر کی جانے والی تقریروں کا بہت باریک بینی سے جائزہ لینے کی ضرورت تھی لیکن بد قسمتی سے ہم نے ان تقریروں کو سرسری انداز میں لیا، اور ان کے اندر چھپے خطرناک جراثیم کو پھیلنے دیا، حکومت کی مخالفت میں تقریر کرنا یا حکومت کے کسی اقدام کی مخالفت کرنا ایک بات ہے اور حکومت مخالف جذبات کی رو میں بہہ کر آگ لگانے اور مار دینے کی تحریک بلکہ انگیخت بالکل دوسری بات ہے، ہمارے سکیورٹی اداروں کا کام تھا کہ وہ ان اشتعال انگیز خطابات کا نفسیاتی تجزیہ کر کے عوام کو اشتعال دلانے والوں سے یہ معلوم بھی کرتے کہ وہ ایسے تقریریں کرکے ملکی قانون کی مخالفت کیوں کررہے ہیں، لیکن انہیں کسی حکومت نے پوچھا نہ کسی سکیورٹی ادارے نے اس لئے وہ بے لگام ہوتے چلے گئے، جن لوگوں نے پولیس افسروں کو مار مار کر ادھ موا کردیا اور جن میں سے بعض ایسے ہیں جو شاید عمر بھر کے لئے معذور ہوگئے ان واقعات میں ملوث کتنوں کے خلاف مقدمات درج ہوئے اور ان مقدمات کی سماعت کرکے کسی کو سزا ملنے کا بھی امکان ہے یا نہیں اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
ایک مقدمے کی ویڈیو میں بہت سے حملہ آور اسلام آباد کی شاہراہ دستور پر ایک پولیس افسر پر وحشیانہ تشدد کررہے ہیں اس تشدد کے نتیجے میں یہ پولیس افسر بری طرح زخمی ہوگیا معلوم نہیں اس زخمی افسر کو ریکور ہونے اور دوبارہ ڈیوٹی سنبھالنے میں کتنا وقت لگا لیکن یہ دیکھا گیا ہے کہ پولیس افسروں کو تشدد کا نشانہ بنانے والوں کو کوئی سزا نہیں ہوئی، پولیس افسر کو مارنے کے لئے اشتعال دلانے بلکہ ہلاشیری دینے والوں کو بھی کسی نے نہیں پوچھا، ایسے واقعات کا سلسلہ اب بھی جاری ہے اور وقتاً فوقتاً پولیس اشتعال کا نشانہ بنتی ہے پولیس اگر کسی ہجوم کو منتشر کررہی ہو اور قوت کا استعمال کررہی ہو تو مشتعل ہجوم کی طرف سے جوابی تشدد سمجھ میں آنے والی بات ہے لیکن اگر کسی اِکا دُکا پولیس والے کو پکڑ کر کوئی ہجوم تشدد کا نشانہ بنا ڈالے تو اس پر کیا کارروائی ہونی چاہئے یہ تو پولیس افسروں اور عدالتوں کے سوچنے کا مقام ہے، بعض مقررین جلتی پر تیل ڈالتے ہیں اور لوگوں کو جلاؤ گھیراؤ کی ترغیب دیتے ہیں ہم نے نہیں سنا کہ ایسے مقررین میں سے کسی کے خلاف کوئی مقدمہ درج ہوا ہو اور اگر کبھی کسی نے جرأت کرہی لی تو بعد میں دباؤ کے ذریعے ایسے مقدمات سرے سے ہی ختم کرادئیے گئے، اگر تشدد کرنے والوں کے خلاف ایسا ہی نرم رویہ اختیار کیا جائیگا تو پھر ایسے ہی واقعات ہوں گے جیسا واقعہ وزیر داخلہ کے ساتھ پیش آیا ہے۔
اطلاعات یہ ہیں کہ انہیں خبردار کیا گیا تھا کہ وہ محتاط رہیں احتیاط برتنے کے مشورے تو اور بھی بہت سے لوگوں کو دئے گئے ہیں لیکن الیکشن مہم کے بھی کچھ تقاضے ہوتے ہیں جن سیاسی جماعتوں نے الیکشن لڑنا ہے اور جن امیدوارں نے اپنے حلقوں میں ووٹروں سے رابطہ کرنا ہے وہ گھروں میں دبک کر تو نہیں بیٹھ سکتے اور اگر ایسا کرتے ہیں تو اُن کی الیکشن مہم متاثر ہوتی ہے ہونا تو یہ چاہئے کہ پولیس اور سیکیورٹی ادارے امن و امان کی فضا بہتر بنائیں جس میں آزادانہ انتخابی مہم چلائی جاسکے اور کسی جرائم پیشہ افراد کو دن دہاڑے لوگوں کی موجودگی میں کسی غیر قانونی حرکت کی جرأت نہ ہو چہ جائیکہ وہ وفاقی وزرأ اور اہم سیاسی رہنماؤں کی جانب جوتے اچھالنے، سیاسی پھینکنے اور فائرنگ تک کرنے سے گریز نہ کریں اگر ایسے واقعات کا سختی سے سدِ باب نہ کیا گیا اور یہ سلسلہ اسی طرح بلا روک ٹوک جاری رہا تو اس کے معاشرے پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوں گے، پھر کوئی بھی محفوظ نہیں رہے گا وہ بھی اس کی زد میں آسکتے ہیں جو فی الحال مطمئن ہیں کہ تشدد کا رُخ اُن کے مخالفوں کی جانب ہے۔