فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 287

فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 287
فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 287

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ناہید‘تم ملے پیار ملا‘ سالگرہ‘ افسانہ‘ آگ‘ پھول اور پتھّر‘ چاند سورج‘ رم جِھم‘ افشاں‘ یہ سب کی سب انتہائی کامیاب فلمیں تھیں۔ سلیمان کی الزام‘ اقبال یوسف کی ’’ہل اسٹیشن‘‘ ہمایوں مرزا کی ’’خاک اور خون‘‘ فرید احمد کی ’’بندگی‘‘ ایم صادق کی ’’بہارو پھول برساؤ‘‘ راکھن کی’’سہرے کے پھول‘‘ شمیم آراء کی ’’سہاگ‘‘ اور ’’قرض‘‘ شوکت حسین رضوی کی’’دلہن رانی‘‘ لقمان کی ’’پرچھائیں‘‘ اس کے علاوہ زینت ‘ غلام‘ آبرو‘ سزا‘ دنیا گول ہے‘ ایمان دار‘ ساجن رنگ رنگیلا‘ شکوہ‘ گمراہ‘ پالکی‘ ایثار‘ نیکی بدی‘ پرستش‘ تیری صورت میری آنکھیں‘ محبت مر نہیں سکتی‘ مِلن‘ آپ سے کیا پردہ‘ ضمیر‘ آزمائش‘ بدنام‘ وقت‘ انسانیت‘ چکّر باز‘ دیدار‘ محبوب‘ میرا مستانہ یہ سب کی سب ناشاد کی بہترین نغمہ بار فلمیں ہیں ۔

فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 286  پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
پرستش ان کی ذاتی فلم تھی جو کامیاب نہ ہو سکی مگر اس کے بعد وہ ایک اور فلم بنانے کھڑے ہو گئے۔ دونوں فلموں میں انہوں نے گھاٹا اٹھایا اور ساری کمائی ضائع کر دی۔
ناشاد صاحب کثیر العیال آدمی تھے۔ چودہ یا پندرہ بچّوں کے والد تھے۔ ایک دن گنڈاپور صاحب نے تو پوچھ ہی لیا ’’ناشاد صاحب ۔ آپ کی بیویاں کتنی ہیں؟‘‘
ناشاد صاحب بُرا مان گئے’’ارے میاں شریف لوگ ہیں۔ ایک ہی بیوی پر گزارہ کرتے ہیں،آپ کی طرح آوارہ نہیں ‘‘
ہدایت کار ثناء اللہ خان گنڈا پور تھوڑے سے کھسیانے ہوئے لیکن ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دی اور یہ لطیفہ بنالیا کہ ناشاد صاحب کو اپنے بچّوں کے نام تک صحیح طرح یاد نہیں ہیں۔
’’ارے میاں کیوں بکواس کرتے ہو۔ سب یاد ہیں‘‘
’’اچھا۔ تو پھر ترتیب وار اپنے سارے بچّوں کے نام سنا دیں تو یہ سو روپیہ کا نوٹ آپ کا ہوگیا ورنہ آپ سے سو روپیہ لوں گا۔‘‘
ناشاد صاحب محبّت سے نام گنوانے لگے۔ ’’واجد‘ ماجد‘ مکو‘‘اس کے بعد وہ سوچ میں پڑ گئے۔
ثناء اللہ خان نے کہا ’’بس بس سو روپیہ نکال کر رکھ دیں۔ آپ شرط ہار گئے ہیں۔‘‘
’’شرط کس نے لگائی تھی۔ ارے میاں شرط لگانا تو حرام ہوتا ہے۔‘‘
ان کا ایک اور لطیفہ بھی مشہور تھا۔لوگ اسکو انجوائے کرتے۔ ناشاد صاحب نے کار خریدی تو گھر لے گئے۔ گلی میں کار دیکھی تو بہت سے بچّے اکٹھّے ہوگئے۔ کوئی اس پر چڑھ رہا ہے کوئی ہاتھ لگا رہا ہے کوئی اس کے اندر گھسنے کی کوشش میں ہے۔
ناشاد صاحب بہت ناراض ہوئے ’’ارے بھئی سب اپنے اپنے گھروں کو جاؤ۔ کوئی میری گاڑی کو ہاتھ نہ لگائے۔ چلو۔ بھاگو۔‘‘
انہوں نے سب بچّوں کو بھاگنے کیلئے ڈانٹا تو ایک بولا ’’ابّا میں توآپ کا بچّہ ہوں‘‘
دوسرے نے کہا ’’ابّا میں بھی آپ کا بچّہ ہوں۔‘‘
تیسرا بولا ’’ابّا میں بھی۔‘‘
معلوم ہوا کہ سبھی ا ن کے بچّے تھے۔
یار لوگوں نے یہ مشہور کر دیا تھا کہ ناشاد صاحب نے بچّوں کے نمبر مقرر کر دئیے ہیں اور ناموں کے بجائے انہیں نمبر سے پکارتے ہیں۔
ناشاد صاحب انگریزی نہیں جانتے تھے مگر انگریزی کے الفاظ استعمال کرنے کے شوقین تھے۔ ایک بار کسی فلم ساز نے کہا ’’ناشاد صاحب آپ اچھّا لباس کیوں نہیں پہنتے۔ ٹھاٹ باٹ سے رہا کیجئے۔ سیہل رعنا کو دیکھا ہے۔ کتنا اچھّا لباس پہنتا ہے۔‘‘
ناشاد صاحب بولے ’’ارے بھئی‘ سہیل رعنا کا اور ہمارا کیا مقابلہ۔ وہ ٹھہرا بیچلر آدمی۔ بس ایک بیوی اور دو بچّے۔ ہمیں تو اللہ نے بہت سے بچّے دے رکھے ہیں۔‘‘
یہ بیچلر والا لطیفہ اتنا مشہور ہوا کہ ناشاد صاحب اس کی تردید کرتے کرتے تھک گئے۔ ’’ایمان سے بالکل جھوٹ ہے۔ بکواس ہے، ویسے ہی کسی نے گھڑی ہے یہ بات۔‘‘
ایک بار ہم ملک سے باہر گئے ہوئے تھے۔ وطن واپس آئے تو ناشاد صاحب کے انتقال کی خبر ملی۔ بے حد قلق ہوا۔ اللہ مغفرت کرے۔ بہت اچھّے اور معصوم آدمی تھے۔ ایسے لوگ اب کہاں؟
موسیقار ناشاد نے پاکستان آ کر جن فلموں کی موسیقی مرتّب کر کے بہت نام پیدا کیا ان میں ایک ’’سالگرہ‘‘ بھی تھی۔ قمر زیدی اس کے ہدایت کار تھے۔ یہ وہی قمر زیدی تھے جو ہماری صحافتی زندگی کے بالکل آغاز میں ہمیں ملے تھے۔ میکلوڈ روڈ پر ایک مکان کی دوسری منزل پر خلیل احمد (جو اس وقت میوزک ڈائریکٹر نہیں تھے) مسعود اشعر جو اب معروف ادیب اور صحافی ہیں) اور قمر زیدی رہا کرتے تھے۔ خلیل ایک انگریزی کمپنی میں ملازم تھے۔ مگر موسیقی کے شیدائی تھے اور راگ راگنیوں کی پوری تعلیم و تربیت حاصل کر چکے تھے۔ اس وقت وہ گلوکار بننے کے شوقین تھے اور اتفاق دیکھئے کہ انہوں نے فلم ’’گلنار‘‘ میں ملکہ ترنم نورجہاں کے ساتھ ایک دوگانا بھی گایا تھا جو بڑے اعزاز کی بات تھی اور اب بھی ہے۔ یونس راہی جو بعد میں مشہور فلمی مصنّف اور ہدایت کار بن گئے تھے‘ وہ بھی اس گھر میں آتے جاتے رہتے تھے۔ قمر زیدی واحد آدمی تھے جن کا فلموں سے براہ راستہ واسطہ تھا۔ وہ ’’گلنار‘‘ میں سیّد امتیاز علی تاج کے اسسٹنٹ تھے۔ وہ چھوٹے قد کے گول مٹول سے آدمی تھے۔ بے حد مسخرے اور لطیفے ان کی زبان سے برستے رہتے تھے۔ نقلیں کرنے میں بھی ماہر تھے۔ ہدایت کار کی معاونت تو وہ کم کرتے تھے سب کو نقلیں دکھا کر اور لطیفے سنا کر خوش رکھتے تھے۔ ہم سب ان سے کہا کرتے تھے کہ بھائی کیوں بلاوجہ اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع کر رہے ہو۔ کامیڈین بن جاؤ تو مزے میں رہو گے مگر انہیں ہدایت کار بننے کا خبط تھا جس کا ہم سب مذاق اڑایا کرتے تھے۔ دراصل ان جیسا غیر سنجیدہ آدمی جو کسی معاملے میں بھی کبھی سنجیدہ نہ ہوتا تھا اور بقول مسعود اشعر کے موٹی عقل کا مالک تھا وہ بھلا ہدایت کار کیسے بن سکتا تھا؟۔ یہ بات اور ہے کہ کچھ عرصے بعد ہم نے ان سے بھی زیادہ موٹی عقل والوں کو کامیاب ہدایت کار بنتے ہوئے دیکھا اور سوچا کہ یہ دن بھی دیکھنا تھا۔
قمر زیدی ’’گلنار‘‘ کی ریلیز کے بعد کراچی چلے گئے تھے جہاں ان کے اہل خاندان آباد تھے۔ ان کا تعلّق یوپی سے تھا یعنی اہل زبان تھے۔ خلیل احمد کہا کرتے تھے کہ اس شخص کو دنیا میں کچھ بھی سیکھنے کی ضرورت نہیں پیش آئی۔ اردو ہوش سنبھالتے ہی کانوں میں پڑی اسلئے اہل زبان ٹھہرے۔ دوسرا کوئی ہنر نہ انہوں نے سیکھا اور نہ ہی انہیں آیا۔ قمر زیدی یہ سن کر بھی ہنستے رہتے اور خلیل کی نقلیں کرنے میں مصروف رہتے تھے۔ کراچی جا کر ہم لوگوں سے ان کا رابطہ منقطع ہوگیا۔ ہم نے فلمی صحافت کا آغاز کر دیا اور فلمی دنیا سے تعلّق پیدا ہوگیا۔ سنا کہ وہ کراچی میں کسی ڈائریکٹر کے اسسٹنٹ ہیں۔ ہم سب سوچتے کہ یہ شخص بلا وجہ وقت ضائع کر رہا ہے۔
جب فلمی دنیا میں ہماری مصروفیات بڑھ گئیں تو ان دنوں خبر ملی کہ قمر زیدی کراچی میں ایک فلم کے ہدایت کاری کررہے ہیں۔ انہوں نے یورپ اور مڈل ایسٹ جا کر ایک فلم کی شوٹنگ کر ڈالی جو اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا۔ وہ بیرون ملک کسی پاکستانی فلم کی شوٹنگ کرنے و الے پہلے ہدایت کار تھے۔ فلم کا نام تھا ’’یہ رشتہ ہے پیار کا‘‘ اور اس میں وحید مراد اور زیبا نے مرکزی کردار ادا کئے تھے۔ یہ فلم تو کامیاب نہ ہوئی مگر قمر زیدی کا نام ہوگیا۔ ’’سالگرہ‘‘ بھی ایک بہت بڑی پارٹی کی فلم تھی۔ ہم لوگ حیران تھے کہ قمر زیدی جیسا سادہ لوح‘ موٹی عقل کا شخص اتنے بڑے بڑے سرمایہ داروں کو کس طرح شیشے میں اتار لیتا ہے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں چند ہی فلمیں ڈائریکٹ کی ہیں اور سب کے فلم ساز کروڑ پتی لوگ تھے۔ جو شخص ہر طرح کی چالاکی اور لفاظی کی صلاحیت سے محروم تھا وہ اتنی موٹی آسامی کیسے پھنسا لیتا تھا؟ یہ راز کبھی ہم دوستوں پر نہ کُھلا۔
قمر زیدی نے ’’سالگرہ‘‘ جیسی فلم شروع کر دی جس میں اس وقت کے سُپرسٹار کام کر رہے تھے۔ وحید مراد‘ شمیم آرا مرکزی کرداروں میں تھے۔ طارق عزیز بھی ایک اہم کردار میں کاسٹ کئے گئے تھے۔ سب لوگ مذاق اڑاتے تھے کہ خدا جانے قمر زیدی کیا بنا رہے ہیں جس کا نہ سر ہے نہ پیر۔ شمیم آرا اور وحید مراد ایک دوسرے سے مذاق میں کہا کرتے تھے کہ بھئی سالگرہ ریلیز ہونے والی ہے۔ بہتری اسی میں ہے کہ ہم اس موقع پر پاکستان سے باہر چلے جائیں ورنہ بہت بُرا بھلا سننا پڑے گا۔ ہو سکتا ہے گندے انڈے اور ٹماٹر بھی پڑ جائیں۔ گویا اس فلم کے بار ے میں سبھی لوگ مایوس تھے۔ مگر جب یہ فلم ریلیز ہوئی تو اپنے دور کی کامیاب ترین فلم کہلائی اور اس نے مقبولیت کے بہت سے پہلے ریکارڈ توڑ دئیے۔ (جاری ہے )

فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 288 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں