نگران وزیراعظم کا دورہ چین

پاکستان اور چین نے بدھ کو اربوں ڈالر کے سی پیک کا دائرہ کار بڑھانے پر اتفاق کر لیا ہے اور اب اِس کے تحت صنعتی ترقی، انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی (آئی سی ٹی)، ذریعہ معاش کے منصوبوں، کان کنی اور معدنیات کی تلاش سمیت زراعت جیسے شعبوں میں بھی چین پاکستان کے ساتھ تعاون کرے گا۔ سی پیک فی الحال بنیادی ڈھانچے کے منصوبے راہداری (سڑک)، ریل رابطے اور اقتصادی زون تک محدود ہے۔ وزارت ریلوے کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک نے سٹریٹجک مین لائن ون (ML-1) ریل منصوبے کے حوالے سے بھی  ایک معاہدے پر دستخط کر دیے  ہیں۔ سیکرٹری ریلوے کے مطابق ایم ایل ون کی لاگت نو ارب ڈالر سے کم کر کے 6.7 ارب ڈالر کرنے کے بعد اب اِس پر جلد کام شروع کر دیا جائے گا۔ یہ منصوبہ پشاور کو کراچی سے ملاتے ہوئے 1,733 کلومیٹر کو محیط ہوگا جبکہ دونوں شہروں کے درمیان ٹرینوں کی تعداد ممکنہ طور پر 100 تک ہو سکتی ہے۔ اْن کا کہنا تھا کہ اِس معاہدے سے پاکستان کے پورے ٹرانسپورٹیشن نیٹ ورک کو تبدیل کرنے میں مدد ملے گی۔ اْمید ظاہر کی گئی ہے کہ ریل منصوبہ پاکستان ریلوے کے مارکیٹ شیئر کو چار سے 20 فیصد تک لے جانے کے علاوہ تکنیکی ماہرین کے لیے لگ بھگ 20 ہزار ملازمتیں پیدا کرے گا۔ دوسری جانب چین کے یونائیٹڈ انرجی گروپ اور پاکستان ریفائنری لمیٹڈ نے پیداواری صلاحیت بڑھانے کے لیے 1.5 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی مفاہمتی یادداشت پر بھی دستخط کر دیے ہیں۔ یہ معاہدہ پاکستان ریفائنری کی پیٹرول کی پیداواری صلاحیت کو ڈھائی لاکھ ٹن سے بڑھا کر 16 لاکھ ٹن جبکہ ہائی سپیڈ ڈیزل کو چھ لاکھ ٹن سے 20 لاکھ ٹن تک بڑھانے میں مدد دے گا۔ پاکستان اور چین نے سیاسی، اقتصادی، تعلیم، سائنس اور ٹیکنالوجی، ثقافت اور عوامی تعلقات مزید بڑھانے کے علاوہ اعلیٰ سطح کے مذاکرات اور روابط کو مضبوط بنانے پر بھی اتفاق کیا ہے۔ یہ معاہدے اور وعدے نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی دورہ چین کے دوران بیجنگ میں اعلیٰ چینی قیادت سے رابطوں کے دوران ہوئے۔ تیسرے بیلٹ اینڈ روڈ فورم سے خطاب کرتے ہوئے نگران وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان ”کْھلی“ عالمی معیشت کے نظریات کے حصول اور بین البراعظمی پیمانے پر رابطوں کو فروغ دینے کے لیے چین اور دیگر علاقائی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے پرعزم ہے کیونکہ اپنا اور آئندہ نسلوں کا روشن، پرامن اور پائیدار مستقبل مشترکہ ذمہ داری کے ساتھ مل کر کام کرنے کے ویژن کے ساتھ ہی ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ اْن کا کہنا تھا کہ پاکستان نے چین کے عالمی رابطے کے ویژن کی توثیق کی ہے اور منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سرحدوں اور خطوں کے پار دوسرے شراکت داروں کے ساتھ ہاتھ ملانے کا منتظر ہے، اْمید ہے کہ سب مل کر ایسی دنیا تشکیل دے سکتے ہیں جو تقسیم کے بجائے ایک دوسرے کو جوڑتی ہو۔ اْنہوں نے نہ صرف انسانیت کو درپیش پیچیدہ بین الاقوامی چیلنجوں سے نبٹنے اور اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف (ایجنڈا 2030) کے تحت حاصل ہونے والی کامیابیوں کو ناکامیوں میں بدلنے سے روکنے کے لیے متحدہ عالمی ردِعمل کی ضرورت پر زور دیا بلکہ نقل و حمل، توانائی اور ڈیجیٹل معیشت میں سرمایہ کاری کے ذریعے ترقی پذیر ممالک کے لیے بنیادی ڈھانچے کی ضرورت پر بھی روشنی ڈالی۔ اْنہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان نے اربوں ڈالر کی لاگت سے سی پیک اور گوادر کی بندرگاہ کو خشکی میں گھرے ممالک سے جوڑ کر ملک کو تجارتی مرکز بنانے کے لیے اقدامات کیے ہیں اور اِن اقدامات سے مغرب اور اِس سے آگے کی دنیا کے لیے نئے راستے کھل گئے ہیں۔ 

وزیراعظم آفس کے مطابق وزیراعظم کاکڑ اور چینی وزیراعظم کے درمیان فورم کے موقع پر ہونے والی ملاقات میں دو طرفہ تعلقات پر تبادلہ خیال کیا گیا جبکہ دونوں رہنماؤں نے اس خصوصی تقریب کا بھی مشاہدہ کیا جس میں تجارت، مواصلات اور ٹرانسپورٹ کے شعبوں میں متعدد مفاہمتی یادداشتوں اور معاہدوں پر دستخط کیے گئے  ان میں خوراک کی حفاظت اور تحقیق، ذرائع ابلاغ کے تبادلے، خلائی تعاون، شہری پائیدار ترقی، صلاحیت کی تعمیر، معدنی ترقی اور صنعتی تعاون، موسمیاتی تبدیلی اور ویکسین کی ترقی سے متعلق یادداشتیں اور معاہدے شامل ہیں۔ ملاقات کے دوران نگران وزیراعظم نے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کو دنیا کے لیے رابطے اور مشترکہ خوشحالی کے حوالے سے بہت اہمیت کا حامل منصوبہ قرار دیا۔ اْن کا کہنا تھا کہ سی پیک 10 سال پورے کر چکا ہے، اْمید ہے آئندہ مرحلے میں اِس سے دیہی کسانوں کو ترقی، تعلیم کو فروغ اور چھوٹے کاروباروں کو تقویت ملے گی جبکہ روزگار کے مواقع پیدا ہونے سے غربت کا خاتمہ بھی ممکن ہو سکے گا۔ اْنہوں نے کہا کہ سی پیک کے گرین کوریڈور اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں جدت پیدا کرنے کے علاوہ خوراک کی حفاظت، زرعی اور ماحولیاتی تحفظ کو یقینی بنایا جائے گا۔ نگران وزیراعظم کا کہنا تھا کہ چین کا ویژن اجتماعی سلامتی، جامع اور پائیدار ترقی، اور ایک متوازن ماحولیاتی نظام کے ذریعے عالمی چیلنجوں سے نبٹنے کا واحد راستہ ہے۔ اْنہوں نے اِس یقین کا بھی اظہار کیا کہ خصوصی اقتصادی زونز میں چینی سرمایہ کاری سے پاکستانی برآمدات اور صنعتی بنیاد کو وسعت دینے میں مدد ملے گی۔ چین کے وزیراعظم نے دوطرفہ تعاون کی مسلسل نمو پر زور دیتے ہوئے اْمید ظاہر کی کہ قیادت کا اتفاق دونوں ممالک کے درمیان تجارتی اور اقتصادی تعلقات کو مزید فروغ دے گا۔

پاکستان اِس وقت معاشی بحران سے گزر رہا ہے اور سخت اقدمات کے باعث اگرچہ معیشت کے کچھ اشاریے مثبت آنا شروع ہو گئے ہیں تاہم اِسے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے لیے بڑی سرمایہ کاری درکار ہے، حکومت نے 100 ارب ڈالر کا ٹارگٹ رکھا ہوا ہے اور اِس کے حصول کے لیے خصوصی سرمایہ سہولت کاری کونسل (ایس آئی ایف سی) دن رات کام کر رہی ہے وزیراعظم کے دورہ چین سے بھی بہت سی اْمیدیں وابستہ کی جا رہی تھیں، کچھ اچھی خبریں آئی ہیں جن میں سب سے اہم سی پیک کی سڑک، ریل رابطے اور اقتصادی زون سے نکل کر زراعت، آئی ٹی اور معدنیات جیسے سیکٹرز تک توسیع ہے، یاد رہے کہ یہ وہ سیکٹرز ہیں جو ایس آئی ایف سی نے سرمایہ کاری لانے کے لیے مقرر کر رکھے ہیں۔ بعض عرب ممالک کی طرف سے بھی اِن میں سرمایہ کاری کا عندیہ دیاگیا ہے، اب نگران وزیراعظم کے دورہ چین سے یہ اْمید پیدا ہو گئی ہے کہ مستقبل قریب میں پاکستان کا دیرینہ دوست چین بھی اِن سیکٹرز میں سرمایہ کاری کرے گا جس سے ایسا لگ رہا ہے کہ ایس آئی ایف سی اپنا مطلوبہ ٹارگٹ جلد پورا کر لے گی۔ چین نے پاکستانی معیشت کو  نہ صرف آئی سی یو سے نکالنے میں پاکستان کی مدد کی بلکہ اب اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے میں بھی  آگے نظر آرہا ہے، یقیناً ضرورت کے وقت کام آنے والے ہی کو دوست کہا جاتا ہے اور چین پاکستان کے بہترین دوستوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ ماضی میں ایسی اطلاعات بھی سامنے آئیں کہ سعودی عرب پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرنا چاہتا تھا تاہم پاکستانی بیورو کریسی مطلوبہ انتظامات اور اقدامات کرنے میں ناکام رہی، اب ملک ایسی کسی مجرمانہ غفلت کا متحمل نہیں ہو سکتا،  ملک کے تمام سٹیک ہولڈرز کو دن رات ایک کر کے کہیں سے ایک پائی کی بھی سرمایہ کاری ہو رہی ہو تو اْس کا حصول یقینی بنانا چاہئے کہ قطرہ قطرہ مل کر ہی دریا بنتا ہے۔